مضامین

بیٹی بچاﺅ کا نعرہ لگانے والے خاموش کیوں ہیں؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک کی راجدھانی میں گز شتہ 24دن سے عالمی سطح پر کھیل کے میدان میں ملک کا نام روشن کرنے والے کھلاڑی انصاف کے حصول کے لئے جنتر منتر پر دھرنا دے رہے ہیں ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بیٹی بچاو¿۔ بیٹی پڑھاو¿ کا نعرہ دینے والی بی جے پی حکومت کے وزراءاور حکومت کے سربراہ کو اتنی بھی فرصت نہیں ہے کہ وہ ان کھلاڑیوں کی شکایت کو سن کر معاملہ کو حل کریں۔ دھرنے پر بیٹھے کھلاڑیوں کا الزام ہے کہ انڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ خاتون ریسلرس کی جنسی ہراسانی کے کئی معاملات میں ملوث ہیں۔ خاتون ریسلرس نے برج بھوشن کے خلاف دہلی پولیس میں ایف آئی آر بھی درج کرائی ہے اور انصاف میں تاخیر کی وجہ سے 18 اپریل سے دھرنا دے رہی ہیں۔ سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتیں اور جماعتیںان سے اظہار یکانگت کرتے ہوئے دھرنے میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ جنسی ہراسانی کا شکار خاتون کھلاڑیوں کا مطالبہ ہے کہ برج بھوشن کے خلاف نربھے ایکٹ کے تحت قانونی کاروائی کر تے ہوئے انہیں کڑی سزا دی جائے۔ اسی دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اس معاملے کا سنگین نوٹ لیتے ہوئے پولیس کو ہدایت دی کہ ان خاتون کھلاڑیوں کی شکایت کی شنوائی کر تے ہوئے ملزم سے پوچھ تاچھ کی جائے اور الزامات ثابت ہونے پر ملزم کو گرفتار کرکے معاملہ کو آ گے بڑھایا جائے۔ سپریم کورٹ نے ایک ہفتہ پہلے پولیس کو یہ ہدایات دی تھیں ۔ لیکن ابھی تک نہ ملزم سے پوچھ تاچھ کی گئی او رنہ اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ جب کہ عام معاملات میں پولیس فوری حرکت میں آجاتی ہے اور بسا اوقات بغیر کسی تحقیق کے کسی بے گناہ کو گرفتار بھی کرلیا جا تا ہے۔ برج بھوشن شرن سنگھ کے ساتھ پولیس کا یہ ہمدردانہ رویہ کیوں ہے؟ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اور سپریم کورٹ کی تنبیہ کے باوجود پولیس کا حرکت میں نہ آنا بادی النظر میں یہ ثابت کرتا ہے وہ ملزم کا ساتھ دے رہی ہے۔ 66 سالہ برج بھوشن کوئی معمولی آدمی نہیں ہے۔ بابری مسجد کی شہادت میں ملوث یہ شخص چھ مر تبہ رکن پارلیمنٹ رہ چکا ہے۔ اور اب بھی وہ بی جے پی کی نمائندگی پارلیمنٹ میں کر تا ہے۔ یوپی کے مخصوص علاقہ میں اس کا راج چلتا ہے۔ برج بھوشن کے خلاف قتل کے کئی مقدمات عدالتوں میں درج ہیں۔ سیاستدان کی شکل میں یہ ایک مافیا ہے۔ اسی لئے بی جے پی حکومت اس کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کرنے سے گھبرا رہی ہے۔ مجرمانہ پس منظر کے حامل برج بھوشن کے خلاف خاتون ریسلرس کی شکایات عام نوعیت کی نہیں ہیں کہ جسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اسپورٹس کی دنیا میں نام کمانے والی ان خواتین نے جس قسم کے الزامات اپنے فیڈریشن کے صدر پر لگائے ہیں اس پر تو وزیر اعظم کو فوری حرکت میں آ تے ہوئے قوم کی ان بیٹیوں کی شکایتوں کو دور کرنا تھا۔ ملک کی خواتین کو با اختیار بنانے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم کی اس سنگین معاملہ میں دانستہ خاموشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کسی جمہوری ملک میں ایسی خواتین جنہوں نے ملک کو میڈلس سے نوازا اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے سٹرکوں پر نکلنے کے لئے مجبور ہونا کوئی اچھی علامت ہے؟ اگر ان کے ساتھ جنسی ہراسانی کا واقعہ پیش نہیں آیا تو کیا وہ اس قسم کے الزامات لگا کر اپنی بدنامی کا سامان خود کرلیتی ہیں؟یہ حقیقت ہے کہ حکمران طبقہ کا کوئی فرد کسی بھی قسم کا جرم کرلے اس کے لئے کوئی سزا نہیں ہے۔ اس کی واضح مثال برج بھوش شرن سنگھ کی ہے۔ جو اب بھی آزاد گھوم رہا ہے۔
یہ وہ خاتون ریسلرس ہیں جنہوں نے کامن ویلتھ گیمس اور اولمپکس میں میڈلس حاصل کرتے ہوئے اپنے ملک کے پرچم کو بلند کیا ہے۔ ان کے ساتھ جب انصاف نہیں ہو سکا تو پھر ملک کی عام خواتین کے ساتھ حکومت کیا کچھ انصاف کر رہی ہے۔ ابھی حال میں وزیر اعظم کا من پسند پروگرام "من کی بات "کا 100واں ایپی سوڈ مکمل ہوا۔ اس میں بھی وزیراعظم نے جنتر منتر پر احتجاج کرنے والی خاتون پہلوانوں کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خواتین سے کتنا تعلقِ خاطر رکھتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم بولنے کا ہنر اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ابھی کرناٹک کی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کیا کچھ نہیں کہا۔ ملک کی وزرات عظمیٰ کے اعلیٰ منصب پررہتے ہوئے انہوں نے محض ووٹوں کے حصول کے لئے ایک متنازعہ فلم کی پُر زور حمایت کر دی ۔ جب کہ کیرالا اسٹوری کے نام پر بنائی گئی یہ فلم ہندوستانی سماج کے تانے بانے کو توڑنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے جو فلم بنائی گئی اس کی تعریف کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وزیر اعظم جس ایشو پر بولنا چاہتے ہیں اسی پر کھل کر بولتے ہیں۔ اور جہاں انہیں بولنا چاہئے خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ خاتون ریسلرس چیخ چیخ کر اپنے پر ہونے والے ظلم کو بیان کر رہی ہیں ۔ لیکن وزیر اعظم نے چپ سادھ لی ہے۔ اس لئے کہ برج بھوشن اپنی پارٹی کے آدمی ہیں۔انصاف کے معاملے میں یہ دوہرا پن ملک میں مایوسی کی فضاءپیدا کردے گا۔ برج بھوشن ، اثر و رسوخ رکھنے والا شخص ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی نہیں چاہتی کہ ایسے شخص سے ٹکرایا جائے۔ اس کے سیاسی دبدبہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ آئندہ سال الیکشن کا بھی مرحلہ ہے۔ اس لئے اس کو برداشت کرنا بی جے پی کی مجبوری ہے۔ لیکن کیا اس سے ملک کے قانونی نظام پر بُرا اثر نہیں پڑتا۔ ایک عام شہری کے ذہن میں کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ خواتین کی جنسی ہراسانی کے کیسیس میں ملوث شخص بھی ایوان پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے تو پھر ملک میں قانون کی حکمرانی چل سکتی ہے؟ برج بھوشن کے خلاف کسی قسم کی سخت کاروائی سے گریز اس لئے کیا جار ہا ہے کہ الیکشن کے موقع پر ایسے ہی شرپسند عناصر کی بی جے پی کو ضرورت ہو تی ہے۔ بی جے پی کے قائدین اپنی پارٹی کو دوسری پارٹیوں سے منفرد بتا کر عوام کو گمراہ کر تے ہیں۔ لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ گجرات میں جن درندرہ صفت لوگوں نے معصوم عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی تھی، ان سب کو گجرات کی حکومت نے باعزت بری کر دیا۔ اسی طرح دیگر مقامات کے مجرمین کو نہ صرف قانونی راحت دی گئی بلکہ انہیں رکن اسمبلی، رکن پارلیمنٹ اور وزارتیں دی گئیں۔ بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ عوامی برہمی وقتی ہو تی ہے۔ وہ وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے اب یہ پارٹی مجرموں کی پناہ گا ہ بنتی جا رہی ہے۔ ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ بی جے پی نے قاتلوں اور زانیوں کی پشت پناہی کی ہے۔ کسانوں کے تاریخی احتجاج کے دوران مرکزی وزیر کے بیٹے نے کسانوں کو اپنی گاڑی سے کچل دیا تھا۔ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ہریانہ کے ایک وزیر پر جنسی ہراسانی کے الزامات پورے ثبوتوں کے ساتھ لگائے گئے لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب برج بھوشن کو قانونی شکنجہ سے بچانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکام پر جس شخص کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتا ہے اس کے باوجود اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ خاتون پہلوانوں کے احتجاج کی حکومت کے پاس کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ چند دن کے بعد تھک ہار کر خاتون ریسلرس اپنا احتجاج ختم کردیں گے۔ لیکن احتجاجیوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ان کا احتجاج انصاف کے ملنے تک جا ری رہے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی حکومت کب تک یہ انداز حکمرانی اختیار کر تی رہے گی۔ حالیہ عرصہ میں برطانیہ کے بزنس اینڈ ہیومن رائٹس ریسورسنٹر نے انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں صاف طور پر بتایا گیا ہے ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ غیر انسانی اور توہین آمیز واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کے واقعات بھی ہو رہے ہیں ، حالیہ دنوں میں عتیق احمد اور ان کے بھائی کا سرعام قتل اس کی مثال ہے۔ اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے متعد د واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے اپنے دور میں مسلمانوں کو ہر طرح سے پریشان کرنے کی پوری کوشش کی۔ یوپی میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلادئے جا رہے ہیں۔ برطانیہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں پر جبر کے مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ اس معاملہ میں ہندوستان دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ موجودہ حکومت انسانی حقوق کی ان بے تحاشہ خلاف ورزیوں کا سّدباب کرنے کے بجائے مجرموں کو پناہ دینے کی مبینہ سازش میں ملوث رہے گی تو ہمارے ہر دلعزیز ملک کی اور زیادہ بدنامی ہو گی۔ ملک کی نیک نامی کو بچانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ انسانی حقوق کا ہر سطح پر تحفظ کیا جائے۔ خاتون ریسلرس کے اس احتجاج کو بھی انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جائے۔ دنیا میں رہنے والا ہر شخص عزت و احترام کا مستحق ہے۔ کسی کی عزت و آبرو سے کھیلناانسانیت نہیں حیوانیت ہے۔ کوئی فرد یا گروہ کسی کی عزت پر ڈاکہ ڈالتاہے تو اسے کڑی سے کڑی سزا دینا حکومت کا اولین فرض ہے۔ مجرموں اور قاتلوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو سماج میں بدامنی اور انتشار پھیل جائے گا۔ موجودہ حکومت ملک میں جاری اس شرانگیزی کو ختم نہیں کرتی ہے تو اس سے ملک میں طوائف الملوکی کا ماحول فروغ پائے گا۔ اس لئے انصاف کا تقاضا ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی اثر و رسوخ رکھتا ہو ، اس نے کسی کے حقوق کی پامالی کی ہوتو اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ برج بھوش شرن سنگھ اس وقت ایک خاطی ہے۔ متاثرین کھلے عام اس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایک دو نہیں تیس خاتون کھلاڑیوں نے یہ سنگین الزام لگایا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹ لیتے ہوئے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی پولیس کو ہدایت دی ہے۔ اسے عدالت میں پیش ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہو گی۔ اس کے بجائے وہ میڈیا کے ذریعہ خاتون کھلاڑیوں کو دھمکانے میں لگا ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس پر جو کچھ الزامات لگائے جا رہے ہیں یہ سب جھوٹے ہیں۔ ہر ملزم یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر جو فرد جرم عائد کیا گیا ہے وہ غلط ہے۔ آج کی تاریخ تک کسی ملزم نے آسانی کے ساتھ اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا ہے۔ یہ تو عدالت طے کر ے گی کہ کون کتنا سچا ہے۔ قانون سے پیچھا چھڑانے کے لئے برج بھوشن کا خواتین پر الزامات لگانا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جنسی ہراسانی کا مرتکب ہوا ہے۔ رام اور سیتا کی اس دھرتی پر یہ ممکن نہیں کہ کوئی خاتون ، چاہے وہ کسی بھی شعبہ حیات سے تعلق رکھتی ہو بلاوجہ اپنی عزت و عفت کو سربازار نیلام کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ جب اسے اپنی عزت کو بچانے کا کوئی راستہ ہی باقی نہیں رہتا تو وہ سڑکوں پر احتجاج کر تے ہوئے خاطیوں کو سزا دینے کا مطالبہ کر تی ہیں۔ جنتر منتر پر ہونے والا یہ احتجاج بھی ان مجرموں کے خلاف ہے جو اپنی غنڈہ گردی کے ذریعہ سیاسی ایوانوں میں اپنی جگہ بنالیے ہیں۔ انہیں کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کی ذ مہ داری ہے۔ ان خاتون کھلاڑیوںکے ساتھ انصاف نہیں ہوتا ہے تو یہ سمجھا جائے گہ خواتین کو بہ اختیار بنانے کے سارے وعدے سیاسی ہتھکنڈے ہیں۔