سوشیل میڈیامضامین

پرانے شہر میں میٹرو ریل آخر کب دوڑے گی

پرانا شہر آخر کب تک پرانا ہی رہے گا؟ ریاستی حکومت آخر کب تک پرانے شہر سے سوتیلا سلوک رواں رکھے گی؟بلدی،بجلی ، آبرسانی اور دن بہ دن بڑھتے ٹریفک کے مسائل سے آخر پرانے شہر کے رہنے والوں کو کب چھٹکارا ملے گا؟

پرانا شہر آخر کب تک پرانا ہی رہے گا؟ ریاستی حکومت آخر کب تک پرانے شہر سے سوتیلا سلوک رواں رکھے گی؟بلدی،بجلی ، آبرسانی اور دن بہ دن بڑھتے ٹریفک کے مسائل سے آخر پرانے شہر کے رہنے والوں کو کب چھٹکارا ملے گا؟

یہاں کے رہنے والے نوجوانوں کے روزگار کے مسائل کی طرف حکومت آخر کب توجہ دے گی؟ غریب عوام جو محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل سے کرپاتے ہیں، ان کے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا؟ ان پیچیدہ سوالات کے سائے میں پرانے شہر کے عوام اپنی زندگی گزاررہے ہیں ۔یہاںصرف آسودگی ہے ، جھوٹے وعدے ہیں ’’ اولڈ سٹی کو گولڈ سٹی‘‘ بنانے کا وعدہ کرکے سیاسی رہنما راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں۔

دوسری جانب نیا شہر ہے سارے ترقیاتی کاموں کاآغاز یہیںسے ہوتا ہے چاہے بچوں کے کھیل کود کے میدان، صاف ستھری سڑکیں، لمبے لمبے فلائی اوور بریجس، سیروتفریح کیلئے عالیشان گارڈنس جگمگاتی نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی روشنیاں، تیز تیز دوڑتی میٹرو ریل یہ سب تونئے شہروالوں کی قسمت میں ہے ،پرانے شہروالوں کی ایسی قسمت کہاںحالانکہ پرانا شہر بھی تلنگانہ کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ حیدرآباد شہر کی بنیاد پرانا شہر ہے تو پھر حکومت آخر پرانے شہر سے ایسا سوتیلا سلوک کیوں رواں رکھتی ہے جسے دیکھ کر مرزاغالب کا یہ شعریادآجاتا ہے ؎

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا

پرانا شہر مسائل سے بھراپڑا ہے لیکن پچھلے چھ سات سالوں سے پرانے شہر کے عوام کی نظراس بات کی منتظر ہے کہ آخر پرانے شہر میں میٹرو ریل کب دوڑے گی یا دوڑے گی بھی کہ نہیں؟ اس بات کو لے کر عوام میں تجسس پایا جاتا ہے کبھی پرانے شہر کے عوام اس بات کو لے کر مطمئن ہوگئے تھے کہ حکومت نے پرانے شہر میں میٹرو ریل چلانے کا وعدہ کرلیا ہے، مقامی قائدین نے بھی اس بات پر رضامندی ظاہر کردی تھی کہ دارالشفاء سے فلک نما میٹرو ریل چلائی جائیگی ۔

اس کے بعد چند عملی اقدامات بھی سامنے آئے دارالشفاء ، پرانی حویلی،منڈی میرعالم، اعتبارچوک، کوٹلہ عالیجاہ، بی بی بازارچوراہا سے آگے تک سڑکوں کی توسیع کے کاموں کا اعلان ہوا بلکہ مذکورہ سڑکوںکی دکانات پر ماسٹر پلان یعنی روڈ وائنڈنگ کی نشاندہی کے نمبرات بھی درج کردئیے گئے چند دکاندار پریشان حال تھے کہ اس پر عمل آوری پر ان کے کاروبار کا کیاہوگا بعض دکاندار اس بات کو لے کر خوش تھے کہ سڑکوں کی توسیع سے ان کے کاروبار کو فروغ ملے گا ، میٹرویل دوڑے گی اور نئے شہر پرانے شہر کے فاصلے منٹوں میںطئے ہوںگے نوجوانوں کو روزگار میںدستیابی میںآسانی ہوگی…

طرح طرح کے سپنے پرانے شہر کے سادہ لوح عوام دیکھنے لگے لیکن وہ اس بات کو بھول گئے کہ یہ وعدوں کا موسم ہے انہیں کیا پتہ کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے موسم میں وعدے تو کرتی ہیں لیکن بعد میں اسے جملوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ دارالشفاء سے شاہ علی بنڈہ تک وہاں کے دکانداروں کو نوٹسیں جاری ہوگئیں، پرانے شہر میںمیٹرو ریل کی جس تیزی سے ہلچل مچی اسی تیزی سے ٹھنڈے بکسے میںچلی گئی، یہاںتک کہ دارالشفاء میں میٹرو ریل کی تیاری کے کچھ کام کی شروعات بھی کردی گئی ،انتخابات میں ٹی آر ایس دوبارہ برسراقتدار آگئی، مقامی قائدین کی کچھ خاموشی والا رویہ پرانے شہر میں میٹرو ریل کے خواب کو حقیقت میںبدل دینے سے روک دیا… ایسا ہم اس لئے کہہ رہے ہیں حال ہی میں میٹرو ریل کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پرانے شہر میں میٹروریل کے کاموں کو اب تک حکومت کی جانب سے منظوری حاصل نہیں ہوئی۔

کہاجاتا ہے کہ ایم جی بی ایس تا فلک نما5.5 کلومیٹر تک ریلوے پٹریاں بچھانے 1000 سے زائد جائیدادوں کے حصول کے ساتھ69 مذہبی مقامات کو بچاکر میٹرو کیلئے درکار اراضیات کو حاصل کرنا ہے پرانے شہر میں میٹرو ریل چلانے 1000 جائیدادیں حاصل کرتاہے اوراس کیلئے 1200 کروڑ کا معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔ سالار جنگ میوزیم ، چار مینار، شاہ علی بنڈہ ، فلک نما ،شمشیر گنج علاقوں میں5 میٹرواسٹیشن کی تعمیر کیلئے1250 کروڑ کے مصارف کااندازہ لگایاجارہا ہے۔ تعمیری کاموں کے آغاز کیلئے حصول اراضیات میں تاخیر پر تعمیری مہلت میںاضافہ کا امکان ہے جس سے تعمیری اخراجات میں بھی مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔ا

س کے علاوہ ان شاہراہوں پر69مذہبی مقامات کونقصانات پہنچنے کے خدشات ہیں جس کی وجہ سے تعمیری ادارہ ایل اینڈٹی پرانے شہر میں میٹرو ریل کے تعمیری کام کا آغاز کرنے میں دلچسپی نہیں دکھارہاہے۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابتداء میں جب پرانے شہر میں میٹرو ریل کی مہم چلائی گئی تھی جس میںشہر کی سماجی تنظیموں کے علاوہ سیاسی جماعتیں کانگریس، سی پی آئی، سی پی ایم، اور ٹی آر ایس کے بھی پرانے شہر کے قائدین نے ’’پرانے شہر میں میٹروریل ،مہم میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاتھا ،اس مہم سے متاثر ہوکر حکومت نے پرانے شہر میں میٹرو ریل املی بن بس اسٹانڈ سے فلک نما چلانے کا اعلان کردیاتھا …

کیا اس سے قبل اس پراجیکٹ کے تخمینہ کا اندازہ نہیں لگایا تھا، اس کیلئے کتنی جائیدادوں کا حصول لازم ہوگا اور کتنے مذہبی مقامات کو بچاتے ہوئے پراجیکٹ کی تکمیل کرنا ہوگا ؟کیا اس بات کا اندازہ حکومت کو نہیں تھا حکومت تو ایسے ہی ہوا میںتیر نہیںچلاتی ہے۔سارے مسائل کا جائزہ لے کر حکومت کسی پراجیکٹ کا اعلان کرتی ہے تو کیاپرانے شہر میں میٹرو ریل دوڑانے کا اعلان ایسے ہی ہوگیا۔ ان سب باتوں کا جائزہ لیا جائے تو حالات خود بخود کہتے ہیں حکومت پرانے شہر کو پسماندہ ہی رکھنا چاہتی ہے۔ پرانے شہر کے مسائل سے اسے کوئی لینا دینا نہیں ہاں پرانے شہر میںٹیکسوں کی وصولی پرانے شہر میںٹریفک چالانات سے کروڑوں کی وصولی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ یہاں کے مسائل کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنا حکومت کاخاص رویہ ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے سات سالہ دورے حکومت میںکبھی پرانے شہر کا دورہ کیا نہ پرانے شہر کے مسائل کو جاننے کی کوشش کی ۔ وزیراعلیٰ کے اس رویہ پر مشہور شاعر عامر عثمانی کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎

صرف اک تیرے تقافل کا گلہ ہی تو نہیں
ہم نے دنیا کے بہت اورستم دیکھے ہیں

پرانے شہر میں میٹرو ریل کا ایک ہی مسئلہ نہیں مسائل تو اور بھی ہیں جس پر حکومت اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھی ہیں۔ چار مینار پیدل پراجیکٹ وزیر بلدی نظم ونسق نے کبھی پرانے شہر کا دورہ کرکے صرف دو ماہ میں چار مینا ر پیدل پراجیکٹ کی تکمیل کا اعلان کیاتھا وہ آج بھی ادھورا پڑا ہے۔ چومحلہ پیالیس کے روبرو وسیع وعریض خزانہ عامرہ کی اراضی پر پارکنگ کا مپلکس کے علاوہ قدیم بس اسٹانڈ چارمینار کی اراضی پر پارکنگ کا مپلکس کی تعمیر کا اعلان وہ بھی ایک جملہ ثابت ہورہا ہے۔ نئے شہرمیں جس طرح ٹریفک جام کے مسائل ہیں اس سے کہیںزیادہ پرانے شہر میںٹریفک جام کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ نہ صرف بڑی شاہراہوں پرٹریفک جام کا مسئلہ ہے بلکہ پرانے شہر کے گلی کوچے بھی ٹریفک جام کے مسئلہ سے دوچار ہیں ۔ان ٹریفک جام میں بسا اوقات ایمبولنس جس کی رفتار کسی کی زندگی بچانے کیلئے ضروری ہوتی ہے، وہ بھی ٹریفک میں پھنس جاتی ہے ۔ میرعالم منڈی ، بی بی بازار ، پرانی حویلی ، چھتہ بازار، نیاپل، مدینہ چوراہا یہ سارے علاقے ٹریفک جام سے جوج رہے ہیں۔ ان میںسے کچھ علاقوں میں ٹریفک جام کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے چند برس قبل سڑکوں کی توسیع کا نہ صرف اعلان کیاگیا بلکہ کاغذی کاروائی بھی تکمیل کے قریب ہے ،اس کے باوجود بھی متعلقہ محکمہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھا ہے اور عوام ٹریفک کے مسائل سے دو چار ہے بلکہ ان علاقوں میںحادثات بھی پیش آرہے ہیں متعلقہ محکمہ کو چاہئے کہ وہ ان کاموں میں تیزی پیدا کرے۔

اس کے علاوہ پرانے شہر میں بلدی، آبرسانی، برقی کے مسائل کی کثرت ہے ،محکمہ بلدیہ تو جیسے پرانے شہر میںخواب غفلت کی نیند سورہا ہے شاہراہوں پر کچرے کے انبار تین تین دن پڑے رہتے ہیں جن سے تعفن اورسڑن پیداہوتی ہے۔ مچھروں کی کثرت ہورہی ہے، لوگ ڈینگو اور کورونا جیسے وبائی مہلک امراض سے متاثر ہورہے ہیں اور بلدیہ کی مشنری خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہے۔ دونوںشہروں حیدرآباد اورسکندرآباد میں محکمہ بلدیہ کے ترقیاتی کاموں کاجائزہ لیاجائے تو صاف نظرآتا ہے کہ حکومت نہ صرف پرانے شہر کو نظرانداز کررہی ہے بلکہ سوتیلا برتائو رواں رکھی ہوئی ہے اور جھوٹے وعدوں کا ہنر پرانے شہر کے عوام پر آزمایا جارہا ہے، جس پر مشہور شاعر احمد فراز کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ ضائع کر
میں آئینہ ہوں مجھے توٹنے کی عادت ہے

حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے جھوٹے وعدوں کے ہنر سے باہر نکلے اور پرانے شہر کے مسائل پر توجہ دے۔
٭٭٭

a3w
a3w