ہائیکورٹ دستور ہند کے آرٹیکل226کے تحت کن حالات اور صورتوں میں Writ of Mandamus جاری کرسکتا ہے یہ رِٹ سرکاری عہدیداروں کو فرائض انجام دینے اور غیر قانونی اقدامات کرنے سے روکنے کیلئے جاری کی جاتی ہے
٭ متذکرہ رٹ آپ کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ ٭ پولیس کو تجارتی‘ ازدواجی معاملات میں مداخلت سے باز رکھتی ہے۔ ٭ سرکاری عہدیداروں کو اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ ٭ عوام کو ان کی جائیدادوں سے بے دخلی سے روکتی ہے۔ ٭ حکومت کے ہر غیر قانونی عمل پر روک لگاسکتی ہے۔
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
روزنامہ منصف کے معزز قارئین کے مسلسل اصرار پر آج دستور ہند کے آرٹیکل (32)اور (226) کے بارے میں بہت ہی مفید اور مختصر معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ اکثر قارئین کرام دریافت کرتے ہیں کہ آپ رِٹ درخواست دائر کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیے کہ ’’ رِٹ‘‘ درخواست کیا ہوتی ہے۔ یہ لفظ اس طرح پڑھا جائے کہ لفظ ’ر‘ کے نیچے زیر ہو۔ یعنی رِٹ نہ کہ رَٹ۔ یہ انگریزی لفظ (WRIT) ہے جس کے معنی قابلِ تعمیل حکم کے ہیں۔
دستورِ ہند کے آرٹیکل (32) کے تحت سپریم کورٹ آف انڈیا کو ‘ رِٹ جاری کرنے کے اختیارات حاصل ہیں جن کا اطلاق سارے ملک پر ہوتا ہے اور ٹھیک اسی طرح ملک کی ہر ریاست میں قائم ہائیکورٹ کو آرٹیکل (226) کے تحت اپنے دائرہ کار یعنی تمام ریاست میں رِٹ احکامات جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ رِٹ درخواست عموماً ایک رکنی بنچ کے روبرو دائر کی جاتی ہے۔ فیصلہ کے خلاف ایک ڈیویژن بنچ پر رِٹ اپیل دائر کی جاسکتی ہے جو عام طور پر ریاستی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے جج کے روبرو پیش ہوتی ہے۔
رِٹ درخواست پر حکم حتمی ہوتا ہے اور حکم کی تعمیل حکومت اور عہدیداروں پر لازم ہوتی ہے اور اگر حکم پر تعمیل نہ ہو تو تحقیر عدالت کی کارروائی ہوتی ہے جس میں بڑے بڑے کلکٹرس ‘ چیف انجینئر اور سکریٹریز تک کو جیل کی سزا بھگتنا پڑتا ہے۔
رِٹ کی اقسام
- WRIT OF HABEAS CORPUS
- WRIT OF MANDAMUS
- WRIT OF CERTIORARI
- WRIT OF QUO WARRANTO
- WRIT OF PROHIBITION
(1) غیر قانونی گرفتاری ‘ نظر بندی کے خلاف یہ رِٹ درخواست دائر کی جاتی ہے اور دو رکنی بنچ اس رِٹ کی سماعت کرتا ہے۔ عام طور پر پولیس کی جانب سے بے جا گرفتاری کے خلاف یہ رٹ درخواست دائر کی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے کسی فرد کی نظر بندی کے خلاف بھی یہ درخواست دائر کی جاتی ہے۔ اگر پولیس کسی شخص کو گرفتار کرے اور اسے عدالت میں پیش کرے تو یہ قانونی کارروائی کی جاتی ہے ۔ نوٹس کے حصول کے فوری بعد محروس شخص کو رہا کردیا جاتا ہے اور اگر واقعی کوئی جرم محروس شخص نے کیا ہے تو اس کی تفصیل ہائیکورٹ کے روبرو پیش کی جاتی ہے۔ اس طرز کی رِٹ درخواست کے ادخال کے بعد فی الفور محروس شخص کی رہائی ہوجاتی ہے اور اگر وہ کسی جرم میں ملوث نہ ہو۔
(2) (MANDAMUS) کے بارے میں ذیل میں تفصیل سے بحث کی جائے گی۔
(3) (CERTIORARI) میں کسی بھی ٹریبونل ‘ کلکٹر‘ جوائنٹ کلکٹر کے فیصلہ پر نظر ثانی کی جاتی ہے اور اگر واقعی فیصلہ میں کوئی خامی ہو تو اسے کالعدم قراردیاجاسکتا ہے اور رِٹ جاری کی جاسکتی ہے۔
(4) QUO WARRANTO رٹ اس صورت میں جاری کی جاتی ہے جب کسی عہدیدار نے ایسا حکم صادر کیا ہو جسے صادر کرنے کا مجاز نہ ہو۔ لہٰذا ایسے حکم کو بذریعہ رِٹ کالعدم قراردیاجاسکتا ہے۔
(5) آخری رِٹ میں کسی بھی سرکاری عہدیدار کو کوئی حکم جاری کرنے سے باز رکھا جاسکتا ہے۔
اب (MANDAMUS) پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے گی۔
Mandamus کن حالات میں جاری کی جاتی ہے
سپریم کورٹ اور سارے ملک کے ہائیکورٹس میں تقریباً80 فیصد صرف اسی طرز کی رِٹ درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔ اس طرز کی رِٹ میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججس عاملہ کے ہر عمل پر نگرانی کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عہدیداروں نے اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں قوانین و ضوابط کا خیال رکھا ہے یا ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر کوئی حکم ایسا جاری کیا گیا ہے یا جاری کیا جانے والا ہے اس طرز کا ہے جس میں متعلقہ قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو حکم التواء جاری کیا جائے گا اور عمومی طور پر ایسا حکمِ التواء اولین مرحلۂ سماعت پر جاری کیا جائے گا اگر درخواست اور منسلکہ دستاویزات اس بات کو ثابت کررہے ہیں کہ اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی ہے ‘ جواب طلبی کی جائے گی اور جوابی حلف نامہ کے مطالعہ کے بعد فیصلہ کردیا جائے گا کہ آیا حکمِ عاملہ صحیح تھا یا غلط۔
ہر محکمہ ایک قانون کے تابع ہوتا ہے اور قانون کے تحت رولز تدوین کئے جاتے ہیں اور محکمہ کے عہدیدار مجاز کو کسی بھی کارروائی کو قانون و اصول و ضوابط کے مطابق ہی کرنا پڑتا ہے لیکن یہ بات اکثر دیکھی گئی ہے عہدیدارنِ مجاز اپنے عمل میں اپنی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں اور وہ سب کر بیٹھتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جہاں عاملہ کے کسی بھی غیر قانونی عمل پر روک لگائی جاتی ہے وہیں انہیں قوانین و ضوابط کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک کام جو عاملہ کو کرنا چاہیے تھا وہ اس نے نہیں کیا تو رِٹ درخواست کی سماعت کے بعد عاملہ یا عہدیدار کو بذریعہ رٹ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ قانون و ضوابط کے مطابق وہ کام کرے جو اسے کرنا چاہیے۔
تمثیلیں
-1 ایک شہر یا قصبہ میں اسٹریٹ لائٹ کی فراہمی میونسپلٹی کا فرض ہے جس کے لئے اسے فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں۔ لیکن فنڈز مہیا کئے جانے کے باوجود بھی ایک سڑک یا محلہ رات کے وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا رہتا ہے۔ یہاں عہدیدارِ مجاز کا اپنے فرائض سے تغافل ثابت ہورہا ہے کیوں کہ رات کے وقت روشنی کی فراہمی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ رِٹ درخواست کے ادخال کے بعد عہدیدار مجاز کو حکم صادر کیا جائے گا کہ فی الفور سڑک یا محلہ میں رات کے وقت روشنی کی سربراہی کا انتظام کرے۔ روشنی کی فراہمی عہدیدارِ مجاز کا فرض تھا جسے فراموش کردیا گیاتھا۔ یہی بات پینے کے پانی کی سربراہی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔
-2 ایک شخص کے نام جب جائیداد بذریعہ رجسٹری منتقل ہوئی ہو تو میونسپل یا ریوینیو ریکارڈ میں نام کی تبدیلی ایک قانونی عمل ہے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ درخواست پیش کرنے کے بعد بھی عرصۂ دراز تک ریوینیو یا میونسپل ریکارڈ میں تبدیلی نہیں لائی جاتی گویا عہدیدارنِ مجاز اپنے فرائض ِمنصبی سے غفلت برت رہے ہیں۔ لہٰذا رِٹ درخواست کے دائر ہونے کے بعد عہدیدارانِ مجاز کو ‘رِٹ کے ذریعہ حکم دیا جائے گا کہ وہ اندرونِ متعینہ مدت اس کام کی تکمیل کرے۔
-3 سیول معاملت میں پولیس مداخلت : یہ بات دیکھی گئی ہے اور اکثر ایسی شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ سیول معاملات مثلاً جائیدادوں کی خریدی اور منتقلی ‘ کرایہ داروں کی بے دخلی‘ رقمی معاملات کی یکسوئی‘ فیملی معاملات میں پولیس کی مداخلت وغیرہ۔ قانون یہ ہے کہ سیول نوعیت کے معاملات میں صرف سیول عدالت ہی وہ فورم ہے جہاں ایسے معاملات کی یکسوئی ہوتی ہے۔ مقدمات چلتے ہیں اور آخر میں فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ رقمی لین دین میں بھی سیول عدالت ہی کا دائرہ کار ہوتا ہے بشرطیکہ دھوکہ دہی نہیں ہوئی ہو۔
اگر ایسی شکایت ہو کہ پولیس کرایہ دار کو م کان کے تخلیہ کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے ‘ ڈرا اور دھمکارہی ہے ‘ رقمی معاملات میں ایک فریق پر تصفیہ کرنے پر جبر کررہی ہے ‘ جائیداد کو فروخت کرنے پر اصرار کررہی ہے تو ایسی صورت میں ایک رٹ درخواست پولیس کو راہِ راست پر لادے گی اور پولیس جوابدہی میں انکار کرے گی ‘ درخواست گزار پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ گویا ایک رِٹ درخواست کی وجہ سے درخواست گزار کو یہ راحت بہم پہنچ سکتی ہے۔
ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں کی دھاندلیاں
عمارتوں کی تعمیر کا عمل بھی قانون و بلڈنگس ریگولیشن کا پابند ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بغیر کسی تعمیری اجازت کے چھوٹے سے رقبہ پر پانچ منزلہ عمارت تعمیر کی جاتی ہے اور پڑوس کے گھر کی جانب پانچوں منزلوں کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں جو بلڈنگ ضوابط کی خلاف ورزی میں ہے ۔ ٹاؤن پلاننگ عہدیدار کے روبرو جب شکایت پیش کی جاتی ہے تو چونکہ وہ خود اس غیر قانونی عمل میں برابر کا شریک ہے‘ درخواست گزار کو سمجھاتا ہے کہ پڑوسی سے صلح کرلو۔ دوسری جانب اگر درخواست گزار ہائیکورٹ سے بذریعہ رِٹ رجوع ہو تو سارا ریکارڈ طلب کیا جائے گا اور متعلقہ ٹاؤن پلاننگ سے پوچھا جائے گا کہ اس کے دائرہ کار میں بغیر اجازت پانچ منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت کیوں دی گئی۔ اس عہدیدار کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا حکم صادر ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی یہ حکم صادر ہوسکتا ہے کہ غیر مجاز تعمیر کرنے والے کو نوٹس جاری کرکے ضروری کارروائی کی جائے۔ ایسی صورت میں غیر مجاز تعمیر کرنے والے صاحب بڑی مصیبت میں گرفتار ہوسکتے ہیں۔
سڑکوں کی توسیع۔ زبردستی رضامندی کا حصول
سڑکوں کی توسیع میں اراضی کا حصول ایک قانون کے تحت ہے جسے قانونِ حصولِ اراضی 2013ء کہتے ہیں۔ اگر سڑک کی توسیع کے عمل میں مالکِ جائیداد کو اپنی رضامندی دینے اور جو بھی معاوضہ طئے کیا گیا ہے اسے حاصل کرکے جائیداد میونسپل کارپوریشن کے حوالے کرنے کو کہا جارہا ہے تو متاثرہ فرد اسی نوٹس کی اساس پر ہائیکورٹ سے رجوع ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہائیکورٹ احکامات جاری کرتا ہ کہ مالکِ جائیداد کی رضامندی کے بغیر جائیداد حاصل نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا قانونِ حصول اراضی پر عمل درآمد کی ہدایت جاری ہوسکتی ہے اور انہدامی کارروائیوں کے خلاف حکمِ ا لتواء جاری ہوسکتا ہے۔
امورِ ملازمت میں ہائیکورٹ کی بذریعہ مداخلت
امورِ ملازمت میں ہائیکورٹ ہر اس ملازمِ سرکار کے حق میں حکم صادر کرتا ہے جن سے کسی بھی مسئلہ ‘ پروموشن ‘ سینیاریٹی ‘ معطلی ‘ ملازمت سے برخواستگی میں ناانصافی ہوئی ہو۔ ساری ریاست کے ریاستی سرکار کے ملازمین اور کارپوریشن کے ملازمین اپنے خلاف کی گئی ناانصافیوں کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع ہوسکتے ہیں۔
ریوینیو معاملات میں دھاندلیاں
ریوینیو معاملات میں اکثر دھاندلیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ ایک شخص کا پٹہ دوسرے شخص کے نام منتقل کردیا جاتا ہے۔ دھرانی پورٹل کے نام پر پٹہ اراضیات کو سرکاری اراضیات کے زمرہ میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ آج کل جب کہ دیہی علاقوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیوں میں ہے اگر کسی شخص کی پانچ ایکر اراضی کا پٹہ کسی دوسرے شخص کے نام پر کردیا جائے تو ریوینیو عہدیداروں کو کروڑوں روپیوں کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ ایسا اکثر ہورہا ہے۔ ایسی دھاندلیوں کی صورت میں بالراست ہائیکورٹ سے بذریعہ رٹ درخواست رجوع ہوکر اپنے حقوق کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔
ریوینیو عہدیدار اتنے غیر ذمہ دار اور بددیانت ہوتے ہیں کہ تقریباً پندرہ سال قبل ضلع نظام آباد کے تعلقہ آرمور کی ایک یتیم لڑکی کی 17 ایکر اراضی کو گورنمنٹ اراضی قراردے کر وہاں مارکٹنگ یارڈ کی تعمیر شروع ہوئی اور مارکٹنگ منسٹر کے ہاتھوں اس یارڈ کا افتتاح بھی ہونے والا تھا ۔ صرف تین دن باقی رہ گئے تھے ‘ لڑکی کے پاس پٹہ پاس بک تھی اور کچھ سال پہلے کی پہانی میں اس کا نام چلاآرہا تھا۔ اچانک اس یتیم لڑکی کی اراضی گورنمنٹ اراضی کیسے قراردی گئی ۔
لڑکی کے سرپرستوں نے راقم الحروف کے ذریعہ ایک رِٹ درخواست پیش کی ۔ وقفۂ لنچ کے درمیان رِٹ درخواست سماعت کے لئے پیش ہوئی۔ جسٹس ایل ۔ نرسمہا ریڈی وقفہ لنچ کے دوران درخواست پڑھ چکے تھے۔ عدالت میں بیٹھتے ہی جوں ہی نام پکارا گیا معزز جج غضبناک ہوگئے اور گورنمنٹ ایڈوکیٹ پر برس پڑے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کیسی دھاندلیاں آپ کا ڈپارٹمنٹ کررہا ہے۔ جج صاحب نے دو گھنٹوں کے اندر (Instructions) کیلئے کہا۔ دو گھنٹے بعد دریافت کیا کہ کیا اس لڑکی کی اراضی کو ایک عوامی مقصد کے کام کے لئے Acquire کیا گیا ہے اور کیا اسے معاوضہ دیا گیا ہے۔ گورنمنٹ ایڈوکیٹ کا جواب نفی میں تھا۔ اسی وقت آرڈر دیا گیا ۔ کلکٹر صاحب نظام آباد سارا اسٹرکچر 48 گھنٹوں کے اندر نکال دیں ورنہ اس درخواست گزار لڑکی کو اختیار ہوگا کہ سارے اسٹرکچر کو نکال پھینکے اور اس ضمن میں ہوئے اخراجات لوہے کے اسکراپ کو فروخت کرکے حاصل کرے۔ علاوہ ازیں اخراجاتِ مقدمہ بھی ادا کرنے کا حکم صادر ہوا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ رٹ درخواست میں فریق کا پیش ہونا اور بیان دینا ضروری نہیں۔ صرف حلف نامہ کی بنیاد پر درخواست گزار کے ایڈوکیٹ بحث کریں گے ۔ حرفِ عام میں کٹھہرے میں کھڑا ہونا نہیں پڑے گا۔ صرف اسی ڈر کے مارے لوگ ہائیکورٹ سے رجوع نہیں ہوتے۔ ایسی کوئی بات نہیں آپ کو صرف حلف نامہ پر دستخط کرنا ہوگا اور آپ کا کیس حق بجانب ہونا چاہیے ۔ آپ کو یقینی طور پر راحت بہم پہنچائی جائے گی بشرطیکہ آپ کو ملک کے نظم عدل پر یقین ہو۔