مسلمان اعلیٰ تعلیم سے محروم کیوں؟

فرقان قمر
سابق وائس چانسلرسنٹرل یونیورسٹی آف ہماچل پردیش و یونیورسٹی آف راجستھان اور سابق سکریٹری جنرل، اسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز
فیروز عالم(اسوسی ایٹ پروفیسر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی )


وزارتِ تعلیم، حکومت ہند کی جانب سے شائع ہونے والے آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن (AISHE) کے تازہ ترین ایڈیشن کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی تعداد جو 20-2019 میں 21.01لاکھ تھی، وہ 2020-21میں کم ہو کر 19.22 لاکھ رہ گئی ہے۔اس طرح 1.79 لاکھ مسلم طلبہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی نظام سے غائب ہیں۔اس کے نتیجے میں زیر بحث مدت کے دوران اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ کا تناسب 5.45 فیصد سے گھٹ کر 4.64 فیصد رہ گیا ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ اسی دوران ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی مجموعی تعداد 3.85کروڑ سے بڑھ کر 4.14کروڑ ہو گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مدت میں معذور افراد، مسلمان اور بعض اقلیتوں کو چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم میں دیگر تمام سماجی طبقوں- درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ ذاتوں –کی تعداد میں گذشتہ برسوں کی طرح اضافہ نظرآتاہے۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلم طلبا کی تعداد میں ایک دومیں نہیں بلکہ تمام تعلیمی اداروں میں کمی آئی ہے۔مرکزی یونیورسٹیوں میں، جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اورمولاناآزادنیشنل اردویونیورسٹی شامل ہیں، مسلم طلبہ کاتناسب ایک سال 8.41فیصد سے کم ہوکر 8.24 فیصد رہ گیا۔ اسی طرح قومی اہمیت کے اداروں مثلاًآئی آئی ٹی، آئی آئی یم اوراین آئی ٹی میں مسلمان طلبہ کاتناسب 1.92 فیصدسے کم ہوکر 1.87 فیصدرہ گیا۔ اسی طرح سرکاری ریاستی یونیورسٹیوں میں ان کی حصہ داری 5.29فیصدسے کم ہوکر 4.30فیصدپرآگئی۔ خود کفیل یا سیلف فنانسڈ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بھی مسلم طلبہ 4.25فیصدکے بجائے 3.87فیصدہوگئے۔ یہی حال ان اداروں میں بھی دیکھنے کوملتا ہے جنھیں یونیورسٹی نہ ہوتے ہوئے بھی یونیورسٹی کادرجہ حاصل ہے اورجنھیں ہم ڈیمڈ یونیورسٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ سرکاری ڈیمڈ یونیورسٹیوں میں مسلم طلبہ کاتناسب 1.10فیصد سے گر کر 1.03فیصد، سرکاری امداد یافتہ ڈیمڈ یونیورسٹیوںمیں، جن میں جامعہ ہمدرد جیسے ادارے شامل ہیں، 14.55 فیصدسے 11.84فیصد اور خودکفیل پرائیویٹ ڈیمڈ یونیورسٹیوں میں 3.47سے 3.04فیصد ہو گیا ہے۔ مسلم طلبہ کی اکثریت یعنی تقریباً78فیصد یونیورسٹیوں کے بجاے کالجوںمیں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔اس اعتبارسے یہ مزیدتشویش کا سبب ہے کہ مرکزی یونیورسٹیوں کے کالجوں میں ان کاتناسب 4.68فیصد سے گرکر 3.58فیصد؛ اور ریاستی یونیورسٹیوں کے کالجوں میں 6.05فیصد سے کم ہوکر 5.09فیصد ہوگیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک یہ ہے کہ 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں سے 22 میں اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔سرکاری اعدادوشمارکے مطابق مسلم طلبہ کی تعدادمیں اترپردیش میں (58365)، جموں و کشمیرمیں (47334)، مہاراشٹرمیں (15424)، تمل ناڈومیں (14593)، گجرات میں (10909)، بہارمیں (10208)، آندھرا پردیش میں (9644)، جھارکھنڈمیں (9263)، کرناٹک میں(6153)، آسام میں(5424)، دہلی میں (5271)، مدھیہ پردیش میں (2862)، ہریانہ میں(2432)، منی پورمیں (2049)، اڈیشہ میں (1359)، راجستھان میں(1193)، پڈوچیری میں (785)، تریپورہ میں (768)، چھتیس گڑھ میں(691) ہماچل پردیش میں(588)، اروناچل پردیش میں (57) اور میگھالیہ میں(16)کی گراوٹ آئی ہے۔
اس سال اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں کی تعداد میں مزید کمی درج ہوتی اگر اتراکھنڈمیں (8281)، تلنگانہ میں (7036)، کیرالہ میں(9402)، مغربی بنگال میں (2837)، پنجاب میں (2701)، گوامیں (164)، لداخ میں (66)، ناگالینڈمیں (45)، دادرا اور نگر حویلی اور دمن اور دیومیں (36)، چندی گڑھ میں (16)، میزورم میں (8)، اور سکم میں (1)طلبہ کااضافہ نہ ہوا ہوتا۔
گذشتہ ایک دہائی میں پہلی بارایساہوا ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی تعدادکم ہوگئی ہے۔ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق مسلم طلبہ کی تعداد میں20-2019تک اضافہ ہوتا رہا تھا، اگرچہ اضافے کی شرح یکساں نہیں تھی۔ اوریہی وجہ تھی کہ ان کی تعداد جو 11-2010 میں 6.97 لاکھ (یا اعلیٰ تعلیم میں کل تعداد کا 2.53فیصد) تھی وہ 2019-20 میں بڑھ کر 21.01 لاکھ (5.45فیصد) ہو گئی تھی۔ تاہم حالیہ برسوںمیں مسلمان طلبہ کے اضافے کی شرح میں کمی ہوتی رہی ہے۔ سال 11-2010 سے 15-2014 کے دوران اعلیٰ تعلیم میں مسلمان طلبہ کے اندراج میں اوسطاً 15.03 فیصدسالانہ کا اضافہ ہوا جو 16-2015 سے 21-2020 کے دوران کم ہو کر 3.56 فیصدپرآگیا۔ ایک سال میں اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کے اندراج میں 8.53 فیصد کی کمی ناقابلِ بیان حدتک تکلیف دہ ہے۔
کیا یہ کمی کووڈ کی وبا کی وجہ سے آئی ہے؟ لیکن اس سے صرف مسلمان ہی کیوں متاثر ہوئے؟ ملک میں مسلمان ایسے واحد سماجی طبقہ نہیں ہیں جو معاشی طور پر غریب اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں۔ صرف وہی اکیلے ایسے نہیں ہیں جو بڑے پیمانے پر انفارمل اور نان فارمل معیشت کے ذریعے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں، اور جو وبائی امراض سے بہت بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اعداد و شمار کی رپورٹنگ میں کوئی غلطی ہوئی ہے یا یہ کہ یہ محض 21-2020 تک محدود ہے اورتوقع کی جا سکتی ہے کہ جب 22-2021 کے اعداد و شمار منظر عام پر آئیں گے تو حالات معمول پر آ جائیں گے۔
اگرچہ حالیہ اچانک گراوٹ کے اسباب و علل ابھی مکمل طورپرواضح تونہیں ہیں مگر ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کا کم داخلہ عموماً سماجی و اقتصادی عوامل، تعلیمی عدم مساوات، اور حقیقی اور وہمی امتیازی سلوک سے مشترکہ طور پر منسوب کیا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سماجی و اقتصادی حالات اعلیٰ تعلیم تک رسائی کے تعین میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہندوستان میں زیادہ تر مسلمان معاشی طور پر پسماندہ ہیں اور غربت اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے اقتصادی حالات اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ روز افزوں تعلیمی اخراجات اعلیٰ تعلیم کے حصول میں ان کے لیے مزیددشواریاں پیداکرتے ہیں۔
مندرجہ بالا مسائل کی وجہ سے عام طورپرمسلمان معیاری پرائمری، سیکنڈری اورسینئرسیکنڈری تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔ اس وجہ سے وہ اپنی خدادادصلاحیتوں کابھی بھرپورفائدہ نہیں اٹھاپاتے۔ تعلیمی عدم مساوات کا بھی اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کے کم اندراج میں اہم کردار ہے۔ ہندوستان کے بہت سے مسلم اکثریتی علاقوں میں معیاری اسکولوں کی کمی، ناکافی انفراسٹرکچر اور قابل اساتذہ کا فقدان ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلم طلبہ اعلیٰ تعلیم میں مسابقت کرنے کے لیے اچھی طرح تیار نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ جو لوگ اعلیٰ تعلیم میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں انھیں مطلوبہ تعلیمی معیارات کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مسلمان ایک طویل عرصے سے تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں حاشیے پر ہیں یا کم نمائندگی کا شکار ہیں۔ ملک میں ان کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے لیکن زندگی کے کسی بھی شعبے، بشمول اعلیٰ تعلیم میں آبادی کے تناسب میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔ تازہ ترین تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ سول سروسز میں ان کی نمائندگی تقریباً فیصد 3 ، ریلوے میں 4.5فیصد، پولیس کانسٹیبلری میں 6فیصد، طبی خدمات یا میڈی کیئر میں 4فیصد سے کچھ زیادہ، عدلیہ میں 7.8فیصد اور اعلیٰ تعلیم میں 4.68فیصد ہے۔
واحد اطمینان بخش بات یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی نمائندگی اعداد اور فیصد دونوں کے لحاظ سے بتدریج بڑھ رہی تھی۔ اس سے امید تھی کہ وہ آنے والے دنوں میں دیرسویراپنے دیگر ہم وطنوں کے شانہ بشانہ چل پائیں گے۔ تازہ ترین اعداد و شماراس امید پر پانی پھیر دیتے ہیں۔
کیا مسلمان اعلیٰ تعلیم کے میدان میں منظم امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں؟ کیا یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کو تیزی سے حاشیے پر دھکیلا جا رہا ہے یا وہ خود بہ خود پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں؟ کیا سماج کے ایک مخصوص طبقے کی طرف سے ان کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور عناد مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں اجنبیت اور بیگانگی کے احساس سے دوچار کر رہی ہے؟یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کا آئین مسلمانوں سمیت تمام طبقات کے ساتھ نہ صرف مساوی بلکہ منصفانہ سلوک کی ضمانت دیتا ہے اور مذہبی اقلیتوں کے لیے خصوصی رعایتیں بھی دیتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو خود کو محفوظ و مامون اور معزز محسوس کرنا چاہیے کیونکہ ملک کا آئین ذات پات، رنگ، نسل اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر کسی بھی امتیاز کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس لیے مسلم طبقے میں بیگانگی اور امتیاز کا احساس صرف ان کے ذہنوں میں ہے اور حقیقت سے اس کا بہت کم تعلق ہے۔ اگر ہم اس دلیل کو قبول کر بھی لیں تب بھی ہمیں اس حقیقت کوذہن نشیں رکھنا چاہیے کہ محض فرضی یا تصور کر لی گئی رکاوٹیں اکثر حقیقی رکاوٹوں کے مقابلے میں بدترین نتائج اور نقصانات کا سبب بنتی ہیں۔