مذہب

ایک نومسلم سےلیا گیا انٹرویو

ایک رات مجھے خواب میں دکھائی دیا کہ ایک صاحب سفید کپڑے پہنے ہوئے سفید ٹوپی لگائے ہوئے آئے اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے‘ کہنے لگے کہ لکھو‘ میں نے کہا کہ لکھنے کے لیے تو کاپی اور پین کی ضرورت ہے ‘ میں کاپی پین لے کرآتا ہوں۔ میں کاپی اور پین لایا‘ انہوں نے کہا لکھو: ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو مجھے یادہے‘ اس کو لکھنے کی کیا ضرورت‘ میں نے ان سے معلوم کیا کہ تم کون ہو‘ وہ کہنے لگے کہ میرانام معین الدین ہے‘ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

احمد اواہ ندوی

سوال: آپ کا پہلا نام ؟
جواب: میرا پہلا نام ’’پیر کھلائی ناتھ عرف بھولہ گری‘‘ تھا اور اب عبد العزیز ہے۔

س: آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟
ج: ٹوڈہ کلیان پور کا میں رہنے والا ہوں‘ یہ میرآبائی وطن ہے، ویسے میں ہریانہ کے ایک آشرم میں رہتا تھا اور وہاں پر میں دو آشرم کا ذمہ دار تھا۔

س: کیا یہ دونوں آشرم ایک ہی جگہ تھے؟
ج: نہیں دوسرآشرم باڑمیر راجستھان میں تھا۔

س: آشرم میں آپ کیا کرتے تھے؟ اور وہاں پر جو لوگ آتے تھے ان کو کیا عمل کرایا جاتاتھا؟
ج: آشرم میں ہم صبح وشام لوگو ں کومورتی پوجا کراتے تھے میرے گروجی پیر سرجائی ناتھ عرف دھنش گری نے مجھے آشرم کا ذمہ دار بنادیا تھااور ان دونوں آشرم کا مختار نامہ میرے نام کردیا تھا وہاں پر پوجا پاٹھ کراتا تھا‘ اور جو لوگ آئیں ان کا کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کیا جاتا تھا اور غریبوں کو کمبل وغیرہ تقسیم کئے جاتے تھے اورجو لوگ پریشان حال ہوتے‘ یا کسی کی جیب کٹ جاتی یا چوری ہو جاتی تو ان کی مدد بھی کی جاتی تھی‘ آشرم کی 1200؍ بیگہ زمین اور 4ٹریکٹر تھے‘ اور جائیداد سے متعلق2مقدمے ‘ سبھی گرو نے میرے نام کردئے تھے اور میں ان سب کا مالک تھا۔

س: گروجی نے آپ کو اپنا جانشین کس بنا پر بنا یا تھا؟
ج: جانشین بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ گرو اپنے ششیوں میں سے کسی ایک کو چنتا ہے جو انہیں اچھا دکھائی دے اور گرو کو اس پر اعتبار ہو کہ وہ اس کے مال ودولت اور آشرم کی صحیح طور پر حفاظت کرے گا‘ تو گرو اس کو آشرم کی مال ودولت کا مختار نامہ اس کے نام کردیتا ہے اور اس کو آشرم کا مالک بنادیتا ہے۔

س: آپ کی تعلیم کہاں تک ہے؟
ج: میری تعلیم انٹر میڈیٹ تک ہے۔

س: آپ کے اسلام قبول کرنے کی کیا وجہ رہی؟کس نے آپ کو دعوت دی؟
ج: مجھے کسی نے دعوت نہیں دی‘ مجھے پہلے سے ہی سچائی کی تلاش تھی‘ اور اپنے مالک سے ملنے کی تڑپ‘ جب ہم آشرم میں پوجا پاٹھ کرنے کے بعد آرام کرنے کے لیے لیٹتے تھے تو کہتے تھے کہ مالک تم ہو ضرور‘ اور ہمیں سچائی کی تلاش ہے اور سچائی ہمیں مل جائے تو بہت ہی اچھی بات ہو‘ اس کے بعد ایک دن خواب میں میرے مالک نے مجھے سچائی کو بتا ہی دیا۔

س: خواب میں آپ نے کیا دیکھا؟
ج: ایک رات مجھے خواب میں دکھائی دیا کہ ایک صاحب سفید کپڑے پہنے ہوئے سفید ٹوپی لگائے ہوئے آئے اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے‘ کہنے لگے کہ لکھو‘ میں نے کہا کہ لکھنے کے لیے تو کاپی اور پین کی ضرورت ہے ‘ میں کاپی پین لے کرآتا ہوں۔ میں کاپی اور پین لایا‘ انہوں نے کہا لکھو: ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو مجھے یادہے‘ اس کو لکھنے کی کیا ضرورت‘ میں نے ان سے معلوم کیا کہ تم کون ہو‘ وہ کہنے لگے کہ میرانام معین الدین ہے‘ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

س: اس کے بعد کیا ہوا؟
ج: صبح کو آشرم کے قریب میں کچھ مسلمان بھائی رہتے تھے میں نے ان سے اپنے خواب کے بارے میں بتایا اور معلوم کیا کہ یہ معین الدین کون ہیں‘ وہ کہنے لگے کہ یہاں معین الدین تو کوئی نہیں‘ ہاں اجمیر میں ان کی درگاہ ہے‘ وہ مجھے لے کر اجمیر گئے وہاں میں پہنچا تو کوئی کہتا کہ درگاہ پر پھول چڑھائو اور کوئی کہتا کہ کتنے پیسے لکھوں؟ میں نے کہا کہ تیری مرضی ہے چاہے جتنے لکھ دے‘ میرے دل نے کہا کہ یہ تو‘ ہماری طرح ہی کرتے ہیں، جس طرح ہم پوجا پاٹھ کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی کرتے ہیں‘ یہاں توکوئی خاص بات نہیں ہے‘ تو میں وہاں سے آشرم واپس آگیا۔

س: پھر کیا ہوا؟
ج: آشرم میں واپس آکر میں نے دو سفید تہبند اور کرتے سلوائے اور میں ٹرین سے دلی چلا گیا۔ جب دہلی اسٹیشن پر پہنچا تو میرے دل نے کہا کہ تو سہارنپور چل ‘ میں سہارنپور آشرم میں جہاں پر ہرگری ذمہ دار تھے جن کو میںپہلے سے جانتا تھا ان کے یہاں چلاگیا، وہاں پر میں ایک رات ٹھہرا‘ صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ مجھے جانا ہے‘ میں ٹھہر نے کے ارادے سے نہیں آیا تھا۔ اس لئے نکل گیا‘ سہارنپور اسٹیشن پر پہنچا تو میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دیوبند جانا چاہیے ‘ میں نے دیوبند کا ٹکٹ لیا اور دیو بند پہنچ گیا‘ دیو بند اسٹیشن سے باہر نکل کر ایک رکشا والے سے جس نے کرتا پائجامہ اور ٹوپی لگائی ہوئی تھی‘ اس سے میں نے کہا کہ مجھے مسلمان ہونا ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ مسلمان کس طرح ہوتے ہیں؟ تو مجھے مسلمان بنانے کیلئے لے چل‘ اس نے مجھے رکشہ میں بٹھا کر مولانا اسلم صاحب کے یہاں لا کر چھوڑدیا‘ وہا ں مولانا اسلم صاحب سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے مجھے کلمہ پڑھایا اور دارالعلوم گھما یا اور میری دعوت کی ‘ پھر شام میں مجھے ایک صاحب کے ساتھ پھلت حضرت کے پاس بھیج دیا‘ حضرت نے میرے کاغذات بنوا کر جماعت میں جانے کے لیے بٹلہ ہائوس بھیج دیا ‘ وہاں جا کر میں جماعت میں چلا گیا۔

س: کتنے دن کی جماعت میں گئے تھے آپ؟
ج: میں نے جماعت میں جاکر چار مہینے لگائے‘ جماعت میں ‘ میں نے نماز وغیرہ یاد کی اور پاکی ناپاکی وغیرہ کے بارے میں جانا۔

س: اس کے بعد کیا ہوا؟
ج: میں پھلت آگیا اور پھلت میں آکر مدرسہ میں نوکری کرلی وہاں پر جو مجھے تنخواہ ملتی تھی‘ اس میں میرا کام نہیں چلا تو میں بغیر بتائے پھلت سے چلا گیا۔

س: کہاں چلے گئے تھے آپ؟
ج: میں واپس اپنے علاقے میں چلا گیا تھا۔

س: وہاں پر کیا کیا آپ نے ؟
ج: میں پھلت سے یہ نیت کرکے نکلا تھا کہ وہاں جا کر دعوت کا کام کروں گا ‘ وہاں لوگ مجھے بہت مانتے ہیں۔

س: وہاں پر آپ نے کسی کو دعوت دی؟
ج: ہاں میں نے لوگوں کو سمجھا یا اور مورتی پوجا کے بارے میں بتایا کہ جس کی تم پوجا کرتے ہو وہ تواپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو تمہاری کیا حفاظت کریں گے‘ اور تم شیولنگ کی پوجا کرتے ہو‘کتنی بری بات ہے اور اس کو بھگوان کہتے ہو یہ بھی کتنی گندی چیز کا نام ہے۔ وہ سب کہتے تھے کہ بات تو آپ صحیح کہتے ہیں لیکن ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے‘ لوگ کیا کہیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی اسی طرح کرتے تھے‘ اس کو کیسے چھوڑ دیں؟ میں نے انہیں بہت سمجھا یا لیکن وہ کہنے لگے کہ ہم مرتو سکتے ہیں لیکن اس کو چھوڑ نہیں سکتے۔

س: آپ کا آشرم نہیں جانا ہوا؟
ج: میں آشرم گیا تھاجب میں آشرم سے آیا تھا تو وہاں میں نے 10آدمیوں کی کمیٹی بنا کر اس کمیٹی کا نام مختار نامہ کرادیا تھا اور بینک میں جو پیسے تھے اور جو زمین تھی‘ سب انہیں کے نام کردیا تھا‘ میری جیب میں جو پیسے تھے اس کے علاوہ ساری جائیداد میں نے کمیٹی کے نام کردی تھی۔

س: آشرم والوں کو دعوت دینے کیلئے نہیں گئے؟
ج: میں آشرم گیا ایسے ہی کپڑے پہنے ہوئے اور ٹوپی لگائے ہوئے، میں نے وہاں جا کر ان کو دعوت دی‘ انہوں نے مجھے آشرم میں قید کرلیا‘ وہ کہتے تھے کہ تو تو مسلمان ہوگیا اور بگڑ گیا ہے اور مجھے آشرم سے باہر نہیں نکلنے دیا۔

س: آپ کیسے وہاں سے نکلے؟
ج: میرا ایک ششے (طالب علم) تھا اس نے مجھے رات کو خاموشی سے نکال دیا۔

س: آپ نے اس کو دعوت نہیں دی؟
ج: اس کو دعوت تو دی لیکن اس نے قبول نہیں کی وہ کہتا تھا آپ اپنی جگہ پر صحیح ہیں، لیکن بات نہیں مانی۔

س: آپ کے گھر والوں کا کیا ہوا‘ وہ لوگ کہاں ہیں؟
ج: میری ایک بیٹی ہے‘ اس کو میں نے دعوت دینے جانے کا ارادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں حضرت سے بات کی ہے‘ حضرت نے مجھے کہا کہ تنہا نہیں جانا‘ بلکہ کسی کو ساتھ لے کر جانا انشاء اللہ حضرت سفر سے واپس آجائیں تومیں اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جائوں گا۔

س: آپ کے ماں باپ اور بیوی کہاں ہیں؟
ج: میری بیوی کا انتقال ہو گیا تھا جس سے میری ایک بیٹی تھی میں اپنی بیٹی کو اپنے بھائیوں اور ماں باپ کے پاس چھوڑ کر آشرم چلا گیا تھا اورسنیاس لے لیا تھا ‘ اس لئے جب سے اب تک ماں باپ وغیرہ سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اپنی بیٹی کی شادی میں نے خود کروائی ہے۔

س: والدین اور بھائیوں کے بارے میں معلوم نہیں وہ کہاں پر ہیں؟
ج: میرے والد فوجی تھے وہ دہلی میں پالم ہوائی اڈہ کے پاس شفٹ ہوگئے تھے۔

س: ان سے ملاقات نہیں ہے آپ کی؟
ج: جب میں 25سال کا تھا اس وقت میں نے اپنی بیوی کے انتقال کے بعد سنیاس لے لیا تھا ‘ سنیاسی کا گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں‘ اس لئے میری ان سے ملاقات نہیں ہے‘ بس یہ معلوم ہے کہ وہ دہلی میں ہیں۔

س: قارئین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: ہاں ! میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے مسلمان بھائیوں میں یہ کمی ہے کہ وہ غیر مسلم بھائیوں کو اسلام کے بارے میں نہیں بتاتے‘ خود مجھے بھی کسی نے دعوت نہیں دی‘ جب کہ میں 25سال تک انہی کے ساتھ اپنے گائوں میں رہا ‘ کلیان پورمیں مستقل میرا مسلمان بھائیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا‘ لیکن کسی نے مجھے دعوت نہیں دی‘ مسلمان بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ بلا ڈر وخوف اسلام کا پیغام غیر مسلم بھائیوں کو پہنچائیں اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت عطا فرمائے اور مجھے اللہ تعالیٰ جنت بھی نہ دے بس اپنا دیدار نصیب فرمادے۔

س: اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟
ج: اب تو ہم نے اللہ کو سونپ دیا اور حضرت کی شرن (پناہ) میں آگئے ہیں‘ بس اب دعوت کا کام کرنا ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ ارمغان)