مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
زلزلہ یوں تو کائنات کا ایک طبعی واقعہ ہے ؛ لیکن ظاہر ہے کہ ان واقعات کے پیچھے اصل میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا فیصلہ کار فرما ہے اور خدا کا ایک غیبی نظام ہے ، جو کائنات میں پیش آنے والے ہر واقعہ کے پیچھے ہے ، جیسے دنیا میں انسان کے افعال سے بعض حالات متعلق ہوتے ہیں ، دست آور چیز کے کھانے سے معدہ خراب ہوتا ہے ،
چکنی چیزیں جگر کو خراب کر تی ہیں ، انسان دھار دار لوہا اپنے ہاتھ پر مارے تو یقیناً ہاتھ کٹے گا اور خون بہے گا ، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام میں انسان کے نیک و بد اعمال پر احوال مرتب ہوتے ہیں ، زلزلہ ، طوفان ، سیلاب ، قحط ، غیر معتدل بارش ، وبائی امراض یہ سب اوپر سے اُترنے والے احوال ہیں ، اللہ کی بندگی ، خلق اللہ کے ساتھ حسن سلوک ، صدق و صفا ، عدل و انصاف اور ان کے مقابلہ میں اللہ کی نافرمانی ، خلق اللہ کے ساتھ ظلم و جور ، جھوٹ ، دھوکہ ، وعدہ خلافی اور ایذا رسانی وہ اعمال ہیں جو زمین سے آسمان کی طرف جاتے ہیں ،
جیسے اعمال نیچے سے جائیں گے ان ہی کے مطابق اللہ کی طرف سے احوال و واقعات ظاہر ہوں گے ؛ اس لئے ایک مومن کی نگاہ میں طبعی اسباب کسی واقعہ کے لئے ظاہر ی سبب کے درجہ میں ہیں ، اچھے اور بُرے واقعات کا اصل سبب خدا کا راضی یا ناراض ہونا اور انسان کے اعمال کے اعتبار سے اس کی رحمت یا غضب کا زمین والوں کی طرف متوجہ ہونا ہے ۔
اس طرح کے واقعات در اصل خالق کائنات کی طرف سے ’’ الارم ‘‘ ہیں ؛ تاکہ خلق خدا اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور آپ اپنے احتساب کا فریضہ انجام دے ، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت میں گناہوں کی کثرت ہوگی اور زلزلہ کے واقعات بھی بڑھیں گے ، یہاں تک کہ کائنات پر زلزلۂ قیامت برپا ہوگا ، جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ ’’ زلزال ‘‘ میں ہے ، یہ زلزلہ پورے روئے ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور قرآن کی تعبیر سے معلوم ہوتاہے کہ وہ طویل اور شدید زلزلہ ہوگا ، جو زمین کو جھٹکے پر جھٹکے دیتا جائے گا اور پوری کائنات زِیر و زَبر ہو کر رہ جائے گی ، سکنڈوں اور منٹوں کے زلزلے کتنے آفت بد اماں ہوتے ہیں ؟ یہ ہرشخص جانتا ہے ، اسی سے اس شدید اور طویل زلزلہ کی ہولناکیوں اور قہر سامانیوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کائناتی احوال میں معمولی تغیر پیش آنے سے بھی بے قرار ہو جاتے ، اللہ سے رُجوع ہوتے اور خوف و خشیت کی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے عیاں ہوتی ، حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے کہ اگر کسی شب تیز ہوا چلتی تو آپؐ بے قرار ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے اور جب تک ہوا تھم نہ جاتی ، خدا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ریز رہتے ، سورج گہن یا چاند گہن لگتا تو جب تک گہن ختم نہ ہو جائے ، نماز میں مشغول ہوتے ، (جمع الفوائد، حدیث نمبر: ۲۰۶۹) حضرت انس ؓ کے زمانہ میں ایک بار سخت تاریکی چھا گئی ، ایک صاحب ِخدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسی باتیں پیش آتی تھیں ؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: معاذ اللہ! اس وقت تو ہوا بھی تیز چلتی تو ہم لوگ قیامت کے خوف سے مسجد کی طرف دوڑ پڑتے تھے۔ (مجمع الزوائد، حدیث نمبر: ۲۰۶۸)
لیکن ہمارے ضعف ایمان کا حال یہ ہے ، کہ زلزلہ سے ہمیں بھی خوف ہوتا ہے ؛ لیکن نہ اللہ کا اور نہ قیامت کا ، صرف یہ ڈر ہوتا ہے کہ گھر گر جائیں گے ، جانیں جاسکتی ہیں ، مال ضائع ہو سکتا ہے ، یعنی اصل میں مومن کو جس بات کا خوف ہونا چاہئے ، اس کا تو دل میں خیال بھی نہیں گذرتا ؛ لیکن ان آنی جانی اور زائل و فانی چیزوں کا خوف مسلط رہتا ہے ، جن سے مومن کے دل کو آزاد رہنا چاہئے؛ اسی لئے زلزلہ کے موقع پر مستحب طریقہ یہ ہے ، کہ تنہا تنہا دو دو یا چار چار رکعت نماز پڑھی جائے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے گناہوں پرخوب گڑ گڑایا جائے ، علامہ شرنبلالیؒ بڑے پایہ کے فقیہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں :
وکالصلاۃ فرادی لحصول الفزع بالزلازل والصواعق وانتشار الکواکب والضوء الھائل لیلا والثلج والامطار الدائمۃ وعموم الامراض والخوف الغالب من العدو ونحو ذٰلک من الافزاع والاھوال ، لانھا آیات مخوفۃ للعباد لیترکوا المعاصی و یرجعو الٰی طاعۃ اﷲ تعالٰی التی بھا فوزھم وصلاحھم واقرب احوال العبد فی الرجوع الی ربہ الصلاۃ۔ (مراقی الفلاح مع الطحطاوی: ۲۹۹)
اور تنہا تنہا نماز پڑھی جائے گھبراہٹ کے موقع پر ، گھبرا دینے والی باتوں سے مراد زلزلے ، بجلیوں کی مسلسل کڑک ، تاروں کا ٹوٹنا ، رات میں تیز روشنی کا نمودار ہونا ، ژالہ باری ، مسلسل بارش ، امراض کا پھیلنا اور دشمن کا سخت خوف وغیرہ ہیں ، جو بندوں کو ڈرانے کے لئے ہیں ؛ تاکہ وہ گناہ چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کا راستہ اختیار کریں، جس میں ان کی کامیابی اور صلاح ہے اور بندہ کے لئے اپنے رب سے رُجوع کرنے کی سب سے قریبی حالت نماز ہی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے بھی زلزلہ کے موقع پر جماعت کے بغیر تنہا تنہا نماز پڑھنا ثابت ہے ؛ چنانچہ حنفیہ کے علاوہ شوافع اور حنابلہ بھی اس موقع پر نماز پڑھنے کے قائل ہیں ، (الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۲؍ ۳۹۷) – اس لئے اول تو دُعاء کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسی آزمائشوں سے حفاظت فرمائے ؛ لیکن اگر کبھی خدا نخواستہ ایسی نوبت آجائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رُجوع کرنا چاہئے ، کہ خدا کی طرف سے آنے والی آفتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔
ادھر زلزلہ کے واقعات کا تناسب بڑھتا جارہا ہے ، جاپان ، ترکی ، ایران اور امریکہ وغیرہ میں چار پانچ سال کے وقفہ سے ایسے تہلکہ خیز اور چشم ہائے بصیرت کے لئے عبرت انگیز زلزلہ کے واقعات سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے تصور سے بھی کلیجہ منھ کو آتا ہے ، ماضی میں عالم اسلام میں اس طرح کے جو بھیانک واقعات پیش آئے ہیں ، ۱۳۵۲ھ کے زلزلۂ بہار کے موقع سے مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ نے اس پر ایک نہایت ہی وقیع مقالہ سپرد قلم فرمایا تھا ، جس میں تاریخ الخلفاء ( تالیف : علامہ سیوطی) اوربعض دوسری کتابوں کے حوالہ سے ان واقعات کو یکجا کیا گیا ہے ، اس میں زلزلہ کے علاوہ دوسرے سماوی اور کائناتی حوادث کا بھی ذکر ہے، یہاں خاص زلزلہ کے متعلق واقعات کا ذکر مناسب ہوگا۔
٭۱۳۰ اور ۱۳۱ ھ میں دمشق میں نہایت تباہ کن زلزلہ آیا ۔
٭۱۸۰ھ میں مصر میں ایسا سخت زلزلہ آیا کہ اسکندریہ کا مستحکم مینارہ بھی منہدم ہوگیا ۔
٭۲۰۳ھ میں خراسان اور بلخ میں ایسا زلزلہ آیا کہ ان شہروں کی ایک چوتھائی آبادی نیست و نابود ہو گئی
٭ ۲۳۳ھ کے ہولناک زلزلہ میں انطاکیہ کا شہر تباہ ہو گیا اور موصل میں پچاس ہزار آدمی ہلاک ہو گئے ۔
٭ ۲۴۵ھ میں ایک عالمگیر زلزلہ آیا ، جس سے بڑے بڑے قلعے اور پل تباہ ہو گئے ، انطاکیہ کا ایک پہاڑ سمندر میں جاگرا اور مکہ معظمہ کی نہروں کا پانی خشک ہوگیا۔
٭ ۲۸۰ھ میں شام کے شہر دیبل میں ایسا زلزلہ آیا کہ صرف شکستہ مکانوں کے ملبہ سے ایک لاکھ پچاس ہزار لاشیں برآمد ہوئیں ۔
٭۳۴۴ھ میںمصرمیں ایک خوفناک زلزلہ آیا ، جس کا اثر تین گھنٹے تک جاری رہا ۔
٭ ۳۴۶ھ کو ایشائے کوچک کے علاقہ میں زلزلہ نے بڑی تباہی مچائی ، علاقۂ رے کے ڈیڑھ سو گاؤں زمین میں دھنس گئے ، طالقان کی آبادی لاکھوں میں تھی ، صرف تیس آدمی بچے ، زمینیں ایسی پھٹیں کہ مردوں کی ہڈیاں باہر نکل آئیں ۔
٭ ۴۸۰ھ کو رملہ میں ایسا زلزلہ آیا کہ کنوؤں کے منڈیروں سے پانی اُبل آیا اورپچیس ہزار آدمی ہلاک ہو گئے ۔
٭ ۵۲۹ھ کو بغداد اور اس کے مضافات میں تقریباً بیس دن طوفان ، بجلی اور زلزلوں کا سلسلہ رہا ۔
٭ ۵۳۳ھ میں بحتر نامی شہر زلزلہ میں زمین کے اندر دفن ہوگیا اور اس کی جگہ پانی کی ایک جھیل نمودار ہو گئی۔
٭ ۵۴۴ھ میں بغداد میں ایسا زلزلہ آیا کہ حلوان نامی جگہ کا ایک پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑا ۔
٭ ۱۰۰۴ھ کو جزیرۂ صقیلہ میں ایسا زلزلہ آیا کہ زمین پھٹی اور کئی نہریں نکل آئیں ، نیز تقریباً ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔
٭ ۱۰۰۹ھ میں ۱۴؍ اپریل کو قسطنطنیہ میں ایسا زلزلہ آیا ، جس کا اثر پینتالیس دنوں تک محسوس کیا گیا ، اس میں ایک سو نو مسجدیں بھی شہید ہوگئیں ۔
٭ ۱۱۱۱ھ کو جاوا میں ایسا زلزلہ آیا کہ پندرہ پہاڑ غرقاب ہو گئے ۔
٭ ۱۲۴۹ھ میں بہار اور نیپال کے علاقہ میں ایسا سخت زلزلہ آیا کہ نیپال کے پہاڑ پر ایک مندر تھا ، وہ پہاڑ مندر سمیت زمین میں دھنس گیا اور اس جگہ پانی کا تالاب بن گیا ، (ملخص از: مقالات سجاد:۵۷،۱۳۹) – خدا کی طرف سے یہ تنبیہ کے یہ چند نمونے ہیں ، جن کے نقوش تاریخ کی پیشانی پر محفوظ ہیں ؛ لیکن خدا ہی جانتا ہے کہ اس طرح کے کتنے واقعات اس کائنات میں پیش آتے ہوں گے ، چند سال پہلے لاتور اور عمرگہ کے علاقہ میں جوہولناک اوردل کو دہلا دینے والا حادثہ پیش آیا وہ تو گو یاکل کی بات ہے ؛ لیکن کیا قدرت کی ان تنبیہات کا ہمارے دل ودماغ نے بھی کوئی اثر لیا ہے ؟ اور ہماری عملی زندگی میں بھی اس کی وجہ سے کوئی تبدیلی آئی ہے ؟ ٭