مضامین

”پردہ “یا ”حجاب “ایک مسئلہ کیوں؟

رشید پروین

حالیہ دنوں سرینگر کشمیر کے ایک کالج میں عبائیہ یا حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج ہوا جو اس کالج کی طالبات نے کیا تھا ، لیکن شُکر ہے اس مسئلے کو بڑھاوا یا سیاسی طور استعمال کرنے کے بجائے ارباب اقتدار نے مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کا ادراک کرکے فوری اقدامات کیے اور آلوک کمار کشمیر ایجوکیشن محکمہ کے پرنسپل سیکریٹری نے واضح بیان دیا کہ ” یوٹی میں حجاب یا عبائیہ پر کوئی پابندی نہیں“ اور اس کے ساتھ ہی پرنسپل وشوابھارتی اسکول نے بھی فوری وضاحت کی کہ” ہم نے اس طرح کا کوئی آرڈر نہیں نکالا ہے “، میرے خیال میں اس احتجاج کی نوبت کیوں آئی اور اصل معاملہ کیا تھا اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ محکماتی ذمہ داروں نے معاملے کی نزاکت کو بھانپ کر فوری اور بغیر کوئی دیر کیے معاملات کو درست سمت عطا کی، لیکن یہاں ہمیں اس حجاب اور عبایہ یا ”پردے“کے معاملے پر تھوڑی سی ہی سہی جانکاری ہونی چاہیے تاکہ سمجھا جاسکے کہ حجاب یا پردے کے عنوان سے وقفے وقفے کے ساتھ سونامیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں یا پیدا کی جاتی ہیں ؟ تاریخی طور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ حجاب سے بہت سارے مغر بی ممالک ذہنی اور جسمانی انتشار میں مبتلا کیوں ہیں؟اور ہمیں اس بات کا بھی اقرار ہے کہ کئی ممالک میں حجاب پر پابندیاں عائدکی جاچکی ہیں اور جنہوں نے ابھی تک اس زینے کی طرف قدم بڑھایاہی نہیں وہ بھی یہاں تک پہنچنے کے لیے پر تول رہے ہیں، بھارت میں تو پچھلے برس ایک کالج میں اسٹوڈنٹس کو حجاب نہ پہننے یا دوسرے الفاظ میں پردہ کرنے کی جو ممانعت کی جاچکی ہے یہ اپنے آپ میں ایک تحیر انگیز اور فکر انگیز واقعہ ہے۔ اصل مسئلہ ”حجاب“ نہیں، کیوں کہ حجاب مسئلہ ہو ہی نہیں سکتا اس پس منظر میں کہ یہاں بھارت میں ہزاروں برسوں سے،یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ویدک زمانوں سے ہی کسی نہ کسی صورت میں پردے کا رواج رہا ہے بلکہ پردہ ، گھو نگھٹ ، چنری، ساڑھی ویدک زمانے سے بھی ڈریس کا حصہ رہا ہے۔ کیگان پال مورخ کے مطابق پردے ، گھونگھٹ یا چنری سے چہرہ چھپانے کا رواج زمانہ وسطیٰ سے رہا ہے اور ماہر آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ چتور گڑھ قلعے کی پڑتال سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس میں زنانہ خانے الگ تھے۔و المیکی نے اپنی رامائن میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ بن باس روانہ ہونے سے پہلے رام نے سیتا ماتا کو گھونگھٹ اٹھاکر عوام کو درشن دینے کی اجازت دی تھی ،یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رام کے زمانے میں پردہ تھا۔ بھلے ہی یہ رواج رہا ہو یا بھارتی سنسکاروں میں شامل رہا ہو ، لیکن اس سب کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی کہ سکھ برادری داڈھی رکھتی ہے ، پگڑی باندھتی ہے،کرپان رکھتی ہے جو ان کے مذہبی ڈریس کوڈ کی شناختیںہیں اور اس طرح بھارت میں جو رنگا رنگ تہذیبی اور تمدنی کثرتوں کا حامل ہے، کسی پر اعتراض نہیں کیا جاسکتااور اعتراض کرنے کا سوال ہی آئینی اور منطقی طور پر پیدا نہیں ہوتا ، پھر ایک مسلم شناخت نشانے پر کیوں ؟جب کہ یہ بات واضح اور صاف ہے کہ یہ مسلم کلچر میں ہی شامل نہیں بلکہ اہل اسلام کے لیے ایک مذہبی فریضہ اور شرعی حکم ہے اور یہ مسلم خواتین کی اپنی ایک شناخت اور پہچان بھی ہے جس کے بارے میں سوالات اٹھانا قطعی طور پر دین میں مداخلت بے جا کہی جا سکتی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ یوروپ اور امریکی معاشرے جو اس دور کی امامت کر رہے ہیں، کے کلچر ، تہذیب و تمدن اور اقدار کو ساری دنیا پر کلہم طور پر محیط ہونے میں اس وقت بھی اپنی ناتوانی اور ضعیفی کے باوجود اسلام علمی، عقلی اور معاشرتی چلینج بن کے ان کی راہ میں کھڑا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ نام نہاد مسلم ممالک ہی سہی لیکن اس کے باوجود مغربی اور امریکی تمدن کو پوری طرح نہ تو تسلیم کر رہے ہیں اور نہ ہی پورے کے پورے ان کے رنگ کو قبول کر رہے ہیں۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی سے آزادی نسواں کی جو تحریک مسلم ممالک میں متعارف کرائی گئی، اس کے پیچھے اصل میں یہی عزائم تھے کہ آہستہ آہستہ اسلامی شعائر اور طرز زندگی کو ہی اسلام کے دائروں سے بہت دور کیا جاسکے اور اس کے لیے یہودی بڑے علما اور فلاسفرس نے ہر خرافات کو علمی اور سائنٹفک لبادوں میں پیش کرکے اقوام عالم اور مسلم قوم کو کچھ زیادہ ہی تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنایا ، مغربی تہذیب و تمدن کا ماحاصل ہی عورت کی وہ آزادی ہے جو بے قیود بے ضابطہ اور کسی بھی دائرے میں مقید نہ ہو اور یہ کہ عورت اپنے جسم کو جس طرح اور جس انداز میں بھی بازار حسن میں پیش کرنا چاہے ، کرنے کی مجاز ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی اخلاقی ، مذہبی یا سماجی قدغن نہ ہو بلکہ وہ ”میرا جسم ،میری مرضی“ کا عملی طور پر چلتا پھرتا اشتہار ہو “ یہ بہت ہی مختصر سی ڈیفنیشن ہوسکتی ہے لیکن ایک لمحے کے لیے ہم ماضی کو کھوجیں گے تاکہ کئی پہلو ہمیں صاف اور واضح نظر آئیں ۔ انسانی تہذیب و تمدن کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ عورت ذات کے وجود کو ہی شرم اور گناہ کا درجہ تھا ، بہت سی اقوام میں بیٹی کی ذلت سے بچنے کے لیے لڑکیوں کا قتل بھی جائز تھا ، رسول پا ک ﷺ نے ہی عورت کو تاریخ میں پہلی بار عزت اور وقار کا درجہ ہی نہیں دیا بلکہ دنیا سے یہ تسلیم کرایا کہ وہ بھی اللہ کی اسی طرح مخلوق ہے جس طرح کی مرد ،، اور اعلان فرمایا کہ ” اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اور اسی کی جنس سے اس کے جوڑ ے کو پیدا کیا ، (النسائ) ” خدا کی نگاہ میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں“ (النساء۳۲) اور اس طرح سے وہ انقلاب پیدا ہوا جس کی چھاپ آج تک مسلم معاشروں میں کچھ دھندلی ہی سہی پھر بھی نظر آتی ہے ، اور جہاں عورت کویہ توقیر احترام ، عظمت اور پر جمال تقدس کا مقام عطا ہوا وہاں اس محترم اور اونچے پاکیزہ مقام پر ٹھہرے رہنے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر اور وہ بندھ باندھ لیے جو انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہیںاور اس تقدس کو روز مرہ زندگی کے معمولات کی بجاآوری کے باوجود برقرار رکھنے میں انتہائی ممدو معاون ہیں، ان میں حجاب بھی ایک فیکٹر ہے ، جسے مسلم معاشرے کے چہرے سے نوچنے کے لیے ساری مغربی اور مسلم دشمن اقوام متحد طور پر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی معاشروں نے بہت سارے اسلامی احکامات کو اپنے سائنسی ذرائع ابلاغ ، مسلسل منصوبہ سازی اور پیہم تگ و دو سے سے منفی شکل میں پیش کیابلکہ یہ باور کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور نہ چھوڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے آج کا مسلماں بڑی حد تک اس سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ ایک بڑی تعداد مسلموں کی ان معاملات میں مغرب کے ہم خیال ہے، یہی معاملہ حجاب کا بھی ہے۔ حجاب کاجہاں تک تعلق ہے، قرآنِ حکیم میں کئی جگہوں پر عورت کی توقیر ، عزت و احترام اور اسے محفوظ و مامون رکھنے کے لیے حجاب کے احکامات دیے گئے ہیں ، اس دور میں عجیب و غریب دلائل اور بحثیں اس منطق تک جان بوجھ کر پہنچائی جارہی ہیں کہ حجاب یا پردہ عورت کی آزادی سلب کرتا ہے ، سماج میں اسے بنیادی حقوق سے ہی محروم کرتا ہے اور ایک طرح سے عورت کو اپنی زندگی قید میں بِتانا پڑتی ہے، یہ دو تین جملے شاید مغربی انداز فکراور نقطہ نگاہ کی عکاسی کرتے ہیں ، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ یہی وہ بات ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ مرد و زن کے بہتر تعلقات اور ایک فلاحی معاشرے کی استواری پر اگرچہ قرآن حکیم میں بہت ساری آیات کریمہ بنی نوع انسان کی رہبری کے لیے موجود ہیں لیکن ہم صرف دو آیات کریمہ کے حوالے سے اللہ کے منشا اور مرضی سے آشنا ہوسکتے ہیں ، ”اللہ نے تمہارے لیے خود تمہیںمیں سے جوڑے بنائے اور جانوروں میں سے بھی جوڑے بنائے،اس طریقے سے وہ تم کو روئے زمین پر پھیلاتا ہے “(الشوریٰ ۱۱) ظاہر ہے کہ اللہ نے تمام حیوانات کی طرح انسان کے جوڑے بھی اسی مقصد کے لیے بنائے ہیں کہ ان کے تعلق سے انسانی نسل جاری ہو ۔ انسان کی حیوانی فطرت میں صنفی میلان اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اس کے زوجین باہم مل کر خدا کی زمین کو اپنی نسل سے آباد رکھیں اور پھر مرد کو یاد بھی دلایا کہ ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں“ (البقرہ ۲۲۳) یہاں اس آیت کریمہ میں عورت کو مرد کی کھیتی قرار دے کریہ واضح کیا گیا کہ انسانی زوجین کا تعلق دوسرے حیوانات کے زوجین سے قطعی منفرد اور مختلف ہے ، جس طرح کھیتی میں کسان محض بیج ڈال کر اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے اور بہتر فصل کے لیے اس کھیت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس میں پانی بھی دیتا ہے ، کھاد بھی مہیا کرتا ہے اور اس کھیت کی اس طرح حفاظت کرتا ہے کہ بے لگام اور آوارہ جانوروں کو اس کھیت میں منہ مارنے کے مواقع میسر نہ آئیں ،در حقیقت کھیتی اور فصل اس کی محتاج ہوتی ہے کہ اس کا کسان جس نے بیج بوئے ہیں اس کی رکھوالی بھی احسن طریقے سے کرے ، یہی وجہ ہے کہ عورت کی عظمت ، عفت ، عصمت اور تقدس کو بر قرار رکھنے کے بہت سارے عوامل اور حفاظتی تدبیروں میں حجاب ایک بہت ہی مناسب اور بہتر تدبیر ہے ، حجاب یا پردے میں علماءکی رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن نبی ﷺ نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اس سے زیادہ کھولے، یہ کہہ کر آپﷺ نے اپنی کلائی کے نصف حصہ پر ہاتھ رکھا (ابِن جریر ) جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہئے سوائے چہرے اور کلائی کے (ابو داود)۔ ہم جائز اور ناجائز کی تمیز کھو بیٹھے ہیں ، ہم نے قوانین فطرت کی خلاف ورزی کر کے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کا مرتکب سزا پائے بغیر نہیں رہ سکتا ، جب بھی کوئی شخص زندگی سے کسی ناجائز امر کی اجازت لیتا ہے زندگی اس کے جواب میں اسے کمزور بنادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”تہذیب روبہ زوال ہے “۔۔۔ یہ ایک ملحد الکسیس کاریل کے خیالات ہیں،جن سے ظاہر ہے کہ بے قید اور بے اخلاق زندگی بہتر اور پروقار معاشرے تعمیر نہیں کرسکتے اوریہ فطرت کا اٹل اصول ہے کہ شہوتوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا ، سوائے اس کے کہ ان پر ضبط اور قیود عائد کی جائیں۔۔ ۔۔۔
٭٭٭