ایک عیسائی مبلغہ کے قبول اسلام کی کہانی
میں اس بات پر حیران تھی کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عیسائیوں کے مقابلے میں زیادہ احترام کرتے ہیں اور بائبل کو خدا کی نازل کردہ کتاب مانتے ہیں۔ تمام مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ پاک مریمؑ کو معصوم عن الخطا تسلیم کرتے ہیں جب کہ عیسائیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پیغمبر اسلام ا کی شان میں کھلے عام گستاخیاں کرتے ہیں اور وہ پیغمبر اسلام ا کی رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ اخلاقی پہلو میرے لیے بے حد متاثر کن تھا اور جب تثلیث کا مسئلہ سامنے آیا ااور زاہدہ نے نہایت مدلل انداز میں اسے باطل ثابت کردیا تو مجھ پر شرح صدر ہوگیا کہ عیسائیت ایک خیالی مذہب بن کر رہ گیا ہے اور اسلام کے ساتھ اس کا تقابل نہیں کیا جاسکتا۔

عفت بتول
روزی میری خالہ زاد بہن پختہ عقیدے کی کیتھولک عیسائی تھی۔ چرچ کے ایک اسکول میں ٹیچر تعینات تھی۔ اس نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بہت خدمات انجام دی تھیں جس کے عوض اسے پرنسپل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ روزی عیسائیت پر پختہ ایمان رکھتی تھی جب بھی ہمارے گھر آتی عیسائی مذہب کی خصوصیات بیان کرتی۔ مجھے کہا کرتی: اپنی زندگی پاک مریم کے لیے وقف کردو۔ اس دنیا کے جھمیلوں سے نجات حاصل کرکے تارک الدنیا ہوجائو۔ اس طرح تمہیں دائمی سکون میسر آجائے گا۔ وہ مجھے پاک مریم کی زندگی کے بارے میں ایسی کہانیاں سناتی جو بے حد حیران کن تھیں اور میں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوتی تھی۔ مجھے اکثر محسوس ہوتا کہ روزی ٹھیک کہہ رہی ہے مجھے زندگی کی تلخیاں بھلانے کے لیے دنیا ترک کردینی چاہئے اور بطور راہبہ زندگی گذارنی چاہئے۔ میں غور و فکر کرتی رہی ایک روز حتمی فیصلہ کرلیا کہ میں تارک الدنیا ہوکر خود کو چرچ کے لیے وقف کردوں گی۔ خدمت خلق کو اپنی زندگی کا مقصد بنالوں گی۔
میں نے جب اپنی ماں پر اپنا ارادہ ظاہر کیا تو وہ حیران رہ گئیں ۔ اصل میں وہ ایک اچھے عیسائی خاندان میں میری شادی طے کرچکی تھیں۔ تارک الدنیاہوکر اور بطور راہبہ زندگی اپنالیتی تو ان کا خواب ٹوٹ جاتا، اس لیے انھوں نے شدت کے ساتھ میری مخالفت کی اور مجھے سختی سے ڈانٹ دیا۔ ماں نے زور دے کر کہا: تمہیں روزی کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے۔ عام لڑکیوں کی طرح زندگی میں دلچسپی لینی چاہئے۔ انھوں نے بتایا : تارک الدنیا بن جانا عیسائیت کی تعلیمات کی صریح نفی ہے۔ لڑکیوں کو ورغلاکر پادری انھیں اپنا مطیع اور تابعدار بنالیتے ہیں اور پھر انہیں ہر طرح کے اچھے برے کاموں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی، اس لیے گھر کے تمام افراد بے پناہ محبت کرتے تھے لیکن میری ماں مجھے سب سے زیادہ چاہتی تھیں، انھوں نے مجھے روزی سے ملاقاتیں کرنے سے منع کردیا۔ انہیں گمان تھا کہ روزی مجھے ترک دنیا پر اکساتی رہے گی لیکن ایک دن ہم سب لوگ یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے کہ روزی نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ ہمارے خاندان کے افراد کو پہلے تو اس خبر پر یقین نہیں آیا لیکن جب ہم نے اس کی تصدیق کی تو بات سچ نکلی۔ ایک سے زائد لوگوں سے پتہ چلا کہ روزی فی الواقع دائرہ اسلام میں داخل ہوچکی ہے۔ میری ماں روزی کے اسکول پہنچ گئیں اور وہاں جاکر تصدیق کی تو وہاں نہ صرف حقیقت حال سامنے آئی بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ اسے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ملازمت سے برطرف بھی کردیا گیا ہے۔
میں اور میری والدہ روزی کے گھر گئے جہاں وہ کچھ برقع پوش مسلم خواتین کے ساتھ موجود تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ ہمیں اچانک دیکھ کر روزی گھبراجائے گی اور ممکن ہے ہمارے سامنے آنے کی بھی ہمت نہ کرے لیکن ہم دونوں ششدر رہ گئیں جب روزی نے ہمارا پرتپاک خیرمقدم کیا۔ میں سمجھتی تھی یہ روزی جو مجھے عیسائیت کی اندھی عقیدت میں مبتلا کرتی رہی تھی وہ مجھ سے آنکھیں ملانے کی جرأت نہ کرسکے گی۔ مجھے راہبہ بنانے کی دن رات ترغیب دینے والی خود عیسائیت ترک کرکے مشرف بہ اسلام ہوچکی تھی۔ جوں جوں یہ سوچتی میرے حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ ہم سب لوگ حیرت زدہ تھے۔ جب روزی کو دیکھا اور اس کے چہرے پر میری نظر پڑی تو یقین جانئے وہ بے حد شگفتہ اور نورانی نظر آیا۔ لگتا تھا اس کے چہرے سے نور نکل رہاہے۔
میں زندگی میں کئی بار روزی کو دیکھ چکی تھی مگر وہ آج ہمیشہ سے زیادہ حسین نظر آئی۔ ایک ایسی حسینہ جس کے بشرے سے ہویدا تھا کہ دنیا میں اس جیسا حسین کوئی بھی نہیں۔ اس کے ساتھ جو دوسری مسلمان لڑکیاں تھیں۔ انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا۔ میں نے قدرتی طور پر بے ساختہ انداز میں روزی سے سوال کیا: اری تمہارے چہرے پر یہ اتنا نور کہاں سے آگیا؟ اس کا جواب تھا: یہ اسلام کا نور ہے۔ میں جب عیسائی تھی خود بھی کئی بار محسوس کیا تھا کہ میرے چہرے پر نسوانی رونق نام کی کوئی چیز نہیں مگر جب سے اسلام قبول کیا ہے مجھے خود محسوس ہورہا ہے کہ میرے چہرے پر تاریکی کے بجائے نور چھا گیا ہے۔ چاروں طرف مجھے ظلمت کے بجائے روشنیاں ہی روشنیاں نظر آنے لگی ہیں۔
روزی کی زندگی میں جو تبدیلی آئی تھی اس سے پورا خاندان حیرت کے ساتھ ساتھ خوف اور پریشانی کے سمندر میں غرق ہوگیا۔ میں اور میری والدہ قدرتی طور پر یہ جاننے کے لیے بے تاب تھیں کہ یہ کایا پلٹ کیوں کر ہوئی۔ روزی کی زندگی میں یکدم اور یکسر تبدیلی رونماہوئی تو آخر کیسے ہوئی؟ ہم نے روزی سے پوچھا کہ وہ عیسائی سے مسلمان کس طرح ہوگئی؟ اور اپنا آبائی مذہب جس کی وہ جنون کی حد تک دلدادہ تھی کیوں تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئی؟ ہم نے تو اسے بار بار دیکھا کہ جس مجلس میں جاتی عیسائی مذہب کی خوبیاں بیان کرتے تھکتی نہ تھی اس کی یہ خواہش ہوتی کہ اس کے جاننے والے تمام مردو زن حلقہ بگوش عیسائیت ہوجائیں۔ اس نے ہماری بے تابی اور حیرت ختم کرنے کی کوشش میں اپنی کہانی بیان کی اور بتایا کہ اسلام میری زندگی میں آہستہ آہستہ داخل ہوا۔ میں وہ مسافر ہوں جس نے دھیمے دھیمے چل کر منزل اسلام تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ اس سفر میں مجھے کسی بھی مرحلے پر یہ احساس نہ ہوا کہ میری دنیا بدل رہی ہے اور میں اندھیروں کو ترک کرکے اجالوں کی دنیا میں داخل ہورہی ہوں۔
روزی بتارہی تھی ، کبھی کبھار کوئی معمولی سی بات بھی زندگی کا رخ بدل دیتی ہے۔ ہوا یہ کہ ایک روز خواتین ٹیچرز کا ایک وفد چرچ کے اسکول میں وزٹ پر آیا۔ میں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا۔ چرچ کی انتظامیہ نے ان کی ضیافت کا اہتمام کیا تھا مگر ان ٹیچرز میں سے ایک نے کھانے میں شرکت سے انکا رکردیا۔ جب میں نے اسے کھانے کی میز پر چلنے کے لیے کہا تو اس نے اپنی ’’مجبوری‘‘ بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ اصل میں مسلمان ہے اور صرف حلال ذبیحہ ہی کھاتی ہے اور حرام (غیرمذبحہ) کھانا کھانے سے اس کے دین نے سختی کے ساتھ منع کیا ہو اہے۔
یہ جان کر مجھے بہت حیرت ہوئی اور اپنی خالہ زاد کو بتایا کہ وہ نہیں جانتی حلال اور حرام میں کیا فرق ہے۔ حلال کسے کہتے ہیں اور حرام کیا ہوتا ہے؟ میں اس الجھن کو سلجھانا چاہتی ہوں کہ ایک ہی کھانا قابل قبول اور ناقابل قبول کیوں کر قرارپاتا ہے۔ مجھے اس جانکاری میں مدد کرو۔ خالہ زاد نے حامی بھری مگر ابھی وہ ذرائع کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے خیال آیا کیوں نہ اس مسلمان ٹیچر ہی سے رابطہ کرکے حقیقت حال معلوم کی جائے۔ اس سے رابطے کی خواہش کا اظہار کیا جو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرلی گئی۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا رابطہ ہوا۔ پھر ملاقاتوں کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا اور مجھے راہ نجات حاصل ہونے کی سبیل پیدا ہوگئی۔
خاتون مسلم ٹیچر کانام زاہدہ تھا۔ اس ٹیچر کے ساتھ دوستی روز بروز مستحکم اور مخلص سے مخلص تر ہوتی چلی گئی۔ میرا یہ معمول بن گیا جب کبھی فرصت ملتی زاہدہ سے ملنے چلی جاتی اور جب زاہدہ کو وقت ملتا وہ بھی مجھے ملنے کے لیے آجاتی تھی ہم دونوں ایک دوسرے سے گفتگو کے ذریعے اسلام کے اوصاف پر روشنی ڈالتی۔
میں اس بات پر حیران تھی کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عیسائیوں کے مقابلے میں زیادہ احترام کرتے ہیں اور بائبل کو خدا کی نازل کردہ کتاب مانتے ہیں۔ تمام مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ پاک مریمؑ کو معصوم عن الخطا تسلیم کرتے ہیں جب کہ عیسائیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پیغمبر اسلام ا کی شان میں کھلے عام گستاخیاں کرتے ہیں اور وہ پیغمبر اسلام ا کی رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ اخلاقی پہلو میرے لیے بے حد متاثر کن تھا اور جب تثلیث کا مسئلہ سامنے آیا ااور زاہدہ نے نہایت مدلل انداز میں اسے باطل ثابت کردیا تو مجھ پر شرح صدر ہوگیا کہ عیسائیت ایک خیالی مذہب بن کر رہ گیا ہے اور اسلام کے ساتھ اس کا تقابل نہیں کیا جاسکتا۔
میرے ذہن میں طلاق کا مسئلہ اس طرح آیا کہ اس حوالے سے اسلام پر میرا یقین بہت پختہ ہوگیا۔ میں نے جان لیا کہ حقوق نسواں کی حفاظت اگر کسی مذہب میں ہوسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ ایک مطلقہ کو بھی باعزت زندگی گزارنے کا حق صرف اس کھرے اور سچے دین ہی نے عطا کیا ہے۔ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو مطلقہ کے حقوق متعین کرتا ہو اور سماج پر یہ ذمہ داری عائد کرتاہو کہ مطلقہ کو بھی نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ مطلقہ خاتون کو عام طور پر گری ہوئی نظروں سے دیکھاجاتا ہے جو جہالت کی علامت ہے بلکہ میں اگر ظلم بھی کہوں تو بے جا نہ ہوگا لیکن اسلام نے طبقاتی کش مکش اور امتیاز کے راستے بند کردیئے ہیں۔ مطلقہ کو عقد و مناکحت کی کھلی اجازت عطا کررکھی ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب نہیں جو اس درجہ جامع ہو او رجس میں مطلقہ کو سماج میں تحقیر سے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا گیا ہو۔ اسی طرح اسلام نے بیوہ کو وقار اور عزت کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنے کا موقع عطا کیا ہے۔ ایک بیوہ شوہر کی وفات کے بعد عدت کی معیاد گزارنے کے بعد نئی ازدواجی زندگی گزارنے کی پوری طرح مجاز ہے۔ اسلامی معاشرے میں بیوہ سے شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اسے باعث اجر ٹھہرا کر اس میں عجیب روحانی کشش پیدا کردی ہے۔ نفرت کی جگہ عزت و توقیر کی یہ عطا صرف اسلام ہی کا حصہ ہے جس کی حقانیت میں اس حوالے سے بھی کوئی کلام نہیں۔
روزی نے جب مجھے اور میری والدہ کو اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کیا تو قدرتی طور پر ہمارے اندر بھی تجسس کا جذبہ پیدا ہوا۔ روزی نے جب اپنی مسلم سہیلیوں کے ساتھ ہمارا تعارف کروایا تو ہمیں انداز ہوا کہ مسلمانوں کا سماج عیسائی سماج کے مقابلے میں کئی گنا مہذب اور بااخلاق ہے۔ روزی نے اسلام کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ کتابیں دیں۔ یہ اسلامی کتابیں اسلامی موضوعات کے تحت اس دین کو سمجھنے میں ہمارے لیے بہت معاون ثابت ہوئیں۔ میں اور میری والدہ روزی سے ملنے کے لیے ذہن میں یہ مقصد لے کر گئی تھیں کہ اسے سمجھائیں گے اور عیسائیت میں دوبارہ لے آئیں گے لیکن روزی نے جس پختہ عقیدے کا اظہار کیا تھا اس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ روزی کا پھر عیسائیت کے دائرے میں آجانا ممکن نہیں رہا۔ ایک مرحلے پر میری والدہ نے جب روزی سے یہ کہاکہ وہ اگر اپنے آبائی مذہب عیسائیت میں واپس آجائے تو پورا خاندان اسے گلے لگالے گا اس پر روزی کا جواب تھا کہ وہ اپنی جاں نثار کرسکتی ہے مگر اب اسلام سے روگردانی نہیں کرسکتی۔
روزی کی دی ہوئی کتابیں ہمارے مطالعے میں تھیں۔ انہیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ اسلام محض رسومات یا عبادت کا مذہب نہیں بلکہ یہ ایک ایسا جامع مذہب ہے جس میں زندگی کے سارے تقاضوں کا حل اور مداوا کماحقہ انداز میں موجود ہے۔ اس مذہب کا کمال یہ ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے لوگ اسے اپنی زندگی میں اختیار کرسکتے ہیں یہ مذہب مقامی ایشوز پر مبنی نہیں بلکہ یہ آفاقی ایشوز کا احاطہ کرتا ہے۔ ہر رنگ ونسل کے لوگ اس شجرسایہ دار کے نیچے آرام اور آسائش حاصل کرتے ہیں جب کہ دنیا کے دیگر مذاہب وقتی تقاضوں کی بنیاد پر اپنی ایک الگ ہیئت کے مظہر ہیں جب یہ تقاضے ختم ہوتے ہیں تو یہ عذاب بھی معدوم ہوجاتے ہیں لیکن اسلام چونکہ آفاقی مذہب ہے اس کا وجود ابتدائے آفرینش سے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔ وقتاً فوقتاً اس مذہب کی تبلیغ کے لیے پیغمبر آتے رہے۔ وقتی اور عصری ضرورت کے لیے مذاہب کے تدریجی مراحل پورے ہوگئے ہیں اب یہی مذہب ہے جو آخر تک قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ زمین شق ہوجائے گی اور آسمان پھٹ جائے گا۔
ایک روز ایسا حسین اور روح پرور اتفاق ہوا جب فکر و نظر کا نیا آفتاب و ماہتاب ہمارے ذہنوں میں بھی طلوع ہوگیا۔ روزی مجھے اور میری ماں کو ایک مذاکرے میں لے گئی جہاں مسلمان خواتین جمع تھیں۔ موضوع تھا ’’پیغمبر اسلام ا کے مبارک یوم ولادت‘‘ یوں سمجھئے کہ ایک جشن کا سمان تھا جس میں ہم شامل ہوئے اور اس نے ہماری تقدیر بدل ڈالی تاریخ کی بہت سی کتابیں پڑھ کر ہمیں پیغمبر اسلام ا کی زندگی کے بارے میں اتنی معلومات حاصل نہیں ہوسکتی تھیں جتنی معلومات اس جشن میں شامل ہوکر ہمیں ودیعت ہوگئیں، ہماری سمجھ میں یہ بات آگئی کہ زمین و آسمان میں پیغمبر اسلام ا سے زیادہ محترم کوئی شخصیت موجود نہیں ہے اور یہ کہ اسلام فی الواقع پوری دنیا کے لیے رحمت کا خزینہ ہے۔ اس دوران میں روزی کے تبدیلی مذہب سے پیدا ہونے والی تمام ناخوشگواریاں ختم ہوگئیں ہم پھر سے محبت کے مضبوط بلکہ مضبوط تررشتے میں بندھ گئے۔ میرے ساتھ ساتھ میری ماں کا بھی یہی تاثر تھا کہ روزی نے کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ اس نے ظلمات سے کنارہ کشی کرکے اپنے دامن میں نور سمیٹ لیا ہے۔
روزی اور اس کی ساتھی مسلمان لڑکیوں کی پیشانیوں پر جو نور نظر آرہا تھا وہ دراصل ایمان کا نور تھا میرے دل میں یہ خواہش کروٹ لینے لگی کہ اے کاش! ایسا ہی نور میرے چہرے پر بھی پیدا ہوجائے۔ میں نے اپنی اس آرزو کا اظہار ایک دن روزی سے کردیا۔ روزی سمجھ گئی کہ اسلام کی حقانیت میرے دل میں گھر کر چکی ہے اور اب میں اعلانیہ اسلام قبول کرنے کی متمنی ہوں لیکن اس نے کہاکہ اپنے چہرے کو نور اسلام سے منور کرنے کے لیے اپنی والدہ سے اجازت لینا ہوگی اگر ایسا نہ کیا کیاگیا تو لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ تم کسی دبائو میں آکر اسلام قبول کررہی ہو۔ ماں سے اپنی دلی کیفیت کے تذکرے کی ہمت نہ تھی ایک روزے مجھے ماں بے حد خوش نظر آئیں میں نے موقع غنیمت جان کہہ ڈالا ’’ماں! روزی کے چہرے پر جو نور نظر آتا ہے میں یہی نور اپنے چہرے پر بھی پھیلانے کی خواہاں ہوں۔ ماں کے جواب سے میں اتنی خوش ہوئی کہ شدت جذبات سے میری آنکھوں میں آنسو چھلک اٹھے۔ ماں کہہ رہی تھی: میں اسلام کی خوبیوں کی قائل ہوچکی ہوں اور صحیح قلب سے اسلام قبول کرچکی ہوں بس اب دیر ہے تو صرف اس بات کی کہ ایمان لانے کا اعلان کردوں۔ ہم دونوں ماں بیٹی نے طے کیا کہ بیک وقت امت مسلمہ کا حصہ بنیں گی۔ اور بالآخر ہمیں دنیا اور آخرت کی یہ سب سے بڑی سعادت حاصل ہوگئی۔
ایک روز مسلمانوں کے زیر اہتمام ایک عظیم تبلیغی اجتماع کا اہتمام کیا گیا جس میں خواتین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مجھے اور میری والدہ سے کہا گیا کہ اسلام کی طرف راغب ہونے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جب ہم ماں بیٹی نے نہایت والہانہ اور جذباتی انداز میں اپنی روداد بیان کی اور اپنے جذبات کا اظہار کیا تو اجتماع میں موجود تمام خواتین پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ الحمدللہ روزی، میں اور میری والدہ زبان عام میں اب راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ہم نے پرجوش ایمانی نعروں کے جلو میں کلمہ طیبہ پڑھا ہے میرا نام مریم رکھا گیا اور ماں کا نام عائشہ۔ ہماری دعا ہے کہ جو توفیق ہمیں ملی وہ اس دنیا کے تمام راہ گم کردہ مردوں اور عورتوں کو میسر آجائے۔
٭٭٭