ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
آج کا انسان ، مشینوں کو تو انسان والا احساس دے رہا ہے لیکن خوداحساسات اور جذبات کی دولت مسلسل کھوتا جارہا ہے ... کوئی اسمارٹ ہو یا نہ ہو،اس کے پاس اسمارٹ فون ضرور ہوتا ہے،موبائل ساتھ ہو تو ساتھ رہنے والے کا خیال ہوتا ہے اورنہ خود کا ...گوگل پرکوئی نہ کوئی گل کھلانا،گلگلے تلنے سے بھی آسان کام ہوگیاہے ...لیکن مشینوں پرحد سے زیادہ انحصار نے انسان کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر ایک مشین بنا کر رکھ دیا ہے ، چنانچہ سینے میں دل کی جگہ کوئی مشین پھڑپھڑاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ،حتیٰ کہ ہم اپنوں سے تو کجا خودسے تک مخلص نہیں رہے۔ انسان خود سے اس قدر بیگانہ ہوچکا ہے کہ اس نے اپنی موت بھی مشینوں کے ذریعے چن لی ہے ... سوئٹزر لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک ایسا تابوت نما کیپسول ایجاد کیا ہے ،جو اپنے اندر موجود شخص کو اپنی جان لینے میں مدد کرتا ہے...

حمید عادل
چمن بیگ ،اپنی چمن ٹائپ باتوں کی وجہ سے دور دور تک شہرت رکھتے ہیں لیکن ان کی بعض باتوں میں بڑی گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے ۔وہ اکثر کہتے ہیں ’’انسان تودن بہ دن مشین بنتا جارہا ہے لیکن مشینوں میں انسانیت جگارہا ہے ۔‘‘
آج بلاشبہ آدمی روبوٹ اور روبوٹ آدمی بنتا جارہا ہے ، ٹکنالوجی نے خوب ترقی کرلی ہے،جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے… گذشتہ دنوں ہمارے ساتھ دو عدد واقعات کچھ ایسے پیش آئے کہ چمن بیگ کا کہا سو فیصدی سچ معلوم ہوا۔
زور دار برسات ہورہی تھی،ہم نے خود کوتو برساتی سے ڈھانک لیا لیکن سل فون استعمال کرتے ہوئے لاپرواہی برتی…گھر پہنچ کرسل فون دیکھا تو ایک نوٹیفکیشن نظر آیا ،لکھا تھا:
’’وارننگ چارجنگ/یو ایس بی پورٹ استعمال نہ کریں
ہمیں آپ کے سل فون کے چارجنگ/USB پورٹ میں نمی یا دھول گرد کا پتا چلا ہے،فوری چارجنگ /یو ایس بی پورٹ کو چیک کریں۔ اپنے فون کو پہنچنے والے نقصان سے بچنے کے لیے، جب تک چارجنگ پورٹ صاف نہ ہو، نمی ختم نہ ہو جائے اور نوٹیفکیشن غائب نہ ہو جائے، اس وقت تک چارجر نہ لگائیں…یو ایس بی پورٹ کو خشک کرنے کے لیے،فون کو ہلائیں، یاپھر اس کے خشک ہونے کا انتظار کریں۔ جس میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ آپ پنکھے یا ڈرائر (صرف ٹھنڈی ہوا) کے ذریعے یوایس بی پورٹ کو جلداز جلد خشک کرسکتے ہیں…‘‘
ہمیںسل فون کی انتہا درجہ کی حساسیت کو دیکھ کر بڑا تعجب ہوا…ایسے دور میں جب کہ بھائی ، بھائی کا نہیں، دوست دوست کا اعتبار نہیں کرتا،سل فون پر مذکورہ نوٹیفکیشن کا نمودار ہونا ہمارے لیے حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ مسرت آمیز بھی تھا…انسان نے ایک بے جان مشین کے اندر اس قدر احساس بھر دیا ہے کہ وہ استعمال کنندہ کا کوئی نقصان نہیں چاہتی ہے، وہ نہیں چاہتی ہے کہ اسے استعمال کرنے والے کو کسی آزمائش سے گزرنا پڑے، اس کی جیب سے رقم خرچ ہو یا کسی بگاڑ کی بدولت وہ اپنے سل فون کے استعمال سے کچھ دیر کے لیے محروم ہوجائے … سل فون کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ وہ استعمال کنندہ کو مفت کے مشورے سے نواز رہا ہے کہ وہ یوایس بی پورٹ کو پنکھے یا پھر ڈرائیر (وہ بھی ٹھنڈی ہوا) کے ذریعے خشک کرسکتا ہے اور یہ کہ استعمال کنندہ اس وقت تک یو ایس بی پورٹ استعمال نہ کرے جب تک کہ نوٹیفکیشن از خود غائب نہ ہوجائے …
ہم حسب ہدایت کسی مطیع و فرماں بردار طالب علم کی طرح سل فون کو الٹا کرکے فل اسپیڈ سیلنگ فیان کے نیچے کھڑے ہوگئے، لیکن ڈھیر ساری ہوا کھا کر بھی نوٹیفکیشن سل فون کے اسکرین سے غائب نہ ہوا… سل فون کی بیاٹری آخری سانسیں لے رہی تھی، فوری چارج کرنا ضروری تھا لیکن ہم چارج کرسکتے تھے اور نہ ہی اپنی نگاہوں کے آگے سل فون کو دم توڑتا دیکھ سکتے تھے… سل فون کے اس قدر عادی کہ ہم اس کے بغیر ایک منٹ بھی سکون سے نہیں رہ سکتے، بھلے ہی وہ سکون اضطراب آمیز کیوں نہ ہو …کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے جیسے ’’ جیو‘‘ کا نعرہ لگا کر آدمی کو مار دیا گیا ہے ، خود سے دوری اور اپنوں سے بے دلی، یہ بھی حضرت انسان کی موت ہی تو ہوئی …
ہم چونکہ سل فون کی آنکھیں بند ہونے سے پہلے یو ایس بی پورٹ خشک کرنا چاہتے تھے … سو ہم نے یوایس بی پورٹ میں زور زور سے پھونکناشروع کردیا اور اس وقت تک پھونکتے رہے جب تک کہ غیب سے یہ آواز نہ آئی کہ ’’ اب کی پھونک تیری زندگی کی آخری پھونک ہوگی …کیا بتائیں ہم بری طرح سے ہانپ اور کانپ رہے تھے ،لرزتے وجود کے ساتھ ہم نے سل فون کے اسکرین پر نظر دوڑائی تو وہاں موجود نوٹیفکیشن ہم پر ہنستا بلکہ فلک شگاف قہقہہ لگاتا ہوا محسوس ہوا… جسے دیکھ کرہم ایسے سٹپٹا ئے جیسے گھر کے مالک کو دیکھ کر چورسٹپٹاجاتا ہے …ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، دریں اثنا ایک خیال بجلی کی طرح ہماری کھوپڑی میں کوندا ،اس خیال کے آتے ہی ہمارا چہرہ کھل اٹھا اور دوسرے ہی لمحے وہ ہیر ڈرائیر ہمارے ہاتھ میں تھا، جسے پھول بانو ( ہماری اکلوتی شریک حیات) نے عیدالاضحی کے موقع پر برسات کی پرواہ کیے بغیر کباب بنوائے تھے اور پھر انہیںسکھانے کے لیے ڈرائیر خریدا تھا۔ہم نے یو ایس بی پورٹ کو ہیر ڈرائیر کی ٹھنڈی ہوائی لہریں کھلانی شروع کردیں، ان لہروں کے خوشگوار نتائج برآمد ہوئے، ہمارا ملک ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ بنے نہ بنے ہمارا سل فون ’’ نوٹیفکیشن مکت ‘‘ ضرورہوگیا…
چند دنوں بعدپھر ایک بار برسات ہوئی، احتیاط کے باوجود ہمارے سل فون پر یو ایس بی پورٹ استعمال نہ کرنے والا نوٹیفکیشن دوبارہ وارد ہوگیا …اس بار ہم بری طرح سے تڑخ گئے اورنوٹیفکیشن کو مخاطب کرتے ہوئے زیر لب بڑبڑااٹھے ’’ مذاق بنا رکھا ہے کیا؟جب دیکھو بن بلائے مہمان کی طرح سل فون اسکرین پر نمودار ہوجاتے ہو…ہم تمہاری دھمکیوں سے ہرگز ڈرنے والے نہیں ہیں ،ہم فون کو چارج کرکے رہیں گے چاہے جو ہوجائے … ہم نے جیسے ہی یو ایس بی پورٹ سے چارجر کنکٹ کیا ، سل فون سے ایسی خوفناک موسیقی برآمد ہونے لگی کہ جسے سن کر ہاتھ پیر پر ہی کیا منحصر ہے ہماری سانسیں تک پھول گئیں … ہم نے گھبرا کر فوری فون سے چارجر’’ ڈس کنکٹ ‘‘کردیا ،چارجر کے نکالتے ہی ، سماعت پر ہتھوڑے برسانے والی ڈرم نما آواز غائب ہوگئی اور ساتھ ہی وہ انتباہ بھی کہ آپ نے چارجر لگاکر بہت بڑی غلطی کی ہے ، اگر اپنے فون کی بقا چاہتے ہو توسل فون سے فوری چارجر نکال دو۔‘‘
ہم پھر ایک بار جدیدٹکنالوجی کے دل سے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے …جو انتباہ کو خاطر میں نہ لانے والے کو دل دہلا دینے والی موسیقی کے ذریعے اس قدر مجبور کردیتی ہے کہ وہ چارجر فوری ڈس کنکٹ کردے۔
حال ہی میں ہم نے بلو ٹوتھ اسپیکر خریدا ،جو محض ہواکی لہروں کے ذریعے سل فون، لیب ٹاپ یا پھر کمپیوٹر سے کنکٹ ہو جاتا ہے …جیسے ہی بلو ٹوتھ اسپیکر کسی بھی ڈیوائس سے جڑ تا ہے ، نسوانی آواز یہ نوید سناتی ہے کہ اسپیکر کنکٹ ہوچکا ہے …اور جب ہم بلو ٹوتھ اسپیکر سے رشتہ توڑتے ہیں تو وہی نسوانی آواز مطلع کرتی ہے کہ اسپیکر ڈِس کنکٹ ہوچکا ہے …اتنا ہی نہیں چند منٹوں کے انتظار کے بعد جب اسپیکر کے اندر موجود بے جان میکانزم یہ محسوس کرتا ہے کہ اب مجھے مزیداستعمال نہیں کیا جائے گا،یا یہ کہ میری ناقدری ہورہی ہے تووہی نسوانی آواز استعمال کنندہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتی ہے ’’ شکریہ اسپیکر استعمال کرنے کے لیے…‘‘اور اسپیکربجھ جاتاہے یعنی اُسے آف کرنے کی آپ کوزحمت ہی نہیں کرنی پڑتی ہے۔
حضرت انسان نے بلو ٹوتھ اسپیکر میں یہ احساس بھر دیا ہے کہ جہاں عزت نہ ہو، وہاں نہیں رہنا چاہیے …جب کہ خود انسان،بطور خاص ڈھیٹ سیاست داں آخری دم تک کرسی سے چپکے رہتے ہیں،چاہے ان کی کتنی ہی بے عزتی کیوں نہ ہوجائے … بلوٹوتھ اسپیکرکا شکریہ ادا کرنا بھی بڑے معنی رکھتے ہے، گویاوہ شکریہ ادا کرکے ہمیں یہ احساس دلا نے کی کوشش کررہا ہے کہ تم انسان! آخر شکر یا شکریہ ادا کرنے میں اتنے بخیل کیوں ہوتے جارہے ہو؟
انسانی بے حسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے معروف صحافی راویش کمار نے ٹوئن ٹاورس کے منہدم کیے جانے کے پس منظر میںکیا خوب کہا ہے :
’’بھرشٹاچار کا ٹاور‘‘ کا نام دے کرنویڈا میںجس ٹاورکو گرانے پر جشن منایا گیا ،اب ملبے کا ٹاور بن کر لوگوں کے پھیپھڑوںمیں گھس چکا ہوگا اور گھستا ہی رہے گا ۔ بھرشٹاچار کی سزا کے اور بھی طریقے ہوسکتے تھے ،مگر اس عمارت کے گرنے پر تالی بجانے والوں نے ثابت کردیا کہ جو لوگ نوٹ بندی کے وقت تالی بجا رہے تھے وہی تھے جو کورونا کے وقت پر بالکونی میں آکر تھالی بجا رہے تھے اورآج وہی لوگ ہیں جو بھرشٹاچار کے مٹ جانے کے احساس کے ساتھ تالی بجارہے ہیں ۔ نوٹ بندی کے وقت کو یاد رکھیے گا، لوگوں نے یقین کرلیا بھرشٹاچار دور ہونے والا ہے ،اسی لیے لائنوں میں لگے رہے، اسی طرح ٹوئن ٹاور کے منہدم ہونے پر جشن منارہے ہیں کہ بھرشٹاچار کا ٹاورڈھا دیاگیا…‘‘
جہاںراویش کمار نے عام آدمی کی بے حسی کو بڑی مہارت سے پیش کیا وہیں حکمرانوں کی بے رحمی کو بھی اجاگر کیا جنہوں نے سرد موسم میں کو غریبوں کے لیے راحت کدہ بنانے یا شہیدفوجیوں کے خاندانوں کو چھت مہیا کرنے یا پھرمعذورین کے لیے آسرا دینے یا پھراسکول یا اسپتال بنانے کی بجائے 18کروڑ روپئے خرچ کرتے ہوئے ٹوئن ٹاور کو ڈھا دیا اور اب ملبہ اٹھانے کے لیے مزید 20کروڑ خرچ کیے جائیں گے جب کہ فضائی آلودگی عوام میںمفت میں تقسیم کرڈالی… ٹوئن ٹاورس کو منہدم کروانے کا فیصلہ ایک انسان کا نہیں مشین کا فیصلہ معلوم ہوتا ہے …
آج کا انسان ، مشینوں کو تو انسان والا احساس دے رہا ہے لیکن خوداحساسات اور جذبات کی دولت مسلسل کھوتا جارہا ہے … کوئی اسمارٹ ہو یا نہ ہو،اس کے پاس اسمارٹ فون ضرور ہوتا ہے،موبائل ساتھ ہو تو ساتھ رہنے والے کا خیال ہوتا ہے اورنہ خود کا …گوگل پرکوئی نہ کوئی گل کھلانا،گلگلے تلنے سے بھی آسان کام ہوگیاہے …لیکن مشینوں پرحد سے زیادہ انحصار نے انسان کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر ایک مشین بنا کر رکھ دیا ہے ، چنانچہ سینے میں دل کی جگہ کوئی مشین پھڑپھڑاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ،حتیٰ کہ ہم اپنوں سے تو کجا خودسے تک مخلص نہیں رہے۔ انسان خود سے اس قدر بیگانہ ہوچکا ہے کہ اس نے اپنی موت بھی مشینوں کے ذریعے چن لی ہے … سوئٹزر لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک ایسا تابوت نما کیپسول ایجاد کیا ہے ،جو اپنے اندر موجود شخص کو اپنی جان لینے میں مدد کرتا ہے…
کلیم کلبلا کہتے ہیں کہ آدمی کو اس طرح مرنے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ تو بہت پہلے مرچکا ہے …
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی
ندافاضلی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰