سیاستمضامین

کہیں خوشی کہیں غممُلک گیر بدنامی ۔ امر اکبر انتھونی

ظفر عاقل

سال کے اخیرمیںآخرش۔۔۔ تماشہ سیاست جس کا آغاز میزورم وَچھتیس گڑھ سے ہوا تھااورسونامی بن کر ہماچل وَراجھستان سے ہوتا ہوا جنوب کی ریاست تلنگانہ ریاستی اسمبلی الکشن کے انعقادمورخہ30نومبر23کے ساتھ تھم تو گیا ہے لیکن سٹّہ بازارکی بازیگری کے صدقہ یا پھر انتخابی مشین EVMکی مبینہ کارگزاریوں ‘کارناموں و شرارتوں کے لیے سازگار ماحول بنانے کی ہمہ ہمی میں مصروف اگزٹ پول ضرور جُتے ہوئے ہیں اور سفید کو سیاہ اور کالے کو اجولا بنانے میں ان کا نہ کوئی ثانی ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے ۔البتہ بھاجپا و کانگریس کی گھماسان انتخابی کاوشیں ضرور اپنی انتہا کو پہنچ گئیں اور کسی نے کوئی کسر نہ چھوڑی کے کوئی آکر اس کو پورا کرسکے۔جہاں تک نارتھ ایسٹ کا تعلق ہے مودی کو ہمت نہ پڑی کہ وہ اپنے نیارے چہرے کے ناز نخرے اور نیاز وَانداز کی جھلک جاکر میزورم وَمنی پور کو دکھا بھی سکے؛حتیٰ کہ سال کے اخیر5ریاستی اسمبلی انتخابات میں بھاجپا حمایتی۔۔۔ میزورم CM۔۔۔نے عوامی سطح پر اپنے خوف و َخدشہ کا اظہار ضرورکیا کہ وہ مودی کے ساتھ کوئی اسٹیج شیر کرنا نہیں چاہتے ۔کوئی اور ہوتا تو ایک آدھ بوند پانی بھی ڈوب مرنے کو کافی سمجھتا ۔کھوپڑی میں چھٹانک وزن رکھنے والوں کا دعویٰ رہا ہے کہ مودی ہے توناممکنات محال ہیں ؛
میزورم نہ جاکر نصیب کادعویٰ (بوقت پٹرول کی انٹر نیشنل قیمتوں میں کمی)کرنے والے گئے بھی توگجرات کے اپنے ہی نام کے اسٹیڈیم میں اور۔۔۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوہی گیا ؛دَس برس کی دَبی کچلی تپی ہوئی مظلوم وَمفلس نیز مجبور محض پبلک نے لگے ہاتھوں۔۔۔ لگاتار وَ سبا رفتار ہیلو ‘ہائے ہلاتے ہاتھوں میں۔۔۔ پنوتی کا تمغہ تھمادیا کہ لو بھائی اب پکڑے پھرتے رہو” راہو کیتو "کی طرح۔۔۔دنیا بھر میں گول گول ؛بیچارے راہول نے تو کم و بیش دس برس ہر قسم کے مزاق و گراوٹ کو انگیز کیا ہے؛چنانچہ بدلے میں چوبیس کے سیاسی چوبارے(الکشن) تک یہ ناخوشگوارچرچا (اورسیاسی پارٹیوں کی چوما چاٹی) تو "چلتی کا نام گاڑی” چلتی ہی رہے گی؛
بے تحاشہ بھگوائی مال ومنال لٹاکر مشہور کیاگیا کوئی Pappu پبلک سلوگن کے چھکّے پرکسی کو Panauti قرار دیدے تو اس میں عجب کیا ‘اعتراض کیسا؛بلکہ بُرا دونوں ہی کونہیں ۔۔۔بلکہ کسی اورکو بھی نہیں ماننا چاہیے۔؛البتہ بہ استثناء بھاجپائی اندھ بھکت ۔۔۔۔خوشیوں سے لوٹ پوٹ جنتا نے برا مانا ہی کب ہے کیونکہ اِس نئی نویلی سنسکرتی کی جنم کنڈلی فسطائی زاعفران زار سرکارکے پاؤں تا سر قیادتوں کے سر بندھی ہوئی ہے؛اور انہوں نے چھوٹی کو چھوڑا ہے اور نہ ہی بوڑھی کو‘نر کو نہ ناری کو‘جرسی کو چھوڑا اورنہ ہی پچاس کروڑکی دیسی کو ۔کم و بیش 140Crنے بھی اس ہاتھوں ہاتھ دیے گئے تحفہ کو بھی بروقت ہی گردانا کیونکہ وہ بھی گجراتی لابیوں‘ مختلف ریاستی کنول پنکھڑیوں (ریاستوں)وَ پنوتیوں کے ہاتھوں پہ دَر پہ پَپّو بنائے جاتے رہے ہیں؛
اِس دیسی تڑکے کا دکھ جھیلتے” چوکیداروں "کے لیے بھی ممکن نہ ہوسکا کہ وہ اس #Panautiکی کاٹ لاسکیں۔۔۔ اوراپنے دُکھ درد کا درمان کرسکیں؛ لیکن اب یقین راسخ ہوچلا کہ چوبیس میں نَیّا آر نہیں تو پار کرنی ہی پڑے گی؛اس لیے 23کا زور کا جھٹکا بروز تین بارہ(3Dec ) لیکن دھیرے سے بنام 2024تو جنتا جناردھن نے دے کرڈنکا پتی شکونی کو پاؤ 12کردیا ہے۔ تبھی تو بیچارے پرچار منتری مارے شرم ‘منہ چھپاتے مسلمانوں کے ملک میں موجود ہیں اور پیڈ گجراتیوں سے سوغات وصول کرنے میں مگن ہیں ؛تاکہ عضو نااندیش وَناکارہ نڈا کے سرپر ناکامی کی پگڑی سجائی جائے ۔دوسری جانب ہلکی سی راحت پائی پبلک سے سوا کروڑ کا سوال سولی پر لٹکا ہوا ہنوز قائم ہے کہ کیا چوبیس تک ان کا جوش جذبہ جنون و جوانمردی ۔۔۔ناتوان نہ ہوکر ۔۔۔جوان وَ توانااور تروتازہ باقی رہے گا؛ اور اس منافرتی منووادی برائی کی جڑ کو لال قلعہ کی فصیل سے ہمیشہ کے لیے اُکھاڑ پھینکے گا۔دوسرے پیرائے بیان میں ملک و ملت اور آنیوالی نسلوں کی بھلائی و کامرانی؛ نئی اُمنگوں سے لدا ہوانیا سال۔
تین دسمبر یعنی آج بروز اِتوار۔۔۔ چار ریاستوں کے نتائج۔۔۔ اور چار (دسمبر)کو پانچویں یعنی میزورم کے نتائج منصئہ شہود پر آجائیں گے؛اور کہیں خوشی کہیں غم کے بادل راحت و کُلفت کا سبب بنیں گے۔امید ہے کہ بھاجپا 5-0سے یہ سیاسی کرکٹ کی پچ سے پچھاڑ دی جائے گی۔ بھاجپا کی ناکامی مودی جادوگری کا انتم سمسکارکا شُبھ آغاز اور اندرونی بغاوت کا سبب بھی بن سکتی ہے؛ راجھستان میں برا بر کی ٹکر کانگریس وَبھاجپا کے سر پر لٹکتی تلوار کے مثل بتائی جارہی ہے؛ لیکن امید قوی ہے کہ دانشمند راجھستانی جنتا بھی زاعفرانی تیر کا شکار نہ ہوکر کانگریس کی شرن میں برقرار رہے گی اور اپنی سیاسی روایات کی اسیر نہ ہوکرگرم توے کی اس روٹی کو پلٹنے سے باز رہے گی۔
اسی طرح تلنگانہ بھی نہ صرف انقلابات کی بہار کے دَر پر دستک دے رہا ہے ؛بائے بائے کی گونج سے ماحول سرشار ہے اور اگزٹ پول کا بھی یہی ماننا ہے۔تلنگانہ میں کانگریس کی جیت سے بھاجپا کے لیے جنوبی ہند کی 129نیز پانڈوچیری سمیٹ کُل 130لوک سبھا سیٹوں پر داخلہ ممنوع کا بورڈ آویزاں ہوجائے گا۔کانگریس پر راہول کانگریس کا ٹیگ مزید مضبوط ہوجائے گا۔اور راہول گاندھی دَورِ رواں کا وہ واحد سیاسی قائد جس کی زباں اور دل دونوں بھاجپا اور آر یس یس کے خلاف ۔۔۔مثلِ تیر و تلوار بے غلاف ہے اور اس روپ میں وہ سیاسی سے سواء ایک فلسفی و مصلح نظر آتا ہے؛اور اس معاملہ میں اس کی بہن اس سے کوسوں پیچھے سیاسی قیادتوں کی جھرمٹ کا حصہ ہے۔
کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی اور بالخصوص تلنگانہ میں Brs/Kcrکی ناکامی کی بنیادوں میں مسلم اقلیت کا قومی سیکولر پارٹی کانگریس کی طرف واپس مراجعت شامل ہے؛ بلکہ یوں کہا جائے تو حقیقت کے قریب تر ہوگا کہ علاقائی و خاندانی پارٹیوں کی بقا وَ دوام اور کامیابی و ترقی کا دارومدار مسلم ووٹ بنک کی حمایت پر ٹکا ہوا ہوتا ہے؛اور یہ اگر چِٹک جائے تب۔۔۔ان پارٹیوں کی بقا وَترقی کی بنیادیں ہل جاتی ہیں؛نیز یہی بنیادی ووٹ بنک کی رضا و ناراضگی سے دوسری مخالف وجوہات کو سہارا ملتا ہے اور وہ مزید دو آتشہ ہوکر نیز یہ سب مل کر ایک جوالا مکھی روپ دھارن کرلیتے ہیں؛اور اس جامع جمع بندی سے علاقائی پارٹیوں اور قیادتوں کا اور ان کی کامیابیون کا نشہ ہرن۔۔۔اور تخت (اقتدار)تختہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔مفادات حاصلہ کے ماتحت مین اسٹریم میڈیا کانگریس پارٹی کی طرف دن بہ دن بڑھتی مراجعت کو زیادہ آشکارنہیں کرتا ہے کیونکہ اس سے مراجعت کو سرعت۔۔۔اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ممکنہ دیر تک باقی رہے؛درانحالیکہ دیر سویر تک یہ سہارا باقی رہنے والا نہیں ہے۔
چنانچہ کہا جاتا ہے کہ کہ ہر آغاز کے لیے انجام اور ہر عروج کو زوال مقدر ہوتا ہی ہے؛ اور ہر پروڈکٹ کی طرح ان تمام سیاسی جاگیروں کی ۔۔۔چاہے گلابی رنگ کا گلاب ‘ہو کہ سبزرنگ کی ہریالی۔۔۔ بھی Expiryکی ایک معیادمقرر ہوتی ہے اور نئی ہواؤں کے لیے آسمان کشادہ ہو ہی جاتا ہے؛شاید تلنگانہ میں Brs/Kcrکی Bjp/Rss کی طرح دس برس مقرر تھا اور ان دونوں کو پہلی معیاد کے بعد جنتا جناردھن نے دوسرا بھرپور موقع ضرور عطا کرنے میں کوئی بخیلی نہیں دکھائی بلکہ فیاضی برتی ہے تاکہ راج دھرم کا پالن کرسکیں اور اونچی مسندوں پر پہنچ کر بہت اونچائی سے نیچے نظر آنے والی جنتا کو دیکھنا چھوڑ دیں ؛لیکن نہ راج دھرم کا پالن ہوسکا اور نہ ہی زاعفرانیت کی مخالفت میں صداقت کا شیر(Milk)بغیر آب(Water)خالص رہ سکا۔۔۔بلکہ مسلم حمایت کوایک کے سہارے کی ڈفلی بنا کر بجایا جاتا رہا؛ واحد رفاقت جس پر مسلم سماج و طبقہ کاٹھپّہ لگاہے۔۔اور جس کو تلنگانہ کی گلابی قیادت نے اونچے پد پر پہنچایا ہے۔۔۔ وہ بھی انگشت ششم ثابت ہوئی ہے اور اس کی کارگزاری بھی مسلمانوں کے لیے کمزور مسلم حقوق کی فراہمی میں لاچار ۔۔۔لیکن مذہبی میدانوں میںگستاخانہ بنتی چلی گئی؛معاملہ صرف تلنگانہ ریاستی پارٹی ہی کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ۔۔۔مسلم سیاسی قیادتوں کی رفاقتیں مسلم طبقہ کے حق میں صفر اور اپنے مائی باپوں کے مفادات وَاحکامات ۔۔۔بلکہ اشاروں کی کٹ پتلی کٹ حجتیاں ہی ثابت ہوئی ہیں ‘اور مسلم قیادتوں کا یہ غلامانہ وطیرہ ہر سیاسی پارٹی کے ساتھ منسلک ہے چاہے وہ ملک گیر ہوکہ ریاستی محیط پر محو سفر ہو ‘ اور حد تو یہاں تک ہے کہ ضلعی و مقامی سیاسی قیادتیں تو اپنے انّاؤں کے تلوے کا مزا خوب جانتی اور بیان کرتی رہی ہیں۔اور مسلم ملت کو اس شرمساری کی ساری کلفتیں اور کرب و غم سہتے رہنے پر مجبور ہوتے رہنا شاید مقدر کا لکھا معلوم ہوتا ہے کیونکہ مجرم تو مسلم ملت بھی ہے کیونکہ قیادت پر اس کی گرفت نقاہت سے معمور اور جوابدہی سے عاری اس لیے کہ وہ خود بھی بوقت انتخابات بھیک کے ٹکڑوں پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے؛اور اس نے ان اسباق کو اپنے ملّی سماجی حتی کہ مذہبی رہنماؤں سے سیکھا ہے۔صحیح کہا کسی نے کہ بکاؤ مال کی قدر وقیمت اور مقام سٹرک کنارے پڑی اشیاء کے مثل و ہم وزن ہوتا ہے۔
اس سیاسی و ملکی منظر نامہ میں مسلم ملت کی بقا و ترقی(بطور تدبیر) کا دارومدار غیر فسطائی طرز سیاست و قیادت سے منسلک ہے؛اور مابعددستوری حاصل شدہ حقوق کی ممکنہ فراہمی بھی اسی عنوان کے تحت لام بند ہے؛اور اگر کوئی منو واد فسطائی فکر و نظریہ کی علم بردار ملکی و ریاستی و مقامی اقتدار پر براجمان ہوجائے تب اس کا نشانہ اولین مسلم تہذیب و ایمان و یقین پر ڈاکا زنی سے شروع ہوتا ہے اور یہ شب خون کی پہچان شاطرانہ انداز سے پس مکھوٹا رہتی ہے اور ظاہر ہونے تک داخل تباہی کامسکن بن جاتا ہے؛اس لیے اولین ہدف٭ فسطائیت اور اس کے ٭حاشیہ بردار اور٭مددگار کی فکر و تنظیم کو نیست ونابود کرنا ہونا چاہیے ؛اور واضح رہنا چاہیے کہ یہ تینوں (امر اکبر انتھونی)ہی عمومی و مجموعی نقصان کے سر چشمہ اور ان کی بہتی دھارائیں بھی گھاتک ہوتی ہیں۔ان میں پہلے سے سیاسی جفاکشی نسبتاً واضح اور آسان کیونکہ وہ ظاہر ہے جب کہ ماباقی مکھوٹائی پیرہن سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں اس لیے سیاسی لڑائی مشکل اور دقت طلب ہوتی ہے بلکہ خود مظلوم (ملت)کو سمجھانا ایک مشکل امر ہوتا ہے؛چنانچہ یہی حال (بطور)تمثیل نظام آبار اربن کا بھی بن گیا ہے:
نظام آباد اربن جس کے نام تبدیلی کی مسلسل کوشش ہوتی رہی ہے اور جس کی جملہ آبادی 294832(10oct23) اور مسلم تناسب لگ بھگ 43%یعنی کم وبیش126000ہے جب کہ مقابلہ سہ رخی یعنی کانگریس بھاجپا اور بی آر یس میں (بہ مدد مقامی و علاقائی مسلم پارٹی) ہے ہر کوئی کانگریس سے آمادہ پیکار بھی ہے؛حکمت کے بدون کوشش و سعی بھاجپا کی کامیابی کی شکل میں سامنے آنے کو مانو کہ آن کھڑی ہے؛سیاسی منظر نامہ میں یہ بھی پیش منظر رہا ہے کہ مسلم سیاسی پارٹی کا انداز و کاوشیں اس طرح کے مانو خود دوبدو لڑائی میں شامل ہے ؛درانحالیکہ اس کا امیدوار میدان میں غیر موجود ہے یعنی قانونی طور پر وہ اس انتخابی جنگ میں شامل نہیں ہے ۔BJP/BRSدونوں بنیہ کمیونٹی سے متعلق بھی ہیں اور مال و منال سے مست مست ہیں؛دوسری جانب کانگریس نے اپنے ریاستی قد آور قائدشبیر علی کو وقت اخیر وتاخیر سے میدان میں کاماریڈی سے نظام آباد شفٹ کرکے اُتارا ہے اس لیے بہت قلیل وقت ربط و تعلق کو جوڑنے کے لیے مہیا ہوا ہے؛
بظاہر اس سہ رخی مقابلہ میں اصل لڑائی کانگریس اور بھاجپا کے درمیان تھی؛اور ملت کو سمجھانا ٹوٹے دانتوں چنے چبانے کی مثل ایک مشکل مرحلہ بن گیا لیکن تحریک اسلامی کی پولیٹکل کمیٹی بالخصوص اس کے کنونیر کے علاوہ لازماً تمام مسلم قیادتوں کی محنت رنگ لائی اور پہلی بار ملت بعد فجر ماقبل ناشتہ مقام و مرکز رائے دہی پر جوق در جوق اپنے وجود کو ظاہری و معنوی طور پر منوایا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہی ہوگی؛اور حسن ظن رکھنا چاہیے کہ یہ فطرت قائم رہے گی۔
تحریک اسلامی (JIH)کی حکمت عملی کی کامیابی یہ رہی کہ وہ بظاہر اتحاد کی ہمت شکنی اور اصل و حقیقی اتحاد کے قیام پر نہ صرف زور دیا بلکہ ربط و تعلق و دلسوزی سے اس سیاسی حکمت عملی کو ظہور میں آنے دیا۔امکان قوی ہے کہ کانگریس امیدوار کامیاب ہوگا اور جس طرح TRSنے مسلم قیادت کو موقع فراہم کیا تھا اسی طرح شبیر علی کے لیے بلکہ نظام آباد کے لیے کارگر و کامیاب موقع کانگریس بھی دیگی۔کانگریس کو بھی یاد رہنا چاہیے کہ دس برس کی خاک مسلم رائے دہندوں کی ناراضگی کے سبب تھی اور اب اگر موقع مل رہا ہے تب مسلم ووٹ بنک کی مراجعت شامل حال رہی ہے۔
کانگریسی امیدوار شبیر علی پر بھی حقیقت حال واضح ہے اور جن حالات سے ان کو سابقہ پڑا ہے اور جس ماحول میں وہ نظام آباد کی سیاست کا حصہ بنے ہیں( وہ کامیابی کے بعد) وسعت قلبی اور درگزر کا متقاضی ہوگا؛اور وہ متحدہ آندھرا پردیش کے ریاستی سطح کے قاید رہے ہیں اس لیے بھی لازماً وہ مسلم قیادت بشمول ملت کی تربیت و موجودہ نوک وپلک کی درستگی میں کامیابی و ناکامی کے وہ بھی بھاگیہ دار ہیں جس سے و ہ مفر نہیں سکتے ہیں؛اور یہ بھی کہ نظام آباد عرصہ سے ایک قوی اور مخلص قیادت کا منتظر ومتمنی رہاہے اور اگر شبیر علی بطور ممبر اسمبلی (نیز ان کو عطا کردہ مناصب کے بشمول)اگر وہ اس امتحان میں کھرے اترسکے تب تاریخ اور مقامی عوام بشمول مسلم و غیر مسلم ان کو یاد رکھے گی۔دوسرا ایک اور پہلو بھی گوش گزار کیا جائے تو برائی کچھ نہیں بلکہ بھلائی ہی بھلائی ہی ہوگی ؛اور وہ یہ ایک ہر فرد بشر کی زندگی گناہ و ثواب کو مجموعہ ہوتی ہے لیکن اگر وہ کوئی ایسا کار خیر کر گزرے کہ اس کا پیدا کرنے والا اور پالن ہار اس سے راضی و خوش ہوجائے تب دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کا حقدار ٹہرے گا :بالخصوص عمر رفتہ کے اس پڑاؤ میں تو برے سے برا بھی اچھے سے اچھا بننے کی سعی تو کرتا ہی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰