مذہبمضامین

پرانے شہر کے مسائل پر حکومت غیر سنجیدہ، مسلمانوں کے صرف کان خوش کئے گئے

ہماری ریاست میں یا ہمارے شہر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو ماحول بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس میں ذرا سا بھی تعجب نہیں، ہر طرف وعدوں کی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہیں، پرانے شہر میں خوابوں میں ہی سہی میٹرو ریل دوڑ رہی ہے ، نیاپل سے متصل سالار جنگ میوزیم کے روبرو دو بریجس کی تعمیر اور اس کا عنقریب سنگ بنیاد رکھنے کی باتیں کی جارہی ہیں

محمد اسمٰعیل واجد
9866702650

متعلقہ خبریں
گائے کے پیشاب سے علاج
ایک مکان کے کرایہ میں دوسرا مکان
برقعہ اور حجاب کی مخالف بی جے پی کی خاتون ایم ایل اے نے برقعے تقسیم کیے
ویڈیو: مدینہ بلڈنگ سرکل کے قریب واقع کمار شرٹس میں اچانک آتشزدگی کا واقعہ
مسلمان اگر عزت کی زندگی چاہتے ہو تو پی ڈی ایم اتحاد کا ساتھ دیں: اویسی

ہماری ریاست میں یا ہمارے شہر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو ماحول بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس میں ذرا سا بھی تعجب نہیں، ہر طرف وعدوں کی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہیں، پرانے شہر میں خوابوں میں ہی سہی میٹرو ریل دوڑ رہی ہے ، نیاپل سے متصل سالار جنگ میوزیم کے روبرو دو بریجس کی تعمیر اور اس کا عنقریب سنگ بنیاد رکھنے کی باتیں کی جارہی ہیں، مسلمانوں کو ایک لاکھ رروپئے قرض کی فراہمی کا نہ صرف وعدہ کیا جارہا ہے بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں بجٹ بھی جاری کردیا ہے، غرض ایسا لگ رہا ہے کہ سنہرے تلنگانہ میں اب دودھ کی ندیاں بہائی جائیں گی…. اس سنہرے خوابوں کے ماحول میں ہمیں مشہور شاعر راحت اندوریؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے ۔

سرحدوں پر کوئی تناو ہے کیا
پتہ کرو کہ چناو ہے کیا؟

10؍جولائی کے اخبارات میں پرانے شہر والوں کے لئے یہ خوشخبری شائع ہوئی کہ پرانے شہر میں میٹرو ریل کے کاموں کا فوری آغاز کیا جائے، چیف منسٹر کے سی آر نے وزارتِ بلدی نظم ونسق کو ہدایت جاری کی کہ پرانے شہر میں میٹرو ریل کے کاموں کو جلد شروع کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ صدر نشین لارسن اینڈ ٹربو L&T سے بات کرکے انہیں فوری میٹرو ریل کاموں کو شروع کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس پراجکٹ کیلئے حکومت سے تمام مدد فراہم کی جائے گی ۔ حیدرآباد میٹرو ریل کے کام کرنے والی کمپنی ایل اینڈ ٹی کو وزیراعلیٰ کی ہدایت کے بعد توقع ہے کہ جلد پرانے شہر کے میٹرو ریل کے کاموں کا آغاز کیا جائے گا جو طویل عرصہ سے زیرِالتواء ہیں ۔

16؍جولائی کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ میٹرو ریل کے لئے پرانے شہر میں حصول جائیداد کا عمل شروع کردیا گیا ہے ۔ دارالشفاء تا فلک نما کے درمیان 5.5. کیلو میٹر میٹرو ریل کے جملہ پانچ اسٹیشن ہوں گے اور ان اسٹیشنوں کے نام سالار جنگ میوزیم، چارمینار، شاہ علی بنڈہ، شمشیر گنج، اور فلک نما ہوں گے ۔ منیجنگ ڈائرکٹر حیدرآباد میٹرو ریل اتھاریٹی نے یہ بات بتائی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1000 جائیدادوں کے حصول کیلئے نوٹسوں کی اجرائی عمل میں لانے کے اقدامات شروع کئے جاچکے ہیں ۔ اور جاریہ ماہ کے اواخر یا آئندہ ماہ کے اوائل میں نوٹسوں کی اجرائی عمل میں لائی جائے گی ۔

17؍جولائی کو اخبارات میں کانگریس کے سینئر قائد وسابق وزیر محمد علی شبیر کا بیان شائع ہوتا ہے جس میں وہ پرانے شہر میں میٹرو ٹرین کو سیاسی حربہ الیکشن کیلئے عوام کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں… وہ آگے اپنے بیان میں کہتے ہیں الیکشن سے عین قبل عوام کو خوش کرنے کیلئے یہ اعلان کیا گیا جبکہ حقیقت میں پراجکٹ کی کوئی تیاری نہیں ہے ۔ محمد علی شبیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ پرانے شہر کے عوام کو پھر ایک مرتبہ میٹرو ٹرین کے نام پردھوکا دینے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ پراجکٹ کیلئے حکومت اور حیدرآباد میٹرو ریل کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے کان خوش کرنے اور ووٹ حاصل کرنے سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر یہ چال چلی ہے ۔ کانگریس لیڈر کے اس بیان کے بعد یہ پروگرام جو عوام کے ذہنوں میں شک کے دائرے میں تھا اس کو اور بھی تقویت ملی اور انہیں مشہور مزاحیہ شاعر غوث خوامخواہ کا یہ اشعار یاد آنے لگا …

الیکشن میں ہم ایسا نسخہ کمیاب چنتے ہیں
بھیانک جس کی ہر تعبیر ہو وہ خواب چنتے ہیں
مگر سچ پوچھئیے تو خوامخواہ ہم ایسے بکرے ہیں
ذبح ہونے کو خود اپنے لئے قصاب چنتے ہیں

اب میٹرو ریل پرانے شہر میں دوڑے گی یا نہ دوڑے گی؟ حکومت کے دعوؤں میں کتنا دم ہے ؟ حکومت پرانے شہر کی ترقی کیلئے کتنی سنجیدہ ہے؟ وہ پرانے شہر کی ترقی چاہتی ہے یا نہیں چونکہ پرانے شہر کے رہنے والوں کا طویل عرصہ سے حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ پرانے شہر میں میٹرو ریل کے کام جلد سے جلد شروع کرکے اسے نئے شہر سے جوڑیں… یا پھر کانگریس لیڈر محمد علی شبیر کابیان سچ ثابت ہوتا ہے …چند مہینوں میں الیکشن ہیں ،سب دودھ کا ددھ پانی کا پانی ہوجائے گا ۔ ویسے بھی موجودہ ریاستی حکومت نے ہمیشہ مسلمانوں کے کان خوش کرنے کو اپنا فرض اولین سمجھا ہے، اس کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی ، چاہے وہ مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات فراہم کرنے والا وعدہ ہو، اُردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا وعدہ تو تکمیل کو پہنچا لیکن وہ کھوکھلا ثابت ہوا ، پرانے شہر سے بی آر ایس حکومت نے ہمیشہ سوتیلا سلوک روا رکھا۔

پرانے شہر کے بے روزگار نوجوانوں کو اقلیتی فینانس کارپوریشن سے قرض فراہمی کی درخواستیں طلب کی گئی تھیں، بے روزگار نوجوانوں نے اپنی پیروی کے لئے عرصہ دراز سے دفاتر کی چپلیں گھسیں، نتیجہ زیرو ۔ چند دن قبل حکومت تلنگانہ کی جانب سے مسلم طبقے کیلئے ایک دل خوش اعلان آیا بالکل راحت اندرویؔ کا شعر پتہ کرو چناو ہے کیا؟ کی طرح معنی خیز ایک طرف مسلمان خوش بھی ہیں کہ کم سے کم اس حکومت نے مسلمانوں کیلئے ان کی مالی حالت میں سدھار کیلئے ایک اسکیم تو لائی ہے تو دوسری طرف انہیں اس بات کا بھی خوف ہے کہ کہیں یہ بھی کانوں کو خوش کرنے والی بات تو نہیں ؟ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اقلیتوں کی معاشی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے صد فیصد سبسیڈی کے ساتھ ایک لاکھ روپئے کی فراہمی کا فیصلہ کیا ہے ۔ سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود سید عمر جلیل کے مطابق اس سلسلہ میں حکومت نے جی او آر ٹی 78بھی جاری کیا ہے ۔

جی او میں کہا گیا ہے کہ یہ رقم ایک خاندان کے صرف ایک فرد کو دی جائے گی ۔ استفادہ کنندہ درخواست گذار کی عمر 2جون 2023 کو 21 تا 55 سال کے درمیان ہونی چاہیے ۔ درخواست گذار کی سالانہ آمدنی دیہی علاقوں میں دیڑھ لاکھ اور شہری علاقوں میں دو لاکھ روپئے ہونی چاہیے ۔ منتخب کئے گئے امیدواروں کی لسٹ مرحلہ وار طور پر اقلیتی فینانس کارپوریشن کی ویب سائیٹ پر ڈسپلے کی جائے گی ۔ سبسیڈی ون ٹائم گرانٹ کے طورر پر جاری کی جائے گی ۔

بی آر ایس حکومت جس کی دوسری معیاد عنقریب مکمل ہونے کو ہے، مسلم مسائل پر کبھی بھی سنجیدہ ثابت نہیں ہوئی، سوائے شادی مبارک اسکیم کے اس اسکیم میں بھی آج کی تاریخ تک بھی ہزاروں درخواستیں زیر التواء ہیں۔ ایسے بھی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ درخواست گذار دلہن ماں بن گئی اور درخواست زیر التواء ہے، اس ڈھنگ سے شادی مبارک اسکیم چل رہی ہے اور حکومت اس کا ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہے اور درخواست گذاروں کا یہ حال ہے کہ جو مل گیا جب ملا اسی کو مقدر سمجھ لیا پر گاڑی چل رہی ہے ۔

ایسی پیچیدہ صورت حال میں حکومت الیکشن کے قریب میں آکر کبھی پرانے شہر میں میٹرو لین دوڑانے کی بات کرتی ہے جو کہ پرانے شہر والوں کا ایک دیرنیہ خواب ہے،کبھی اقلیتی فینانس کارپوریشن سے مسلم بے روزگار نوجوانوں سے قرض فراہمی کی درخواستیں طلب کرتی ہے اور غریب مسلمانوں کا ہزاروں کا مجموعہ لگ جاتا ہے۔ اب ایک نیا خواب دکھایا جارہا ہے ایک لاکھ روپئے قرض صد فیصد سبسیڈی کاظاہر سی بات ہے کہ اس کے پیچھے بھی ہزاروں غریب مسلمانوں کی تعداد دوڑے گی جبکہ انہیں معلوم نہیں، اس میں بھی حکومت کی کانوں کو خوش کرنے کی ایک ادا ہے یا حقیقت ہے ، اس ماحول میں مشہور شاعر وسیم بریلوی کا یہ شعر یاد آتا ہے ۔

وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میںاعتبار نہ کرتا اور کیا کرتا
٭٭٭

a3w
a3w