حالیہ واقعات پر مسلمانوں سے کچھ باتیں

ارشد بستوی
قارئین کرام! آج ہمارے پیارے ملک ہندوستان کا جو ماحول بنا ہوا ہے اور مسلسل بنایا جارہا ہے وہ اب کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے، آئے دن مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، مسلمانوں کو ستایا جارہا ہے اور ان پر الزام تراشی کر انہیں تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے بلند شہر کے ایک گاو¿ں میں مندروں میں منصوبہ بندی کے تحت توڑ پھوڑ کی گئی تاکہ بعد میں سارا الزام مسلمانوں کے سر ڈال دیا جائے اور انہیں بآسانی دہشت گرد اور ملک دشمن ثابت کر ان پر ہر قسم کے ظلم وستم کا جواز پیدا کیا جاسکے،لیکن منشائے خداوندی کچھ اور تھا، چنانچہ بے دینوں کا بھانڈا خدا نے پھوڑ ڈالا اور ان روسیاہوں کو سر عام رسوا ہونا پڑا، کہ اپنے ہی ہاتھوں مندروں میں بت توڑ کر یہ ثابت کرڈالا ان ملحدوں نے کہ ان کے ہاں خدا پرستی نام کی کوئی چیز نہیں، سوائے اس کے کہ حق پرستوں کی ٹانگ کھینچنا ان کا مذہب ہے۔ ہم گزشتہ کچھ سالوں سے نفرت کی اس آگ کے سیلاب کو کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک جمہوری ملک میں جمہوریت کا سینہ زوری کے ساتھ گلا گھونٹا جارہا ہے۔ کبھی کسی چیز کا بائیکاٹ کرکے تو کبھی کسی چیز کو اچھال کے۔ چنانچہ د کشمیر فائلز، کیرلا اسٹوری، ٹیپو اور 72 حوریں وغیرہ وغیرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ پہلے تو اس ملک کی اکثریت کو اس طرح کی سازشی اور مکارانہ فلموں کے ذریعے ذہنی غلام بنانے کی ہرممکن کوشش کی گئی اور نفرت کے پرستاروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر زہر افشانیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کبھی شارٹ ویڈیوز میں اسلام اور مسلمانوں پر سوالیہ نشان کھڑا کیا گیا، کبھی شارٹ کلپس بنائے گئے۔ مسلم بہنوں کو ورغلانے اور اپنے دیدہ زیب مگر زہریلے جال میں پھنسانے کی خاطر تو کبھی فرقہ پرستوں نے فیس بک پر فحش گروپس بناکر خود کو صنف نازک بتاکر مسلم لڑکیوں کو ان میں شامل کرنا شروع کیا تاکہ دھیرے دھیرے ان کے دین وایمان کا سودا کیا جاسکے۔ جس کے بعد اس ملک کی اکثریت کو مسلمانوں سے دھیرے دھیرے نفرت ہونے لگی اور اب یہ نفرت اس قدر راسخ ہوچکی ہے کہ اگر فی الفور درست اقدام نہ کیا گیا اس عصبیت اور جارحیت کی بیخ کنی کی خاطر، تو مستقبل قریب میں حالات مزید بھیانک ہوسکتے ہیں جن کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ اور اب اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی ذہنیت مسلسل غلامانہ ہوتی جارہی ہے، اور یہی نفرتی ٹولے کا مشن بھی ہے جس کی کامیابی پر وہ دن دہاڑے آنکھیں دکھارہے ہیں اور آپے سے باہر نظر آرہے ہیں۔ تو اگرچہ بلند شہر میں شیطانوں کی ناکامی ہوئی تھی ورنہ خدا جانے وہاں کون سی قیامت توڑی جاتی، مگر اتر کاشی میں یہ شیطانی گروہ اپنی خفیہ سازشوں میں کامیاب ہوچکا ہے اور اب وہاں مسلمانوں کے لیے قیامت کا سماں ہے۔ خدا معلوم ہندوستان کے کس کس گوشے میں کون کون سی سازش رچی گئی ہے مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی خاطر، آئین کی کوئی اہمیت اور قیمت نہیں رہی شیطان کے شاگردوں کے ہاں، جمہوریت اور اقدار جمہوریت ایک اجنبی پرندے کا نام ہے ان بد باطنوں اور بد ظاہروں کے نزدیک، ان وحشی صفت انسان نما شیطانوں کو اپنے تئیں خدا ہونے کا نخرہ ہوگیا ہے۔
اب ایسے وقت میں ہمیں کہنا بس یہ ہے کہ مسلمانو! اب تو متحد ہوجاو¿، اپنی اندرونی رنجشوں کو بھلاکر ”اشداءعلی الکفار رحماء بینہم“ کا نمونہ بن جاو¿۔ کب تک شتر مرغ کی طرح حالات سے نظریں چراتے رہوگے، تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنا بھیانک منظر ہے، مگر تمہارا احساس مردہ ہونے کو ہے۔ تم کو سانپ سونگھ گیا ہے اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا ہوگیا ہے:
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
مسلمانو! میں تمہیں مایوس نہیں کرنا چاہتا بلکہ تمہیں تمہاری حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ تم خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہو جس کے”کن“ سے دنیا فوراً سے پیشتر فناہوسکتی ہے، مگر چونکہ تمہارا اس طاقت ور اور جلیل القدر بادشاہ سے رشتہ کمزور ہوچکا، اسی لیے اس پریشاں حالی اور رسوائی کے شکار ہو۔ یاد کرو وہ بھی کیا وقت تھا کہ اگر تم جنگل سے گزرتے تو درندے بھی تمہیں راہ دیا کرتے تھے، تم بے سروسامان 313، ایک ہزار مسلح لشکر کو مسل دیتے تھے، تم 60، لشکر کفار کے ساٹھ ہزار جنگجوو¿ں کو پسپا کردیتے تھے۔ مگر اس وقت تمہارے اندر ایک عزم تھا، ایک حوصلہ تھا، تمہارے دل مضبوط تھے کیوں کہ ان میں خدا بستا تھا، مگر جب آج تمہارے دلوں میں دنیا گھر کر گئی ہے تو بے وقعت اوباش تمہیں کھلے عام آنکھیں دکھاتے پھر رہے ہیں کیوں کہ تمہارے اندر وہ جوش جنوں اور جذب دروں نہیں رہا۔
اس لیے مسلمانو! ایسے وقت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے خالق سے اپنا رشتہ مضبوط کرو اور ساتھوں ساتھ اپنے جسم کو فولادی بناو¿، بزدلی کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے، کہیں پر کوئی گھیرے میں لے تو بزدلی کے ساتھ زندگی کی بھیک مانگ کر نہ گڑگڑاو¿ بلکہ آئین ہند نے دفاع کی اجازت دی ہے، اپنے اس اختیار کو مردانہ وار کام میں لاو¿، مارشل آرٹس ضرور بالضرور سیکھو اور اپنے بچوں کو سکھانا اس سے بھی زیادہ ضروری سمجھو، تم مسلمان ہو، کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتے، مگر جب تم پر کوئی ظلم کرے تو خاموش نہ بیٹھو کہ:
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
اس بات کی ہمیشہ کوشش کرو کہ تمہارے ذریعے کسی کو ہلکی سی بھی تکلیف نہ پہنچے، بلکہ تم پیار، امن اور انسانیت کا پیام دو، اپنی اخلاقیات سے لوگوں کے دلوں کو موہ لو، مگر ظالم صفت لوگوں سے کسی طور بھی سمجھوتا نہ کرو۔ یاد رکھو:
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
دوستو! ڈرنے اور حواس باختہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ اس سے انتشار پیدا ہوتا ہے۔ طے کر لیجیے کہ مر جائیں گے لیکن ہندوستان چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے، کیوں کہ آج جو لوگ نفرت کی پوجا کر رہے ہیں ان کا ملک کی آزادی میں کوئی کردار نہیں بل کہ یہ تو انگریزوں کے وفادار تھے، مگر ہمارا اس ملک کی آزادی کی خاطر خون بہا ہے، گلیوں میں، چوراہوں پر، میدانوں میں اور جیلوں میں۔ اس ملک کی آزادی میں سب سے بڑا کردار ہمارا ہے، اس خشک غلام زمین کو آزادی کا پہلا قطرہ ہم نے دیا، لہذا اگر اس آزادی کو دوبارہ پانے کے لیے ایک بار اور وہی تاریخ دہرانی پڑے تو ہم سو جان سے حاضر ہیں، بس ضرورت اتحاد کی ہے، اور خاموش بیٹھنے میں نقصان ہے۔
٭٭٭