بینک میں ملازم لڑکا سے نکاح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود دینے والے، سود لینے والے، سودی کاروبار کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے سبھوں پر لعنت بھیجی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ سب برابر ہیں:
سوال: ایک لڑکا HDFC بینک میں ڈپٹی منیجر ہے، اس سے ایک لڑکی کا رشتۂ نکاح طے ہوا ہے، اب لڑکی کے افراد خاندان میں سے بعض لوگوں کا اعتراض ہے کہ یہ رشتہ مناسب نہیں ہے؛
چوں کہ لڑکا بینک میں کام کرتا ہے، اس سلسلہ میں شرعی نقطۂ نظر کیا ہے؟ اس رشتہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے یا کوئی اور رشتہ دیکھا جائے؟ (محمد ایوب ندوی، حیدرآباد)
جواب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود دینے والے، سود لینے والے، سودی کاروبار کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے سبھوں پر لعنت بھیجی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ سب برابر ہیں:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال: ھم سواء (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۴۱۷۷؍)
ظاہر ہے جو شخص بینک کا ملازم ہو اور بالخصوص جو اس کا اعلیٰ عہدہ دار ہو، وہ سود کے لین دین میں تعاون کا مرتکب ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق لعنت کا مستحق ہے،
دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ ایسی عورت سے نکاح کرو جو دین دار ہو: فاظفر بذات الدین (بخاری، حدیث نمبر: ۵۰۹۰)؛
اس لئے اگرچہ کہ بینک کے ملازم سے نکاح کر دیا جائے تو نکاح ہو جاتا ہے؛ لیکن ایسے شخص سے نکاح کرنا مناسب نہیں ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی ہدایت کے خلاف ہے،
ہاں، اگر وہ یہ ملازمت چھوڑ دے اور توبہ کر لے تو اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،نیز اگر نکاح ہو ہی گیا تواس کو ترغیب دینی چاہئے کہ وہ حلال روزی کا کوئی اور ذریعہ تلاش کرلے اور جب تک یہ حاـصل نہ ہو، بہ کراہت خاطراسی ملازمت کوجاری رکھے۔