مذہب

حق وراثت اور وارثین

مرنے والے کی ملکیت کا غیر اختیاری طور پر وارثین کے حق میں منتقل ہونے کو وراثت یا ورثہ کہتے ہیں ،اسی طرح ترکہ شرعاً وہ مال و اسباب ہے،جو مرنے والا بوقت وفات اپنی ملکیت میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔

محمد ریاض ارمان القاسمی
نائب قاضی شریعت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ناگپاڑہ ممبئی ۔موبائل نمبر:8529155535

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

مرنے والے کی ملکیت کا غیر اختیاری طور پر وارثین کے حق میں منتقل ہونے کو وراثت یا ورثہ کہتے ہیں ،اسی طرح ترکہ شرعاً وہ مال و اسباب ہے،جو مرنے والا بوقت وفات اپنی ملکیت میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔میراثاحکامات الٰہی میں سے ہے ، اللہ تعالیٰ نے فریضۃ من اللہ، اور حدوداللہ سے تعبیر فرمایا ہے،اور حق داروں کا حصہ خود ہی متعین فرمایا،اورقرآن میں وارثین اور وارثین کے حصص کو تفصیل سے بیان کیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم میراث کو نصف علم اور اس کے سیکھنے سیکھانے کا حکم دیا ہے ۔اسی طرح فقہاء نے اسے علم الفرائض کا نام دیا ہے۔ انسان کی فطرت زندہ ہو،اور اس میں غوروفکرکی صلاحیت موجود ہو، تو اسے جگانے اورحر کت میں لانے کے لئے ایک جملہ اور ایک بول بھی کافی ہو جاتاہے ،لیکن اگرانسان کی فطرت مردہ ہو چکی ہو، بصارت وبصیرت پر کفر وعصیا ن کے پردے پڑے ہوئے ہو ں۔ تو پھر انسان کو بیدار کرنے اور حرکت میں لانے کے لئے تحریر کے سینکڑوںدفاتر،اور ہزاروں بیانات ،اور کائنات میں موجود لاتعداد مظاہرِ قدرت بھی ناکافی پڑ جاتے ہیں۔

مال پر قابض وارثین کا رویہ : مال میراث تقسیم نہ کرنے پر قرآن وحدیث میں وبال اور عذاب کا ذکرہے،لیکن اس کے باوجودہمارے معاشرے میں میراث تقسیم کرنے کا رواج ہی نہیں ہے،باپ مر جاتا ہے تو بیٹے مالک بن بیٹھتے ہیں ،بعض بھائی اپنی بہنوں کو ان کا حصہ میراث نہیں دیتے ،نہ بیوی کو میراث ملتی ہے ،نہ ماں کو میراث ملتی ہے،اور نہ بیٹیوں کو میراث ملتی ہے ،اسی طرح نابالغ بچوں کو بھی میراث نہیں ملتی ہے،جو بھائی باپ کی زندگی سے ماتحت بن کر رہ رہاہو،اور اس کے قبضے اور اختیار میں کاروبار نہیں ہو ،اس کو بھی میراث نہیں ملتی اور عام طور پر ایسے بھائی فتوی لینے آتے ہیں ،جن کے قبضہ میں کاروبار نہیں ہو تا او ر جو بھائی کاروبار پر قابض ہو تے ہیں۔ وہ ا س فتوے کو دیکھ کر انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں فتوے کی کوئی ضرورت نہیں،ہم اس کو نہیں مانتے ۔یہ وہ ظلم ہے جو آج ہمارے معاشرے میں نہ جانے کب سے چل رہا ہے،اور جو بھائی کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں، وہ چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو دیتے نہیں یا کم دیتے ہیں ۔امت مسلمہ کی اکثریت جو نماز ،روزہ، حج حتیٰ کے زکوۃ وغیرہ کی ادائیگی میں پابند ہے ،وہ بھی میراث کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہے ،حالاں کہ میراث کی ادائیگی کا تعلق حقوق العباد سےہے ۔جو توبہ سے معاف نہیں ہوگا ۔بلکہ صاحب حق تک اس کا حق پہونچے گا تب جھٹکارے کی امید کی جاسکتی ہے ۔

حق میراث نہ دینے کا دنیاوی اثر: میرا ث نہ دینے کا اثر قدرت کے قانون کے موافق یہ ہوتا ہے کہ ان کا پیسہ بیماریوں ،مصیبتوں اور بلاؤں میں پانی کی طرح بہتا ہے ،پھر وہ تعویذ لینےآتے ہیں ،پانی پر دم کرواتے ہیں ،بکرے وغیرہ کا صدقہ دیتے ہیں ،حالاں کہ یہ مصیبتیں بلائیں ،آفتیں ،تو صرف بھائی بہنوں کا حق ادا کرنے سے ہی دور ہوں گی ،اور یہ مصیبتیں تو ڈرانے کے لیے آتی ہیں کہ انسان باز آجائے۔اس کے باوجود انسان حق دار کا حق نہیں دیتا ہےتو بعض اوقات ان کی بددعا دوسرےجائز حلال مال کو بھی لے ڈوبتی ہے ،یہ تو دنیا کا عذاب ہے ،اور آخرت کا عذا ب اس سے زیادہ اور اس سے بڑا ہے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اورمورث کےانتقال ہو تے ہی شریعت کے حکم کے موافق میت کے مال کو تقسیم کرنے کی ہمت وتوفیق عطا فرمائے ۔

حکمِ میراث پر عمل نہ کرنے والوں کی سزا: میراث کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کو آگ اور ذلّت کاعذاب ہوگا ،ارشاد ربانی ہے: "جو اس میراث کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لئے ذلت آمیز عذاب ہو گا”۔اسی طرح حدیث نبوی میں ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خداوندی میں مشغو ل رہتے ہیں ،لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضر رپہنچاتے ہیں، یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یا تو حقداروں کا حصہ کم کر دیتے ہیں،یا مکمل حصے سے محروم کر دیتے ہیں، ایسے شخص کواللہ تعالیٰ سیدھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے ۔

غورفرمائیں !میراث کے بارے میں اللہ کے حکم کے سلسلے میں حیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر کی عبادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃ، تبلیغ اور دیگر اعما ل ضائع ہونے کاقوی اندیشہ ہوتاہے ،بلکہ ایسے شخص کے بارے میں جہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہےکہ جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ وارث کو محروم کر ے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کردیتے ہیں۔

ورثا کوآسودہ حال چھوڑنے کی ترغیب: بسا اوقات اولاد نافرمان نکل جاتی ہے ،یا بڑھاپے کی وجہ سے کچھ لوگ خود ہی اس حالت میں پہونچ جاتے ہیں کہ ان کو اپنے قریبی رشتہ داربھُلادیتے ہیں،یا ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اپنی اولاد ہیسے گھٹن ہو نے لگتی ہے ،یا کبھی نیکی کا غلبہ اور فکر آخرت کی زیادتی آخری عمر میں اس حد تک پہونچادیتی ہے کہ آدمی اپنی تمام چیزوں کے صدقہ کے در پے ہوتا ہے ،اور وہ تمام کوششوں کے بعد بھی کسی شخص کے لیے کچھ بھی چھوڑ کر جانے کوآمادہ نہیں ہوتا ہے ،ایسی صورت میں شریعت مطہرہ کی رہنمائی یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو آسودہ حال چھوڑ کر جائے یہ بہتر ہے اس سےکہ وہ دوسروں کے سامنے بھیک مانگتے پھریں ،یا تنگدستی کی زندگی گذاریں ،ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلمہے’’ تم اپنے ورثاء کومالداری کی حالت میں چھوڑجاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیںتنگدستی کی حالت میں چھوڑدو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں‘‘۔نیز کچھ لوگ اپنےوارثین کو محروم کر نے کی خاطر عاق کر دیتے ہیں ،یا کسی دوسرے کے نام وصیت کر جاتے ہیں ،تو واضح رہے کہ عاق کرنے سے وارثین عاق نہیں ہوتے ہیں ،اسی طرح اگر پورے مال کی وصیت کسی غیر وارث کے لیے کر دی جائے ،تو وصیت صرف ایک تہائی مال میں نافذ ہوتی ہے ،اوربقیہ مال میں وارثین کو وراثت ملتی ہے ۔نیز وارثین کے حق میں وصیت ہوتی ہی نہیں ہے کیوں کہ ان کو وراثت میں حصہ ملتا ہے۔

اپنی حیات میں مال وجائیداد کی تقسیم: بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد، اولاد و اقرباء میں تقسیم کر دیتے ہیں ،عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹو ں کو حصہ دیاجاتا ہے ،بیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو حج کروانے کا لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں ،ان لوگوں کو حالتِ صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے،لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس کی روح و مقتضیٰ کے خلاف ہے ،چنانچہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لئے تشریف لائے ،مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، آپ نے پانی منگوایا ،وضو فرمایااور چھینٹےمجھ پر ماریں، مجھے کچھ افاقہ ہوا ،میں نے پوچھا:میں اپنامال کیسے تقسیم کروں؟ یعنی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں ؟اس وقت والدین کو حکم دیا گیا کہ لڑکوںکی طرح لڑکیوںکو بھی مال میں حصہ دو۔

ایک بزرگ کا واقعہ : ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ وہ کسی شخص کی عیادت کے لئے اس کے دولت کدہ تشریف لے گئے ،جب وہ وہاں پہونچے تو کیا دیکھتے ہیں ۔کہ وہ بیمار شخص وفات پا چکا ہے ،اور اس کے گھر میں چراغ جل رہا تھا ،تو انہوں نے اس کو بجھا دیا اور فرمایا کہ اس چراغ پر بھی وارثوں کا حق ہے ،لہٰذا وراثت کی کتنی اہمیت ہے اس سے اس کا اندازہ لگائیے۔
٭٭٭

a3w
a3w