امریکہ و کینیڈا

غزہ کے حق میں ریلیاں، امریکہ میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا

امریکہ کے مختلف مقامات پر نکالی گئی احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جن میں سے زیادہ تر نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی آپریشن روکنے کا مطالبہ کیا۔

واشنگٹن: امریکہ کے مختلف مقامات پر نکالی گئی احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جن میں سے زیادہ تر نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی آپریشن روکنے کا مطالبہ کیا۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے حق میں نکلنے والی ریلیوں میں زیادہ تر مسلمان شامل تھے، جو اسرائیل کی غزہ کے خلاف جاری جنگ سے پریشان تھے، کچھ مظاہروں میں یہودی اور عیسائی بھی موجود تھے لیکن ان کی تعداد کم تھی۔

اسرائیل کے حمایتی گروہ، جن میں مسلمان کے قائم کردہ گروہ بھی شامل ہیں، نے اسرائیل کی غزہ میں جاری جارحانہ رویے کے حق میں ریلی نکالی۔

نیو یارک میں جمعرات سے تقریباً روزانہ فلسطین کی حمایت میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جاری بمباری کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں، جس میں اسرائیل کے قبضے کے خاتمہ کا مطالبہ کیا جارہا ہے، مظاہرین نے اسرائیل کے قبضے کے خلاف متعدد بار ٹائمز اسکوائر اور دیگر مقامات پر احتجاج کیے۔

واشنگٹن میں اسرائیل کے حمایتی گروہ کی تعداد کے مقابلے میں فلسطین کے حمایتی گروہ کی تعداد بہت زیادہ تھی، تقریباً 200 اسرائیلی حمایتی وائٹ ہاؤس کے قریب فریڈم پلازہ کے سامنے جمع ہوئے، جبکہ فلسطین کے حق میں نکلنے والی ریلی میں 10 ہزار سے زائد مظاہرین نے وائٹ ہاؤس کے سامنے مارچ کیا۔

متعدد مظاہرین نے تمام حالات کو حل کرنے کی تجویز بھی دی، وائٹ ہاؤس کے سامنے ہونے والے احتجاج میں شامل مظاہرین نے امریکا پر زور دیا کہ کہ وہ صرف حماس کی طرف توجہ دینے کے بجائے اس مسئلے کو وسیع تناظر میں میں دیکھے۔

احتجاج میں شامل ایک فلسطینی شہری محمد نبیل نے بتایا کہ ہم میں سے ہر کوئی یہودی اور اسرائیل سے نفرت نہیں کرتا لیکن ہمیں بھی ایک ایسی جگہ درکار ہے، جسے ہم گھر کہہ سکیں ، جہاں ہم پُر امن طریقے سے زندگی بسر کر سکیں۔

لاس اینجیلس میں بھی میں ہفتے کے روز حامیوں نے فلسطین کے جھنڈے اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، اور اسرائیلی بر بریت کے خلاف ولشائیر بولیوارڈ میں مارچ کیا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی کے پیش نظر فلوریڈا کے گورنر رون ڈیسینٹس نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ سے آنے والے کسی بھی پناہ گزین کو قبول نہ کریں کیونکہ یہ سب کے سب ریڈیکلائیزڈ (انتہاپسندی کے حامی) ہیں۔

رون ڈی سینٹس کا کہنا تھا کہ اگر آپ ان پر غور کریں تو ان سب کا تعلق حماس سے تو نہیں ہے لیکن یہ سب یہودیوں کے مخالف ہیں۔

آرکنساس کی سابقہ گورنر اور ڈی سینٹس کے حریفوں میں سے ایک اسا ہچیسن نے بھی رون ڈی سینٹس کے غزہ کے پناہ گزینوں کو جگہ نہ دینے والے مطالبے سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے اس بات سے خبردار بھی کیا کہ اس طرح کسی کے بارے میں عام رائے قائم نہیں کرنی چاہئیے، ان کا کہنا تھا کہ جب ہم لوگوں کی درجہ بندی کرتے ہیں تو یہ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔لیکن درجہ بندی شروع ہوگئی ہے، یا کم از کم پاکستانیوں کے ایک گروپ نے ایسا محسوس کیا، جو واشنگٹن میں فلسطینی حامی ریلی کے بعد شمالی ورجینیا کے ایک جنوبی ایشیائی ریستوران میں جمع ہوئے۔

ایک ٹیکسی ڈرائیور این خان کا کہنا تھا کہ اس ہفتے تقریبا ایک درجن سے زائد لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ مسلمان کیوں معصوم شہریوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں؟ میں نے ان کو بتایا کہ وہ حماس کے جنگجو ہیں، کوئی عام فلسطینی نہیں، میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر اے رے نے امیریکیوں سے اندرونی خطرات کے بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کشیدہ ماحول میں اس بات میں کوئی سوال نہیں ہے کہ ہم رپورٹ شدہ خطرات میں اضافہ دیکھ رہے ہیں، اور ہمیں خاص طور پر تنہا اداکاروں کے لیے تلاش میں رہنا ہوگا جو حالیہ واقعات سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

فاکس نیوز کے مطابق ڈاریکٹر ایف بی آئی نے لوگوں سے انٹیلی جنس کی معلومات کی فراہمی جاری رکھنے کی اپیل بھی کی ہے۔