سیاستمضامین

قانونی مشاورتی کالم کے ماضی کے جھروکوں میں شائع کچھ سوالوں اور جوابات کی دوبارہ اشاعت22سال قبل کے اردو کے معیارات۔ کچھ سوالات کی دوبارہ اشاعت وقت کا تقاضہ

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ قلم کا ہاتھ سے چھوٹ جانے سے بڑا کوئی قومی سانحہ نہیں ہوتا۔
٭ قلم دل کی زباں ہوتا ہے۔
٭ جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے‘ اپنا وجود ضائع کردیتی ہے۔
٭ بے زباں و بے قلم انسانوں اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں۔
26مئی2002ء ۔ قانونی مشاورتی کالم روزنامہ منصف
قارئین کرام کو یہ بات بتانا ضروری ہوگیا ہے کہ آپ کے پسندیدہ کالم روزنامہ منصف کے قانونی مشاورتی کالم کی 25ویں سالگرہ آئندہ ماہ ہوگی۔ یہ کالم اپنے قارئین کرام کی مسلسل خدمات سرانجام دے رہا ہے اور ہر مسئلہ پر چاہے قانونی ہو یا معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی ‘ مکمل معلومات کی فراہمی میں سرگرداں ہے اور قارئین کرام سے مسلسل سرپرستی کا خواہش مند ہے۔
یہ بات بہت ہی دکھ کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ موجودہ دور میں اردو زبان میں بھیجے ہوئے استفسارات میں اردو کہیں نظر نہیں آتی اور سوالات رومن اسکرپٹ میں روانہ کئے جاتے ہیں اور وہ بھی واٹس ایپ پر ۔ خیر اتنی تسلی تو ضرور ہے کہ لوگ اردو زبان کو سمجھ تو سکتے ہیں لیکن یہ بات کچھ کم افسوسناک نہیں ہے کہ بڑے بڑے انجینئرس لکھتے ہیں کہ وہ اردو سمجھ تو ضرور سکتے ہیں اور قرآن پاک کے طفیل میں کچھ پڑھ تو ضرور سکتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے۔ قلم دل کی زبان ہوتا ہے ۔ قلم قومی تاریخ کی یاددہانی کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ قلم کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار صرف اپنی ہی زبان میں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب قلم کی حکمرانی ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جو شائد کسی قومی سانحہ سے کم نہیں۔ اپنی زبان کی بقاء کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ اردو اخبارات خریدے نہیں جاتے بلکہ مانگ کر پڑھے جاتے ہیں۔ اپنی زبان میں شائع اخبار میں تجارتی اشتہارات تک شائع نہیں کروائے جاتے بلکہ سوشیل میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تو کیا پھر اردو اخبارات صرف انتقال پرملال کی خبروں کی اشاعت تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ شہر کے اردو اخبارات بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ہر خبر کو قارئین تک پہنچایا جائے ۔ ہم کیوں بھول گئے ہیں کہ اسلامی لٹریچر عربی کے بعد سب سے زیادہ اردو زبان میں موجود ہے۔ زبانِ اردو سے محرومی دین سے محرومی بن رہی ہے۔ قرآن شریف پڑھ رہے تو ضرور ہیں لیکن اس کے مطالب و معانی سے بے نیاز ہیں جو آیات کے بالکل نیچے اردو زبان میں شائع ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان پر اتنی دسترس نہیں کہ قرآن کے معنیٰ اور مطالب انگریزی میں پڑھ سکیں۔ یہی صورتحال رہی تو فہم دین سے اتنے عاری ہوجائیں گے کہ کوئی بھی بددین مسلمان نوجوانوں کو دینِ حنیف سے بھٹکا کر بددینی کی جانب مائل کرسکتا ہے اور مسلمانوں کو دولتِ دینی سے بے بہرہ کرسکتا ہے۔ فہم دین سے بے بہرہ مسلمان بہ آسانی ارتداد کا شکار ہوسکتا ہے‘ لہٰذا یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ تمام مسلمان اپنے بچوں کو اپنے گھروں پر اردو زبان پڑھنا اور لکھنا سکھائیں تاکہ وہ ادین و ادب سے بے بہرہ نہ ہوسکیں۔ پچاس ساٹھ سال پرانا نصاب آج بھی موجود ہے۔ اس کی دوبارہ اشاعت کرواکر بچوں کو اردو ادب و تاریخ سے واقف کروایا جاسکتا ہے تاکہ ان کی صحیح دینی تربیت ہوسکے۔
2002ء میں رواں کالم میں کچھ سوالات شائع ہوئے تھے جو اس وقت کے اردو معیار کی ترجمانی کرتے ہیں۔ قانونی مشاورتی کالم مورخہ 26مئی2002ء اور 7؍اپریل2002ء کے دو سوالات اور ان کے جوابات کی اشاعت دوبارہ کی جارہی ہے تاکہ دو دہے قبل اردو کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکے۔
ہاشم بھائی ‘ ممبئی کا سوال اور اس کا جواب ۔ مورخہ 7اپریل 2002ء
سوال:- گجرات کے ایریل شارون نے بربریت کی وہ مثال قائم کی ہے کہ ظالموں کی تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ یہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا مقامی پرچارک حالیہ دنوں تک کسی بھی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ غنڈوں کو جمع کرنے اور تخریبی کارروائیوں کا اسے وسیع تجربہ تھا۔ نہ تو یہ ممبر اسمبلی رہا اور نہ وزیر۔ بلوائیوں کو جمع کرنے اور تخریبی عمل میں نت نئے طریقے ایجاد کرنے کا اس میں فن موجود تھا۔ اس نے بلوائیوں کو پٹرول اور گیس کی طاقت استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا جس کی تباہ کاریوں سے سارا ا حمد آباد اور گجرات کے دیگر شہر اور قصبے جل اٹھے۔ میں احمد آباد کا متوطن ہوں اور فی الوقت ممبئی میں پناہ لیا ہوا ہوں۔ میرا سارا خاندان تباہ و تاراج ہوگیا۔ بلوائی ہزاروں کی تعداد میں آتے اور آٹو رکشا ٹرالی میں کبھی دس اور کبھی بیس پکوان گیس سلنڈر لاتے ۔ اچانک دھماکہ ہوتا اور سب جل کر مرجاتے۔ کبھی کبھی پٹرول بیرل میں بھر کر آٹو ٹرالی میں لاتے اور آگ لگادیتے جس کی زد میں کئی مکانات آجاتے۔ گیس کی طاقت سے بڑی عمارتوں کے پرخچے اڑجاتے۔ کبھی کبھی حیدرآباد میں تیار شدہ کیمیکل بھی بیرل میں آتا اور اچانک شعلہ بھڑک اٹھتا۔ ہزاروں بلوائی چن چن کر مسلم عورتوں کی عصمت ریزی کرتے اور بعد میں ان کے پیٹ چیر کر ہلاک کردیتے۔ ان میں کئی عورتیں ایسی تھیں جنہوں نے اسلام قبول کرکے مسلم نوجوانوں سے شادیاں کی تھیں۔ پولیس خاموش رہتی اور مسلمانوں پر ہی گولیاں برساتی۔ ایک علاقہ میں بیس پچیس مسلمان کس طرح ہزاروں بلوائیوں کا مقابلہ کرسکتے تھے جن کے پاس گیس سلنڈر ‘ پٹرول ٹینکرس اور کیمیکل کے بیرل تھے اور ہر بلوائی کے ہاتھ میں ترشول ہوتا تھا۔ ایک مہینہ سے زیادہ ہوگیا فسادات ابھی تک جاری ہیں اور قصبوں میں تک پھیل گئے ہیں اور ریلیف کیمپ میں جو چاول سربراہ کیا جارہا ہے ان میں کنکر اور کیڑے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن کے چیرمین کیمپ کی حالت دیکھ کر روپڑے اور انہوں نے اپنی رپورٹ میں نریندر مودی کو موردِ الزام قراردیا۔ اس کے باوجود ابھی ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم اور وزیر داخلہ اڈوانی اس ظالم کی تعریف کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ صرف72گھنٹے میں فساد پر قابو پالیاگیا۔ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔ اب نہ ہم اپنے گھرجاسکتے ہیں اور نہ وہاں کوئی کاروبار کرسکتے ہیں۔ سارے احمد آباد میں مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ ان تمام واقعات کو میں نے دیکھا ہے اور اب زندہ رہنے کی خواہش ختم ہوگئی ہے اور مرجانے کو جی چاہتا ہے۔ میری طرح ہر گجراتی مسلمان صرف مرجانے کے بارے میں ہی سوچ رہا ہے ۔ نہ ہمیں کوئی قانونی مدد مل سکتی ہے اور نہ کوئی سہارا۔
ہاشم بھائی ۔ ممبئی
جواب:- آپ ایک عظیم قوم کے فرد ہیں جس کی تاریخ ایسے مظالم سے بھری پڑی ہے ۔ اس قوم نے مر کر زندہ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے۔ آپ دلبرداشتہ نہ ہوں۔ حالات کے معمول پر آنے کے بعد اپنے گھر واپس ہوجائیے اور اپنے تباہ شدہ گھر کو دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیجئے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کی ہمدردیاں آپ اور آپ جیسے فساد کے متاثرین کے ساتھ ہیں۔ امت مسلمہ بھر پور طریقہ سے آپ مظلومین کی مدد کرے گی اور کر بھی رہی ہے۔ آپ اپنی جگہ ہرگز نہ چھوڑیں۔ یہ فسادات صرف اس لئے کرائے گئے ہیں کہ گجرات کے مسلمان اپنی جگہ چھوڑ دیں تاکہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں ان کے ووٹس سنگھ پریوار کے امیدواروں کے خلاف استعمال نہ کئے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی ریاستی اسمبلی کے عاجلانہ انتخابات منعقد کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم لاشوں کے انبار اور مکانوں کے خاکستر کے معائنہ کے بعد کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہندوستانی عوام کا ان پر دباؤ ہے کہ اس درندہ صفت چیف منسٹر مودی کی حکومت کو برطرف کردیا جائے۔ لیکن وہ اپنے چہیتے کو اقتدار سے بے دخل ہوتا ہوا دیکھنا پسند کریں گے یا نہیں یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ تمام گجراتی مسلمان صبر ‘ ہمت اور حوصلہ سے کام لیں۔ آپ سے ایک مرتبہ پھر التماس ہے کہ مرنے کی اصطلاح میں کبھی نہ سوچیں۔ حیدرآباد کے مسلمان اپنادینی فرض بھر پور طریقے سے پورا کررہے ہیں۔ کوئی دل ایسا نہیں جو داغدار نہیں اور کوئی آنکھ ایسی نہیں جو نمناک نہیں۔
ایک مظلومہ کی فریاد
سوال: ٹپک ائے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستان میری
اوپر لکھا ہوا شعر میری زندگی کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے۔ میں بدنصیب اردو لٹریچر کی ایم اے فرسٹ کلاس اور ایم۔فل ہوں۔ یہ ڈگریاں میں نے اپنی شادی سے قبل حاصل کی تھیں۔ میں ایک بہترین طالبہ تھی اور شادی سے قبل میرا بحیثیت لکچرر اردو تقرر ایک یقینی بات تھی۔ ہمارا خاندان مشرقی تہذیب کا دلدادہ تھا اور اسی دینی اور ادبی ماحول میں میری پرورش ہوئی۔ مجھے شعر و ادب سے بے حد شغف تھا اور آج بھی ہے اور اردو اشعار ہی میرے قلب و جگر کے زخم کا مرہم ہیں۔ میں ایک پامال زندگی گزاررہی ہوں۔ گزشتہ 27سال سے اپنے جابر اور ظالم شوہر کی دشنام طرازیاں‘ مار پیٹ اور ظلم و ستم کا شکار ہوں۔ میری شادی میرے والدین نے آج سے 27سال قبل ایک ریاستی محکمہ کے انجینئرنگ سوپروائزر سے کردی اور اس وقت ان کی تنخواہ بمشکل تین سو روپے تھی۔ شادی کے بعد مجھے ملازمت ملنے والی تھی لیکن میرے شوہر نے جو مجھ سے تعلیمی میدان میں پیچھے ہونے کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا تھے‘ مجھے ملازمت کرنے نہ دی۔ اور دھمکی دی کہ اگر میں ملازمت کروں تو مجھے طلاق دے دیں گے۔ میرے والدین نے مجھے بہت سمجھایا اور میں نے ان کی مرضی کے آگے شکست قبول کرلی۔ اگر میں ملازمت کرلیتی تو موجودہ اسکیل کے مطابق میری تنخواہ بیس ہزار روپیوں سے زیادہ ہوتی۔ اس طویل عرصہ میں دو لڑکے اور ایک لڑکی ہوئی۔ لڑکی کی شادی ہوگئی۔ ایک لڑکا بیرون ملک ملازمت کررہا ہے جو میرے تعلق سے بہت پریشان رہتا ہے۔ ایک لڑکا میرے ساتھ ہے ۔ شوہر صاحب اسی محکمہ میں ترقی کرکے اب ڈپٹی ایکزیکٹیو انجینئر بن گئے ہیںاور بیس ہزار روپیہ تنخواہ پاتے ہیں۔ احساس کمتری اس حد تک آگے بڑھی کہ ہر روز مجھے گالیاں دیتے اور مار پیٹ بھی کرتے۔ عمر کی اس منزل میں بھی انہو ںنے اپنے جورو ظلم میں کمی نہ کی اور کچھ روز قبل بلا کسی وجہ کے شدید زخم پہنچائے۔ پیر پر اس زور سے لات ماری کہ پیر میں سوجن آگئی مسلسل غم و اندوہ کی وجہ سے میں ذیابطیس مرض کی شکار ہوگئی۔ نہ مجھے طلاق دیتے ہیں اور نہ ایک باعزت زندگی۔ میں زندگی سے اوب گئی ہوں اور مرجانا چاہتی ہوں۔ ان کی پست ذہنیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ وہ گھر کی ہر چیز خود خرید کر لاتے ہیں۔ چاول ‘ آٹا‘ شکر‘ تیل اور دیگر اشیاء اگر مہینے سے قبل ختم ہوجائیں تو مجھے گالیا ں دیتے ہیں اور مار پیٹ کرتے ہیں۔ زندگی بھر میرے اپنے اخراجات کے لئے کبھی روپیہ پیسہ نہیں دیا۔ 27سال میں اس قیدی کی طرح گزاری ہوں جس پر آزادی اور باہر کی فضاء ممنوع ہے۔ میرا لڑکا میری مظلومیت کی وجہ سے بے حد پریشان رہتا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ جوں ہی وہ معاشی طور پر مستحکم ہوگا میری رہائش کا علاحدہ انتظام کردے گا تاکہ میں اپنے شوہر کے ظلم سے چھٹکارا حاصل کرسکوں ۔ میرے کان ان کی گالیاں سن کر پک چکے ہیں اور میرا جسم ان کی مارپیٹ سے مجروح ہے۔ کئی مرتبہ اس زور سے تھپڑ مارا کہ سماعت متاثر ہوگئی اور کان کا ایک پردہ بھی پھٹ گیا۔ یہ ظلم تادم تحریر جاری ہے ۔ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو اپنی زندگی ختم کردیتی اور قتل ایک گناہ نہ ہوتا تو انہیں بھی میٹھی نیند ہمیشہ کیلئے سلادیتی۔ میرے شوہر ایک آزاد مزاج شخص ہیں۔ شراب کے عادی ہیں۔ رشوت کے پیسوں سے شراب پیتے ہیں۔ مزاج میں آوارگی نہیں ہے لیکن معلوم پڑا ہے کہ آج کل دوسری شادی کے چکر میں ہیں اور اپنی عمر 47سال بتارہے ہیں اور شادی کی وجہ پہلی بیوی کا مرض اور اس کا عدم تعاون بتارہے ہیں۔ ایک سو گز کا ایک مکان میرے نام پر خریدا جس میں آج کل مقیم ہوں۔ ساری زندگی شوہر کا سکھ نصیب نہیں ہوا میری خواہش یہ ہے کہ وہ میری زندگی سے دور چلے جائیں۔ مجھے طلاق دے دیں تاکہ اذیت کا یہ سلسلہ بند ہوجائے جسے برداشت کرنے کی اب مجھ میں ہمت نہیں۔ اس سے قبل کئی مواقع پر انہوں نے میرا گلاگھونٹ ڈالا جس کے صدمہ سے میری سانس رک گئی۔ ایک مرتبہ پٹرول چھڑک کر جلادینے کی دھمکی دی۔ مجھے اس ظالم سے چھٹکارا دلائیے۔
ایک مظلومہ ۔ حیدرآباد۔
جواب:- ظلم کو اتنا بھی برداشت نہ کیا جائے کہ ظلم ظالم کی فطرت ثانیہ بن جائے۔ آپ کے معاملہ میں ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ کی خاموشی صبر و تحمل اعلیٰ تعلیم اور بردباری کا دوسرا مطلب لیا گیا۔ اگر آپ یا آپ کے والدین روز اول ہی ظلم و زیادتی کے خلاف سخت احتجاج کرتے اور قانونی کارروائی کی دھمکی دیتے تو آپ کو اتنے طویل عرصہ تک ظلم برداشت کرنا نہ پڑتا۔ آپ کے شوہر اس قابل ہیں کہ انہیں سخت سزا دلائی جائے اور ان کا صحیح مقام بتایاجائے۔ اگر آپ اپنی شکستہ ہمت کو یکجا کریں تو آپ کے ظالم شوہر کے خلاف زیر دفعہ498(A) تعزیرات ہند کارروائی کرواکے انہیں گرفتار کروایا جاسکتا ہے جس کا لازمی نتیجہ ان کی ملازمت سے معطلی کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ اس کے بعد وہ ظلم کرنا بھول جائیں گے۔ اس عمل کے بعدوہ آپ کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ آپ کو دوسرا کام یہ کرنا ہوگا کہ ان کو گھر سے بے دخل کردیں کیوں کہ وہ آپ کے گھر میں قیام پذدیر ہیں۔ جب ان پر کافی دباؤ پڑے گا تو خلع کے لئے راضی ہوجائیں گے اور اس طرح آپ کی 27 سالہ مصیبت ختم ہوجائے گی۔27سالہ شادی شدہ زندگی کے بعد بیوی کو اس قسم کی اذیت رسانی ایک مکروہ اور گھناؤنا عمل ہے جس کی انہیں قرارواقعی سزا ملنی چاہیے۔ وہ شراب پینے اور رشوت کھانے کے عادی ہیں اور لازمی طور پر آپ جیسی صابرہ اور شریف النفس خاتون کا ایسے شخص سے نباہ نہیں ہوسکتا۔ کینسر جب تکلیف دہ ہونے لگتا ہے تو اسے سرجیکل آپریشن سے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ آپ کو بھی بہت بڑے لیگل آپریشن کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰