محمد محبوب
وجود زن سے تصویر ِکا ئنات میں رنگ
شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے اپنے اس ایک مصرعہ میں عورت کی اہمیت کو بہترین انداز میں اُ جاگر کیا ہے۔ دنیا کی تمام رونقیں، رعنائیاں اور سب ہنگامے عورت کے بغیر بے معنی اور بے رنگ ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی جملہ آبادی کا نصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہے اور دوسرا نصف حصہ ان کی کوکھ سے ہی جنم لیتا ہے۔ عورت کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کے بغیر گھر باوجود آبادی کے ویران سا لگتا ہے۔ اس اعتبار سے خواتین کی عزت و احترام کرنا، زندگی کے تمام شعبوں میں انہیں برابر کے مواقع فراہم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کے باوجود بھی ازل سے مردوں کے غلبہ والے سماج میں عورتوں کی حق تلفی ہوتی رہی۔چو لہا چکی ان کا مقدر کہہ کر انہیں اعلیٰ تعلیم سے روکا گیا۔ جہیز میں سامان دینے کی بنیاد پر انہیں وراثت سے محروم کیا گیا۔ آج بھی لڑکی کی پیدائش پر مسرت منانے والوں سے زیادہ افسوس کرنے والوں کی تعداد ہے۔ الغرض یہ کہ انہیں ہمیشہ سے ہی پرائی امانت کا بوجھ تصور کیا گیا۔ قربان جائیے مذہب ِاسلام پر کہ جس نے عورت کو اس کا جائز مقام عطا کیا۔ قر بان جائیے سرکار دوعالم ﷺ پر کہ جنہوں نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دے کر، بیوی کے ہزاروں عیبوں میں ایک خوبی تلاش کرکے اس کے ساتھ حُسن ِ سلوک کرنے کی تلقین کی اور بیٹیوں کی بہترین پرورش پر جنت کا مژدہ سناکر عورتوں کی توقیر کو قیامت تک کے لیے بڑھا دیا۔ کیا کوئی مذہب بہنوں کی عظمت کی اس سے بہترین مثال پیش کرسکتا ہے کہ جس طرح آپ ﷺ نے اپنی رضائی بہن حضرت شیمہؓ کے استقبال میں اپنی کمبل بچھا کر قیامت تک کے بھائیوں کو یہ عملی درس دیا کہ وہ بہنوں کی عزت اس طرح کر یں۔ زمانہ قدیم و زمانہ جاہلیت میں جس طرح عورتوں کی ناقدری کی جا تی تھی، یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آج بھی عورتوں کے متعلق سماج کا رویہ وہی ہے۔ البتہ اس کی شکلیں بدلی ہوئی ہیں۔آج زمانہ جاہلیت کی طرح لڑکی کی پیدائش پر اسے زندہ درگور تو نہیں کیا جارہا ہے مگر اس کی زندگی کو اجیرن ضرور کیا جارہا ہے۔ تاہم ہم جس سماج اور معاشرہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ مردوں کے غلبہ والا سماج ہے۔ جہاں عورتوں کو مختلف پابندیوں کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ مزید افسوس اس بات کا ہے کہ جمہوری ملک‘ جس میں تمام شہریوں کو جینے کا حق ہے، اس ملک کی سماجی صورتحال یہ ہے کہ یہاں ایک لڑکی / عورت کسی کام سے باہر جاکر صحیح سلامت اپنے گھر کو واپس لوٹنا کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔ سماج کی بری نظریں عورت کی طر ف اٹھتی ہیں۔ بدنگاہ اور ہوس بھرے مردوں کی وہ شکار ہوتی ہے۔ موقع مل جائے تو اس کی عصمت بھی لُٹ جا تی ہے۔
جی ہاں قارئین کو یاد ہوگا کہ آج سے ٹھیک دس سال قبل غالباََ 15 اور 16 ڈسمبر کی درمیانی شب ملک کے دارالحکومت دلی میں چلتی بس میں ایک طالبہ کی عصمت ریزی کی گئی۔ اس کے بعد کئی تنظیموں نے ا س واقعہ کے خلاف آواز اٹھائی، احتجاج کیا، بیان با زی کی گئی اور اس شدید احتجاج کے نتیجہ میں قانون سازوں نے ایوان میں ”نربھیا ایکٹ“ منظور کیا۔ تاہم ”نربھیا ایکٹ“کے نفاذ کے آج تقریباً دس سال مکمل ہوگئے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ مرد اس نربھیا ایکٹ سے خوف زدہ ہو کر کوئی جرم نہیں کریں گے؟ افسوس اس بات کا ہے کہ اگر دیہی علاقوں یا ویران علاقوں میں خواتین پر حملے اور جنسی و ذہنی ہراسانی ہو تو حیرانی نہیں ہوتی، کیوں کہ یہاں کے لوگ ابھی اتنے روشن خیال نہیں کہ وہ عورتوں کو سماجی طور مساوی حق دیے جانے کو برداشت کر یں لیکن افسوس اس با ت کا ہے کہ ملک کی راجد ھانی دلی جہاں ملک کے صدر جمہوریہ اور ملک کے وزیر ِ اعظم قیام پذ یر ہوں اس مقام پرخواتین غیر محفوط ہوں تو بہت تشویش کی بات ہوتی ہے۔
16 / ڈسمبر کی وہ شب ہندوستان کی تاریخ کی وہ تاریک شب تھی کہ جس دن چلتی بس میں ایک لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی اور اس کے نازک اعضاء پر ہتھیاروں سے حملے کیے گئے اور اسے موت و حیات کی کشمکش میں چھوڑ کر مجرمین نے راہ فرار اختیار کی، لیکن مجرمین کے لیے دنیا وسیع و عریض ہوتے ہوئے تنگ ہوجاتی ہے، بالکل اسی طرح اجتماعی عصمت ریزی کے ملزمین کے لیے بھی دلی تنگ ہوگئی اور وہ پولیس کے ہاتھوں پکڑ ے گئے۔ مظلوم لڑکی کا دلی کے اسپتال میں علاج کروایا گیا۔جب اس کی طبعیت میں کوئی سدھار نہیں آیا تو اسے معیاری علاج کے لیے27 / ڈسمبر کو سنگا پور کے ملکہ الز یبتھ اسپتال کو روانہ کیا گیا۔ تاہم دورانِ علاج ہی اس لڑکی نے 29 / ڈسمبر کو دم توڑ دیا۔ لڑکی کے انتقال کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ملک کی گلی گلی اور ہر محلہ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ موم بتیاں جلائی گئیں وغیرہ۔ اس احتجاج کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ اب ہندوستان میں خواتین کے تحفظ میں انقلاب آئے گا اور ملک کی تاریخ کا یہ آخری واقعہ ہوگا! اب اس کے بعد کوئی خاتون جنسی، جسمانی و ذہنی ہراسانی اورسماجی و گھریلو تشدد کا شکار نہیں ہوگی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ تاہم اس کیس کے پانچوں مجرمین رام سنگھ، محمد افروز، ونئے، اکشے سنگھ، مکیش سنگھ اور پون گپتا پر 3 / جنوری 2013 ء کو اغواء، اجتماعی عصمت ریزی و قتل کے مقدمات عائد کرتے ہوئے پولیس تحویل میں دے دیا گیا۔ مجر مین میں رام سنگھ نے جولائی میں ہی پھانسی لے کر جیل میں ہی خودکشی کرلی۔ جبکہ محمد افروز کو نابالغ ہونے پر کچھ عرصہ میں رہا کردیا گیا۔ جبکہ ماباقی مجرمین کو واقعہ کے 7 سالوں بعد یعنی سال 2020ء میں پھانسی کی سز ا دی گئی۔
اس واقعہ کے بعد ہی پا رلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی اور ”نربھیا قانون“ نا فذ کیا گیا۔ اس کے بعد عوامی، ملازمت اور گھر یلو تشدد سے خواتین کے تحفظ اور انہیں انصاف رسانی کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ قوانین بنائے گئے۔ فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی گئیں، لیکن ملک میں خواتین کو ان کا مستحقہ مقام نہیں ملا اور نا اس بات کی ضمانت ملی کہ ملک میں خواتین و لڑکیاں محفوظ ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نا بالغ لڑکیوں کے تحفظ کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو سماجی طور پر عدم تحفظ ہے یہ مسئلہ سمجھ میں آتا ہے لیکن بعض گھرانوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے مابین عدم مساوات اور تفریق کی وجہ سے کئی لڑکیاں ذہنی طور پر مطمئن نہیں بلکہ کئی لڑکیاں اپنے سرپرستوں کے عدم مساوات اور امتیازی سلوک کی وجہ سے ذہنی تناؤ اور انتشار کی کیفیت سے دو چار ہیں۔ زمانہ قدیم میں لڑکیوں کو پرایا دھن سمجھ کر یا پھر پرائی امانت کا بوجھ تصورکرکے اس کی مناسب نگہداشت تعلیم و تر بیت کو نظر انداز کیا جا تا تھا۔ اس لیے ان کی مناسب پرورش، نگہداشت اور تعلیم و تر بیت پر خر چ کے معاملہ میں والدین ذہنی تحفظات کا شکار تھے، لیکن اس زمانے میں بھی لڑکیوں کی تعلیم و تر بیت اور ان کی پرورش و نگہداشت میں اکثر والدین خر چ کرنا گویا پانی میں پیسے بہانے کے برابر سمجھتے ہیں،جب کہ ایک ہی چھت کے نیچے لڑ کے کی پرورش اور لڑ کی کی پرورش میں ا متیاز بر تا جا تا ہے۔ حا لا نکہ لڑ کوں کی بہ نسبت لڑ کیاں ہی والدین اور سر پر ستوں کی نگہداشت اور پرورش کی سب سے زیادہ ضرورت مند ہوتی ہیں۔ ان کی نگہداشت ایک قیمتی ہیرے کے مانند کر نا پڑ تا ہے اور والدین کی جو قدر اور احترام لڑکیاں کر تی ہیں، وہ لڑ کے نہیں کرتے۔میری تیسری لڑ کی کی پیدائش پر جب کچھ افراد خاندان نے شکایتی لہجہ میں ”تیسری بھی لڑکی“ کہا تو میں نے ببانگ دہل کہا تھا کہ ”میری کل کائنات ہی تینوں لڑ کیاں ہیں۔ بقول منور راناؔ؎
اپنے گھروں میں رہتے ہوئے غیروں کی طر ح ہوتی ہیں
تمام لڑ کیاں دھان کے پو دوں کی طرح ہو تی ہیں
دوسری بات کئی تعلیم یافتہ گھرانوں میں آج بھی خواتین گھر یلو تشدد کا شکار ہیں۔ راست و با لراست انداز میں خواتین پر ظلم و ستم کا سلسلہ جا ری ہے۔ بعض مواقع پر خواتین کو ہمدردی کے نام پر لو ٹا جا تا ہے۔ ا نہیں رہبر کی شکل میں رہزنوں سے سابقہ پڑ تا ہے۔ کئی لوگ سر راہ خواتین کو مشکل مر حلے میں ان کا ساتھ دینے اور ہمدردی کے نام پر دوستی کر کے موقع ملتے ہی ہاتھ صاف کر لیتے ہیں یا پھر انہیں اپنی ہو س کا شکار بنا لیتے ہیں۔جس کی زند ہ مثال حیدرآباد کے شمس آباد حدود میں سال 2019 میں پیش آیا پرینکا ریڈی کی عصمت ریزی اور قتل کا واقعہ ہے۔ پر ینکا ریڈی جب رات میں ساڑے دس بجے کے قر یب واپس ہو ر ہی تھی تو شمس آباد کے حدود میں ان کی گا ڑی پنکچر ہو گئی اور چار مجر مین‘ہمدردوں کی شکل میں ان سے رجوع ہو ئے اور مدد کا پیش کش کیا اور وقت کی مناسبت سے پر ینکا ریڈی نے اس پیش کش کو قبول کیا۔ نتیجہ میں پرینکا ریڈی کو اپنی جان سے ہا تھ دھونا پڑا۔ اِن چاروں لاری ڈرائیورس نے ایک سنسان علا قے میں لے جا کر پر ینکا ریڈی کی اجتما عی عصمت ریزی کی اور انہیں زند ہ جلا دیا گیا۔ اس کے بعد ہو ئے عوامی احتجاج کے دوران ان مجرمین کا انکا ؤنٹر کرتے ہو ئے عوامی برہمی پر قابو پا نے کی کو شش کی گئی، لیکن یہ بھی مسئلہ کا حل نہیں تھا۔اس کے واقعہ کو ابھی لوگ بھلا بھی نہیں پائے تھے کہ سال 2020 میں یو پی کے ہاتھرس علاقے میں ایک 19 سالہ دلت لڑ کی کی اجتما عی عصمت ریزی کر تے ہو ئے اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
تعلیمی اداروں میں بھی لڑ کیاں بلکہ معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں بنجارہلز کے علاقے میں واقع ایک خانگی اسکول کی کنڈرگارٹن کی طا لبہ کی کار ڈرائیور نے عصمت ریزی کر نے کی کوشش کی۔ اساتذہ کی جانب سے طا لبات کی جنسی ہرا سانی کی شکا یا ت بھی عام ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ دن قبل وٹرنری ڈاکٹر ویشا لی کو اس کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ایک نو جوان نوین ریڈی نے زبر دستی اغواء کیا۔خواتین کو سماجی، عوامی اور گھر یلو تحفظ فرا ہم کر نا ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ قوانین سازی اور سخت تر ین سزاؤں کے نفاذ کے با وجود بھی جرا ئم کی شر ح میں کو ئی کمی کا نہ آنا، اس با ت کی دلیل ہے کہ مجر مین اب قوانین سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ ان کا یہ خیال ہو گا کہ جرم جتنا سنگین ہو، اس سے نکلنے کی را ہیں بھی مسدود نہیں ہوتی ہیں۔ سیا سی سفارشات اور جھو ٹے گواہوں اور رشوت خور اعلیٰ عہد یداروں کے سبب ملک میں جرا ئم کی شر ح میں کمی آنا مشکل ہے۔
قانون ساز اداروں میں جب مجر مین کو سخت سے سخت سزا دینے کے لیے قوانین ساز ی کی جا تی ہے تو انہیں کیفر کردار تک پہنچانے تک ایک عر صہ بیت جا تا ہے۔ بقول غا لبؔ
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ہندوستان کے قوانین اور انصاف رسانی کے نظام کے متعلق ایک دانشور نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ ہندوستان دنیا کا وہ جمہوری ملک ہے کہ جہاں اند ھی فوجداری، لنگڑا قانون اور رینگتا انصاف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مجر مین کو سزا دینے کے مو جودہ نظام میں تیزی پیدا کی جا ئے۔ اکثر اوقات بڑے بڑے مجر مین کی سماعت اور سزا سے گزرنے تک طویل وقت ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عمل آوری میں اور انصاف رسانی کے نظام میں اصلاحات وقت کا تقا ضا ہے۔؎
انصاف وہ کرتا ہے گواہوں کی مدد سے
ایمان کی بنیاد یقین پر نہیں رکھتا