اللہ و رسولؐ کی آواز پر لبیک کہے بغیر زندگی‘زندگی نہیں
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاوگے۔

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ Cell:9849099228
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَيْہِ تُحْشَــرُوْنَ (سورۃ انفال۔ آیت ۲۴)
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاوگے۔
مذکورہ آیت کریمہ میں حق سبحانہ تعالیٰ نے دو اہم باتیں بیان فرمائے۔
۱۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار میں انسانوں کی زندگی ہے۔
۲۔ انسانوں کی آخری منزل (روز محشر) کی یاد دہانی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار انسانوں کیلئے حقیقی زندگی
جب انسان الٰہی و نبوی تعلیم سے غفلت برتیں تو ان کا یہ عمل حقیقی زندگی کی راہ سے ہٹا کر ایک ایسی منزل تک پہنچادیتا ہے جہاں پر انسان زندہ تو رہ سکتے ہیں مگر حقیقی زندگی کا لطف انہیں نصیب نہیں ہوتا اللہ تبارک تعالیٰ کا انسانوں پر اتنا بڑا فضل و کرم ہوا کہ اس نے صرف ان کو پیدا نہیں کیا بلکہ سامان زندگی کے ساتھ ساتھ سامان بندگی فراہم کرنے کیلئے انبیاء و مرسلین کو مختلف ادوار میں روانہ کرتے رہا اور بعض انبیاء علیہ السلام پر اپنا کلام بھی نازل کیا اور یہ بات انتہائی خوشی و شادمانی کی ہے کہ ہمیں ایک ایسی امت بنایا جو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کہلاتی ہے اور اس امت کے نبیؐ اور رسول کی خصوصیت یہ ہے کہ اب رہتی دنیا تک کیلئے آخری پیغمبر اور آپؐ پر جو کلام اتارا گیا ہے یہ خدا کی طرف سے آخری پیغام ہے، جو کہ نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلمکے قلب ِاطہر پر نازل کیا گیا تا کہ سارے انسان بندگی رب کو احتیار کرتے ہوئے خوشحال و بامراد، حقیقی و دائمی زندگی حاصل کرسکیں۔
اس طرح اللہ تبارک تعالیٰ، اپنے نبی صلی اللہ علہ وسلم پر اپنے کلام کو نازل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو! ( دیکھو) اللہ اور ا س کے رسول کی پکار پر لبیک کہو۔
اللہ تبارک تعالیٰ کی پکار
اللہ تبارک تعالیٰ کی پکار قرآن مجید، فرقان حمید ہے، اس کے عین مطابق اپنا عقیدہ و عمل بنالینا ہی دراصل اللہ کی پکار پر لبیک کہنا ہے اس کتاب (قرآن حکیم ) میں انسانوں کے امراض قلبی یعنی شرک و کفر، نفاق و ریافسق و فجور جیسے مہلک بیماریوں کا موثر علاج اور پر ہیز واضح طور پر بتادیا گیا ہے اور جو اقوام اس سے بے اعتنائی برتیں ان کے انجام بد کو بھی صاف صاف بیان کردیا گیا ہے کہ دیکھو فلاں فلاں قوم نے اللہ تعالیٰ کے احکام پر لبیک نہیں کہا یعنی حدود کی پامالی کی گئی تو ان کو میرے عذاب نے آگھیرا۔ اس طرح اب اہل ایمان کو تاکید کی جارہی ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہو کہ اسی میںتمہاری حسن حیات کی باتیں کامل طور پر موجود ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو
ایمان کامل کا یہ عین تقاضا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر آدمی لبیک کہے جس کے بغیر انسانوں کی فلاح و کامیابی ناممکن ہے اسی لئے حکم خدا وندی ہورہا ہے کہ میرے رسول کی پکار پر لبیک کہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کا حکم ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو پکار ہے اللہ ہی کی پکار ہے۔ الغرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار، آپ کی دعوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی۔ یہ سب کے سب اللہ ہی کی طرف سے ہیں ا س طرح آپ کی پکار پر لبیک کہنا اللہ کی پکا رپر لبیک کہنا ہے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمانی) ’’میرے رسول جو کچھ دیں لے لو اور جس چیز سے منع فرمادیں رک جاؤ‘‘۔
رسولؐ کی پکار زندگی بخشنے والی دعوت
جس طرح بارش پڑنے سے مردہ زمین میں جان پڑتی ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہنے (یعنی آپ ؐ کے ہر حکم کی تعمیل کرنے سے حیات جاوید نصیب ہوتی ہے۔ چاہے معاملہ دنیوی زندگی کا ہو یا پھر اُخروی زندگی ( بعد الموت) کا ہو غرض کہ آپؐ کی پکار پر لبیک کہنے سے دنیا میں عزت کا حصول ہے تو آخرت میں بھی اللہ تبارک تعالیٰ کی مہمانی تیار ہے۔
مجموعہ تفاسیر
مفتی اعظم پاکستان، اس سلسلہ میں علماء تفسیر سے یوں نقل فرمائے ہیں۔
(۱)’’وہ حیات جس کا ذکر اس آیت میں ہے کیا ہے اس میں کئی احتمال ہیں اس لئے علماء تفسیر نے مختلف قول اختیار کئے ہیں۔
سدی نے کہا کہ وہ حیات بخش چیز ایمان ہے کیونکہ کافر مردہ ہے۔
قتادہ نے فرمایا کہ وہ قرآن ہے جس میں دنیا و آخرت کی زندگی اور فلاح مضمر ہے۔ مجاہد نے فرمایا وہ حق ہے۔
ابن اسحق نے فرمایا کہ مراد اس سے جہاد ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت بخشی اور یہ سب احتمالات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں اور مراد یہ ہے کہ ایمان یا قرآن یا اتباع حق وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کا دل زندہ ہوتا ہے اور دل کی زندگی یہ ہے کہ بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو غفلت و شہوت وغیرہ کے حجابات حائل ہیں وہ راہ سے ہٹ جائیں اور حجابات کی ظلمت دور ہوکر نور معرفت دل میں جگہ کرے۔ (معارف القرآن)
(۲) مفسر قرآن صدر الافاضل مراد آبادی ؒ نے مذکورہ بالااقوال کے علاوہ یہ بھی تحریر فرمایا:
’’بعض مفسرین نے فرمایا کہ وہ شہادت ہے اس لئے کہ شہید اپنے رب کے نزدیک زندہ ہے۔ (برحاشیہ ’’کنزالایمان‘‘)
(۳) مولانا امین اصلاحی اس آیت کی تشریف یوں فرماتے ہیں کہ۔
’’اللہ و رسول کی دعوت حقیقی زندگی کی دعوت ہوتی ہے اسی کو قبول کرنے سے بصارت کو بصیرت نصیب ہوتی ہے۔ اسی سے عقل کو وہ نور حاصل ہوتا ہے جو آفاق و انفس کے اسرار و حقائق سے اس کا پردہ اٹھاتا ہے اس سے دل کو وہ زندگی نصیب ہوتی ہے جو اس کو …تجلیات و انوار الٰہی کا ایک آئینہ بنادیتی ہے۔ فرمایا کہ اللہ و رسولؐ کی اس دعوت پر لبیک کہو اس لئے کہ اس سے تم کو حقیقی اور جاوداں زندگی حاصل ہوگی۔
سیدنا مسیح نے اس حقیقت کو یوں واضح فرمایا کہ انسان روٹی سے نہیں جیتا بلکہ ا س کلمہ سے جیتا ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے۔ (تدبر قرآن )
نفاق اخلاص کی ضد ہے
اللہ کے رسولؐ کی دعوت پر لبیک کہنے کی تعلیم فرمانے کے بعد ایک اور حقیقت کی طرف ایمان لانے والوں کو متوجہ کیا جارہا ہے یعنی انسانوں کی عارضی زندگی کے بعد جو منزل آنے والی ہے اس کی نشاندہی کی جارہی ہے کہ جو بھی ایمان لاکر عمل صالح اختیار کریں یعنی اللہ رسول کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس کے عملی تقاضوں کو پورا کریں تو روز محشر اس کا پورا پورا بہترین بدلہ جنت و درجات جنت کی شکل میں عطا کیا جائے گا۔ اگر کسی شخص کے ایمان میں نفاق پایا جائے اور جو لوگ دعوی ایمان کے باوجود اللہ رسول کی پکار (دعوت) پر لبیک کہنے سے کتراتے رہے ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ سوچ لیں کہ ان کا کیسا برا انجام ہوے والا ہے۔ لہٰذا منافقت چھوڑ دیں اور سچے ایماندار بن جائیں۔ کیونکہ نفاق اخلاص کی ضد ہے۔
مولانا سید مودودیؒ نے اس سلسلہ میں یوں تفہیم فرمائی، وہ لکھتے ہیںکہ نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کیلئے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ دو عقیدے انسان کے ذہن نشین ہوجائیں۔
ایک یہ کہ معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا راز داں ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں جو خواہشیں جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں۔
دوسرے یہ کہ جانا بہر حال خدا کے سامنے ہے۔اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے۔ یہ دو عقیدے جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا اسی لئے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن ان دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن )
حاصل کلام
اللہ رسو ل کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے انسان کو عملاً میدان میں آنا پڑتا ہے اور شیطان یہ نہیں چاہتا کہ انسان اللہ کی بندگی اور غلامی اختیار کریں اس طرح انسانوں کو عمل صالحہ کے متعلق ان کے دلوں میں ناگواری پیدا کرتا ہے لیکن جو مخلص بندے ہوتے ہیں اس کی چکر میں نہیں آتے بلکہ اللہ رسول کی خیر و سلامتی والی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اعمال میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں یعنی نفس کی ناگواری اور محنت و مشقت ان راہوں میں حائل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جہنم کو مرغوبات نفس سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور بہشت کو ناگوار امور سے ‘‘ (بروایت ابوہریرہؓ بخاری، مسلم، ترمذی، ترجمان الحدیث)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت وہی آدمی جانتا ہے جو اس کائنات کے بنانے والے خدا کی کاریگری اور اس کے کارخانہ قدرت کو دل و دماغ پر زور دیتے ہوئے سر کی آنکھوں سے دیکھتا ہو، اور جب خود اپنی طرف نظر ڈالتا ہو تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا اور ان کی رہنمائی و رہبری کے لئے انبیاء و رسل بھیجے اور اس کی یہ آخری کڑی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو قرار دیا۔ اب قیامت تک کے لئے آپؐ اور آپ پر اتاری گئی کتاب قرآن حکیم ہی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ لہٰذا رجوع الیٰ القرآن ہی اب آخری راستہ ہے۔
٭٭٭