سیاستمضامین

اکھلیش یادو کیا انڈیا اتحاد کے ویلن بنیں گے؟

راکیش اچل
انڈیا اتحاد کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ بول چال کی زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’رائیتا پھیلنے والا ہے‘‘ اور اس کا سہرا سماج وادی پارٹی کے سر جائے گا۔ سماج وادی پارٹی نے مدھیہ پردیش اسمبلی میں کانگریس کے خلاف اپنے امیدوار کھڑے کرکے اس کی شروعات کی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سپریمو اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ ’’مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے چھ سیٹیں چھوڑنے کا یقین دلایا تھا، لیکن ایک بھی سیٹ نہیں چھوڑی۔‘‘
اکھلیش نے اشارہ دیا کہ دہلی کے اتحاد پر ایس پی بھی ایسا ہی سلوک کرے گی۔ ظاہر ہے مستقبل میں ایسا ہی ہوگا۔ سوشلسٹوں کی فطرت یہ ہے کہ وہ نہ تو ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ سوشلسٹ نظریہ کے مطابق بے لوث خدمت، ایثار اور روحانی میلان – ان میں استحصال کرنے والے اور استحصال ہونے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی جائیداد ہے تو وہ صرف معاشرے کی میراث ہے، اس کے مطابق تمام لوگوں کو برابری کی حالت میں ہونا چاہیے۔ سب کے لیے مساوات۔ لیکن آج ملک کے تمام سوشلسٹوں کا طرز عمل اس قائم کردہ اصول کے خلاف ہے۔ خواہ وہ کہیں کے سوشلسٹ ہوں۔
ہندوستان میں کسان مزدور پارٹی کے قیام کے بعد سے سماج وادی پارٹی کے علاوہ ملک میں کتنی سوشلسٹ پارٹیاں ہیں، اس کا حساب لگانا ایک مشکل کام ہے۔ کسی کے پاس سائیکل ہے اور کسی کے پاس لالٹین، لیکن سب اندھیرے میں ہیں۔ اس سے پہلے سماج وادی پارٹی کانگریس کی کوکھ میں تھی لیکن جب بات نہیں بنی تو کانگریس سے نکل کر الگ سیاسی پارٹی بنا لی۔ پہلے کرشک مزدور پرجا پارٹی بنائی گئی اور پھر پرجا سوشلسٹ پارٹی۔ اس سے بھی کام نہیں ہوا، چنانچہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی الگ سماج وادی پارٹی بنائی گئی۔ کانگریس کی طرح بائیں بازو کے لوگ بھی سوشلزم کے نام پر بٹ گئے۔ اور پھر سماج وادی پارٹی مسلسل تقسیم ہوتی رہی۔ آج ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی اتر پردیش میں ہے۔ لالو پرساد یادو کی بہار میں اپنی پارٹی ہے۔ نتیش کمار کی اپنی پارٹی ہے، نوین پٹنائک کی اوڈیشہ میں اپنی پارٹی ہے۔ ہر چیز کی جڑ میں سوشلزم ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ یہ کیسا سوشلزم ہے۔
آج جب ملک میں بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ پلیٹ فارم بن چکا ہے تو پہلا حملہ اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو نے کیا ہے۔ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات اس کا بہانہ بن گئے۔ مدھیہ پردیش میں سماج وادی کانگریس سے 6 سیٹیں چاہتی تھی لیکن بات نہیں بنی اور اب یادو دھمکی دے رہے ہیں کہ بھوپال میں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، وہ دہلی میں کانگریس کے ساتھ وہی کریں گے۔ ہمارے سماجوادی دوست راماشنکر سنگھ نے بہت پہلے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعد اپوزیشن اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا اور اب یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔
سماجوادی ہو یا بہوجن سماج پارٹی، مدھیہ پردیش کی سیاست میں ان کی موجودگی اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسی رہی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں کبھی ایک درجن سے زیادہ نشستیں نہیں جیت سکیں اور جب بھی وہ جیتیں، انہیں ہمیشہ حکمران جماعت نے خرید لیا۔ سماج وادی پارٹی کے پاس اپنے لیڈر نہیں ہیں۔ مدھیہ پردیش میں سماج وادی پارٹی کانگریس اور بی جے پی کے باغیوں کے لیے کرائے کا پلیٹ فارم ہے۔ اس بار بھی ایس پی ایم ایل اے سنجیو سنگھ آخرکار بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ وہ پٹواری بھرتی اسکینڈل میں بھی ملزم ہیں۔ ان کے والد کئی بار بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔
مدھیہ پردیش میں الیکشن لڑ کر سوشلسٹ اسی بی جے پی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو انہیں ای ڈی، سی بی آئی اور اس طرح کے دیگر ہتھیاروں سے ڈراتی رہتی ہے۔ فی الحال کانگریس کو مدھیہ پردیش میں کسی تیسری پارٹی کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ سماج وادی پارٹی کی اور نہ ہی عام آدمی پارٹی کی۔ ان چھوٹی جماعتوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اب انہوں نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنا شروع کردیا۔ عام آدمی پارٹی مدھیہ پردیش میں بھی الیکشن لڑ رہی ہے اور اسی طرح سماج وادی پارٹی بھی۔ بہوجن سماج پارٹی کو الیکشن لڑ کر کچھ پیسے ملتے ہیں۔ اس بار بی جے پی کے تمام ناراض قائدین‘ بی ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
سماج وادی پارٹی کے سپریمو اکھلیش یادو، جو انڈیا الائنس کے رکن ہیں، اپنے والد ملائم سنگھ یادو کی طرح بالغ نظر نہیں ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سوشلسٹ اقتدار کے لیے آپس میں لڑتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے اکھلیش اور ان کے چچا شیو پال کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تھی۔ بہار میں شرد یادو اور نتیش کمار لڑ پڑے۔ آر جے ڈی میں بھی کشیدگی برقرار ہے۔ اڈیشہ میں نوین پٹنائک اپنے والد کی بی جے ڈی کو ٹوٹنے سے بچا رہے ہیں لیکن وہ کسی تین پانچ میں نہیں ہیں۔ وہ نہ بی جے پی کے دشمن ہیں اور نہ ہی کانگریس کے دوست ہیں۔ اکھلیش یادو کو یا تو نوین پٹنائک یا بہن مایاوتی سے سیاست سیکھنی چاہیے۔ وہ اپنے گھمنڈ میں یہ بھول گئے ہیں کہ اگر سماج وادی پارٹی اپوزیشن اتحاد سے دور رہی تو بی جے پی اقتدار میں آئے گی یا کانگریس اسے ’’ہپا‘‘ کی طرح نگل جائے گی۔
سماج وادی پارٹی کے رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے کانگریس نے مدھیہ پردیش اسمبلی کی 230 میں سے 229 سیٹوں کے لیے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ کانگریس نے بھی آخر میں دو تین امیدواروں کو تبدیل کیا ہے۔ یعنی کانگریس اپنی دھن کے مطابق اپنا کام کر رہی ہے۔ اکھلیش بھول جاتے ہیں کہ وہ اتر پردیش میں نہیں بلکہ مدھیہ پردیش میں سیاست کرنا چاہتے ہیں جہاں ان کی پارٹی کی حیثیت بالکل وہی ہے جو اتر پردیش میں کانگریس کی ہے۔ لیکن اتر پردیش میں صفر ہونے کے باوجود ملک کی چار ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے۔ یعنی کانگریس کے سامنے اکھلیش کی پارٹی کی حیثیت بہت کم ہے۔
اکھلیش کن شرائط پر انڈیا اتحاد میں شامل ہوئے تھے وہ جانیں اور کانگریس جانے، لیکن اس وقت ان کا کردار بی جے پی کے خیر خواہ کا لگتا ہے۔ اکھلیش کو ان کے اس کردار سے فائدہ ملے گا یا نقصان، صرف وہی جانتے ہیں، لیکن باہر سے لگتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماربیٹھے ہیں بلکہ اپوزیشن اتحاد کے لیے بھی ویلن بن رہے ہیں۔
سماج وادی اپنے فقیرانہ مزاج کی وجہ سے کم سے کم مجھے تو پسند ہیں۔ وہ بھلے ہی دولت کے مالک بن گئے ہیں لیکن پھر بھی فقیروں کی طرح ہی ہیں۔ بات بھی ویسی ہی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ تخریب کاری کے اپنے رویے کو نہیں بدل سکے۔ توڑپھوڑ ان کے ڈی این اے کا لازم و ملزوم حصہ بن چکی ہے۔ سوشلسٹوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ خود کو سب سے بڑا سیاستدان سمجھتے ہیں۔ وہیں اگر آپ ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پچھلے 75 سالوں میں سماج وادی پارٹی کبھی بھی قومی پارٹی نہیں بن سکی ہے۔ اکیلے کبھی اقتدار میں نہیں آسکی۔ وہ خود نہیں جانتے کہ وہ کب اور کس پارٹی سے بلغگیر ہوجائیں۔
سوشلسٹوں کے لیے نہ تو کانگریس اور نہ ہی بی جے پی اچھوت ہے۔ نہ بی ایس پی اچھوت ہے اور نہ ہی کوئی تیسری پارٹی۔ وہ سب کے ساتھ کھچڑی پکا سکتے ہیں اور سب کو ایک جھٹکے میں زمین پر پٹخ سکتے ہیں۔ رائتہ پھیلانا سماج وادیوں کا پیدائشی حق ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w