حضرت اویس قرنیؒ: خوف آخرت سے بیہوش ہوجاتے
حضرت اویس قرنیؒ کی شب بیداری اور عبادت کے متعلق حضرت ربیع بن خیثمؒ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضرت اویس قرنیؒ کی خدمت میںحاضر ہوا۔ دیکھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر ذکر الٰہی کیلئے بیٹھ گئے۔ میں نے سوچا دوران ذکر ان سے ملاقات کرکے ان کے معمولات میں خلل نہیں ڈالوں گا۔

حضرت اویس قرنیؒ کی شب بیداری اور عبادت کے متعلق حضرت ربیع بن خیثمؒ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضرت اویس قرنیؒ کی خدمت میںحاضر ہوا۔ دیکھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر ذکر الٰہی کیلئے بیٹھ گئے۔ میں نے سوچا دوران ذکر ان سے ملاقات کرکے ان کے معمولات میں خلل نہیں ڈالوں گا۔
چنانچہ میں نے انتظار کیا۔ وہ بیٹھے یاد الٰہی میں مگن رہے۔ حتی کہ ظہر کا وقت ہوا تو ظہر کی نماز کیلئے کھڑے ہوگئے۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر تا نماز عصر نوافل میں مصروف رہے، پھر عصر کی نماز پڑھی، نماز کے بعد مغرب تک بیٹھ کر یاد الٰہی میںمصروف رہے پھر مغرب کی نماز پڑھ کر عشاء تک نماز میں مشغول رہے اور عشاء کی نماز پڑھ کر صبح تک کی نماز پڑھتے رہے۔فجر کی نماز پڑھ کر پھر بیٹھ گئے اتنے میں تھوڑی دیر کیلئے آنکھ لگ گئی۔ پھر اچانک بیدار ہوتے ہی کہنے لگے اے اللہ۔ تیری پناہ چاہتا ہوں سونے والی آنکھ اور سیر نہ ہونے والے پیٹ سے (حوالہ اولیاء اللہ کی شب بیداری 119)
صفۃ الصفوۃ میں ہے کہ جب شام ہوتی تھی تو حضرت اویس قرنیؒ کے پاس جتنا کچھ کھانا کپڑا ہوتا تھا، سب صدقہ کردیتے تھے پھر کہتے تھے کہ اے اللہ کوئی بھوک سے مرے تو مجھ سے مواخذہ نہ کیجئے گا اور کوئی عریانی کی وجہ سے ہلاک ہو تو اس کی باز پرس بھی مجھ سے نہ ہو، یہ بھی مذکور ہے کہ جب شام ہوتی تو کہتے آج سجدہ کی رات ہے۔ اس کے بعد سجدہ میں سر رکھتے تو صبح ہی کو سر اٹھاتے اور کسی دن کہتے کہ آج رکوع کی رات ہے پھر نماز شروع کرتے اور رکوع ہی میں صبح کردیتے۔ (سیر السلف)
زہد کا یہ عالم تھا گھر بار، لباس اور کھانے پینے وغیرہ جملہ علائق دنیاوی سے ہمیشہ آزاد رہے۔ ایک نہایت بوسیدہ اور شکستہ مکان میں رہتے تھے۔ (ابن سعد 113/6 )
کھانے پینے کا یہ حال تھا کہ کبھی اونٹ چر اکر اور کبھی کھجور کی گٹھلیاں بیچ کر اتنی روزی حاصل کرتے تھے کہ کھالیں تو جان بچ جائے جو کہ شرعاً بھی فرض ہے۔ (تذکرۃ الاولیاء فریدالدین عطارؒ حالات اویس) لباس میںایک صوف کی چادر اور ایک صوف کا ازار ہوتا تھا (مستدرک حاکم 406/2)
اکثر وہ بھی میسر نہ آتا تھا لوگ ننگے بدن دیکھ کر چادر دیتے۔ (ابن سعد 114/6)
آپ کی اس مجذوبانہ شان کی وجہ سے ظاہر بین عوام آپ کو راہ چلتے پریشان کرتے۔ ایک مرتبہ آپ کپڑا میسر نہ ہونے کی وجہ سے حلقہ ذکر سے غیر حاضر ہوگئے۔ آپ کے شریک حلقہ اسیر بن جابر یہ سمجھ کر کہ آپ بیمار ہوگئے ہیں،آپ کے گھر پہنچے اور کہا خدا تم پر رحم کرے تم نے ہمیں چھوڑ کیوں دیا؟ آپ نے جواب دیا میرے پاس چادر نہیں تھی اس لیے میں نہ آسکا۔
حضرت عمرفاروقؓ نے چاہا کہ والی کوفہ کے نام خط لکھ کر آپ کا تعارف کراکے آپ کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کردیں مگر آپ نے منظور نہ کیا اور جواب دیا کہ میں زمرہ عوام میں رہنا پسند کرتاہوں۔
ابو منذر دمشقیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت اویس قرنیؒ جب بھنی ہوئی سریوں کو دیکھتے تو انہیں یہ آیت یاد آجاتی۔
’’تلفح وجوھھم النار وہم فیھا کالحون‘‘
پھر آپ خوف آخرت سے بے ہوش ہو کر گر پڑتے حتی کہ دیکھنے والے آپ کو دیوانہ سمجھتے۔ (ابن ابی الدنیا وغیرہ)
٭٭٭