مضامین

سماج کو سائنس اور سائنسی مزاج کی ضرورت

سائنسی مزاج کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ ایک عام آدمی کو سائنس کا علم ہو یا اس نے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو۔ سائنسی مزاج اصل میں اس فہم اور فکر کا نام ہے جس کے تحت عوام۔۔۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

سائنس وہ علم ہے جو انسانی زندگی میں مثبت اثرات پیدا کرتا ہے اور جس کو پانے کے لئے ایک دستور اور قاعدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے علم کی بنیاد عقلی دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ سائنس ایک جستجو کا بھی نام ہے وہ جستجو جس کا مقصد تلاش اور اختراع ہے۔

سائنس چونکہ ایک منظم منطقی طریقہ عمل ہے اسی لئے اکثر توہم پرست لوگ کسی انجانے خوف میں مبتلا ہوکر سائنس کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنی بات کو وزن دینے کے لئے سائنس کو مذہب کی ضد تصور کرتے ہیں۔ ہاں مذہب کے وہ عالم اور پیروکار جو اوہام پرستی اور دین حق میں فرق کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ نہ تو سائنس کے دشمن ہوتے ہیں اور نہ ہی سائنسی خیالات اور رجحانات کو اپنانے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔

پچھلے ڈھائی ہزار سال کی انسانی تاریخ سائنس اور اوہام پرستی کے درمیان ایک ایسی کشمکش کی تاریخ ہے جس میں چین سے لے کر یونان تک کے نہ جانے کتنے سائنسدانوں اور فلسفیوں کو زہر کے پیالے پینے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن انہوں نے نہ تو کبھی ہار مانی اور نہ ہی سائنسی فکر وعمل سے اپنا ناطہ توڑا۔

سائنسی مزاج کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ ایک عام آدمی کو سائنس کا علم ہو یا اس نے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو۔ سائنسی مزاج اصل میں اس فہم اور فکر کا نام ہے جس کے تحت عوام کسی ایسی تبدیلی کو اپنانے میں جھجھک محسوس نہ کریں جو سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر سماج کے لئے سود مند سمجھی گئی ہو۔

چیچک، تپ دق اور پیلیا جیسے مہلک امراض کے لئے جھاڑ پھونک کی جگہ نئی موثر دواؤں کے استعمال کو سائنسی رویہ کی ایک چھوٹی سی مثال کہا جاسکتا ہے۔ سائنس اور سائنسی شعور کامقصد اور مدعا اصل میں سماج سے غریبی کو دور کرنا ہے۔ مذہب کے نام پر نفرت پھیلا کر اقتصادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے سے روکنا ہے، اوہام پرستی  کے نقصانات سے بھولے بھالے عوام کو باخبر کرنا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سائنس میں خیر بھی ہے اور شر بھی۔ خیر اس لئے کہ بہت سے سائنسی انکشافات وایجادات نے انسانوں کو بے پناہ فائدے پہنچائے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں آرام وآسائش کے لئے سہولیات فراہم کی ہیں۔ مہلک وباؤں اور بیماریوں سے نجات دلائی ہے۔

شر اس لئے کہ سائنس نے انسانی ہلاکتوں کے لئے ظلم واستبداد روا رکھنے کے لئے مہلک ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ گویا ایک طرف تو سائنس نے خیر کا پہلو اختیار کیا تودوسری جانب شر کا راستہ اپنایا۔

بادی النظر میں یہ خیال درست معلوم پڑتا ہے اور سائنس کے خیر کے پہلو کی بہ نسبت اس کے شر کے پہلو پر ناگواری کا اظہار ایک قدرتی ردعمل محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ سائنس کی کامرانیوں کاتجزیہ کریں اور سائنسدانوں کے مقصد تحقیق کا مطالعہ کریں تو خیر وشر کا مفروضہ بے معنی نظر آئے گا۔ سچائی صرف اتنی ہے کہ جب تک انسان حق کے راستے پر گامزن رہا تو اس نے سائنس کا استعمال سماجی بہبود کے لئے کیا اور جب وہ حق کے راستے سے بہک گیا اور اس کا مقصد سماج کا استحصال ہوگیا تو اس نے سائنس کا استعمال اپنی طاقت وقوت بڑھانے کے لئے کیا تاکہ وہ جبر کی حکومت کر سکے۔

مثال کے طور پر سائنس نے ایٹم کو توڑ کر اس کی بے پناہ طاقت کا انکشاف کیا تو اسی طاقت سے ایک جانب بجلی بنانے کے کارخانے قائم ہوئے اور دوسری جانب یہی طاقت ایٹم بم کا ذریعہ بنی۔ یہ دونوں کام خود حضرتِ انسان نے کئے۔

وہ انسان جو حکومتوں کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں، ان لوگوں نے ایٹم کااستعمال بجائے فلاح کے، بربادیٔ دنیا کے لئے کیا تو اس میں سائنس کا کیا دوش؟ اس میں شرکا پہلو کیوں کر ہوا؟ شر تو ان دماغوں میں تھا جو ہیروشیما اور ناگاساکی کی ہلاکتوں پر شرمسار نہ ہوئے۔

سائنس کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو یہ سچائی واضح ہوجائے گی کہ سائنسداں کا مقصد ایجاد وانکشاف اور ہمیشہ رموز قدرت سے پردہ اٹھانا ہی رہا ہے۔ جو کائنات انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے اس کی تسخیر ہی مقصد ایجاد کہی جا سکتی ہے۔ اب اگر انسان اپنے نفس پر قابو نہ پاتے ہوئے سائنسی ایجاد کا استعمال، تسخیر دنیا کے لئے نہیں بلکہ استحصال سماج کے لئے کرتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ قدرت کے احکام سے منحرف ہوگیا ہے۔

دنیا کے مشہور عالموں اور دانشوروں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انسان کی پیدائش کامقصد تسخیر نفس کے ساتھ تسخیر دنیا بھی ہے۔ تسخیر نفس کے لئے اسے دین کی ضرورت ہوتی ہے تو تسخیر دنیا کے لئے سائنس کی مدد درکار ہوتی ہے۔ بغیر سائنس کی مدد کے کوئی بھی قوم ترقی پذیر اور پھر ترقی یافتہ نہیں بن سکتی اور نہ ہی وہ نئی ارتقائی منزلوں کا پتہ لگا سکتی ہے۔

ایٹم کی طاقت کی طرح دنیا کی بیشتر ایجادات کو اچھے اور برے لوگوں نے بالترتیب اچھے اور برے کاموں میں استعمال کیا ہے۔ بندوق ایجاد ہوئی تو بعض نے اسے اپنی حفاظت کے لئے کام میں لیا تو دوسرے بے رحم ہاتھوں نے اس سے معصوم جانیں لیں۔ ان ہی ہتھیاروں کی مدد سے ملک وملت کے جانباز سپاہیوں نے اپنے علاقوں کی حفاظت کی تو یہی ہتھیار قوموں کو غلام بنانے کا ذریعہ بنے۔

سائنس اور سائنسی مزاج کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ ایک عام آدمی کو سائنس کا علم ہو اوراس نے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو۔ سائنسی مزاج کا مفہوم یہ ہے کہ عوام خواہ تعلیم یافتہ ہوں یا عرف عام میں ناخواندہ، وہ کسی تبدیلی کو اپنانے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ خاص طور سے وہ تبدیلیاں جو سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر سود مند اور سماج کے لئے ضروری سمجھی گئی ہوں۔ سائنسی مزاج کے عام ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ اوہام پرستی ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ توہم پرستی سائنسی مزاج کی ضد ہے اور ہماری سماجی ومعاشی ترقی میں حائل ہوتی ہے۔

پچھلی دو یا تین دہائیوں میں ہندوستان سے چیچک اور طاعون جیسی بھیانک وباؤں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ سائنس کا بڑا کارنامہ ہے لیکن ان وباؤں کے ختم کرنے میں بڑے جتن کرنے پڑے ہیں۔ ٹیکہ لگانے میں عوامی غصہ اور عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پولیو کے خاتمے کی مہم میں حکومت وقت کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

وبائیں تو وبائیں ہیں۔ زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں اور کھاد کا چلن عام کرنے میں حکومت کی مشنری کو رکاوٹ کا سامنا ہوا ہے۔ سگریٹ نوشی اورجنسی بے راہ روی، کینسر اور ایڈز جیسی بیماریاں پیدا کرتے ہیں لیکن لوگ ان پر دھیان دینا پسند نہیں کرتے، غرضیکہ کتنے ہی عوامی مسائل ہیں جن کا حل سائنس کے توسط سے ہوسکتا ہے لیکن سائنسی مزاج نہ ہونے کے سبب ایسا نہیں ہو پاتا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر سماج میں سائنسی رویہ پیدا کریں۔

سائنسی مزاج کی کمی ہمارے معاشرہ کے لئے مضرت رساں ہے۔ اس صورت حال کا جاری رہنا ہمارے عوام کے لئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر آج ہم سب نے مل کر اس مسئلہ پر مثبت قدم نہ اٹھائے اور سائنسی رویہ کو عام کرنے میں ناکام رہے، سائنس کو ایک عام آدمی کے دروازے تک نہ لے جاسکے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔

کسی بھی ملک وملت کی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہاں سائنسی ترقی کے مدارج کیا ہیں۔ جو قومیں سائنسی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتی جاتی ہیں، وہ دنیا میں عزت کا مقام رکھتی ہیں اور جو قومیں سائنسی مشاغل سے بے توجہی برتتی ہیں وہ معاشی اعتبار سے کمزور ہوکر ذلیل وخوار ہوتی ہیں اور دنیا کے نقشہ پر دھندلی نظر آتی ہیں۔ قوموں کی مفلسی، لاچاری، پست ہمتی، بیماری اور غلامی کا براہ راست تعلق سائنس اور ٹکنالوجی کی پیش رفت سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا دین ومذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں، اس دنیا میں انفرادی یا اجتماعی عزت پانے کے لئے عصری علوم پر قدرت  پانا لازمی ہے۔

 کسی قوم کو کلیتاً آزادی اسی وقت ملتی ہے جب اس کے معاشرہ سے جہالت اور غریبی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ غریب قومیں آزاد نہیں رہ پاتی ہیں۔ فرسودہ رسم ورواج کو چھوڑنا اور سائنس کو اپنی تہذیبی وراثت سمجھنا ہی قوموں کو عزت کا مقام دلا سکتا ہے۔

موجودہ یعنی اکیسویں صدی میں دنیا نہایت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ طاقتور ملک، کمزور ممالک کا معاشی استحصال کرنے کے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ وہ Colonization کو نئی شکل دینے کے درپے ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے بڑی دانشمندی درکار ہے، جنگی صف آرائی اور مذہبی و تہذیبی ٹکراؤ تو صرف تباہی وبربادی لا سکتا ہے، یہ مسئلہ کا حل قطعاً نہیں ہے۔ شدت پسندی، احتجاجی جلسے اور جلوس، جوشیلی تقریریں مذہبی ومسلکی برتری کے دعوے، ماضی کی کامرانیوں پر فخریہ تبصرے سب بے سود ہیں۔ اقبال نے کہا تھا  :

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا؛

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

مسئلہ کا حل علمی برتری حاصل کرنے میں ہے۔ قومی و ملی وقار پانے کے لئے لازم ہے کہ علم بہ معنی سائنس کے حصول کے لئے اس طرح سرگرداں رہا جائے جیسے کہ وہ ہماری ہی کھوئی دولت ہے اور ہم اس کے وارث ہیں۔

عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں؛

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

اقبال کا یہ شعر سائنسی مزاج کا مفہوم بھی بیان کرتا ہے اور اس سرزمین کی ترقی اور خوشحالی کی عروجِ آدم خاکی سے تعبیربھی کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے سائنسی مزاج کو اپنا کر اس ٹوٹے ہوئے تارے کو مہِ کامل بنانے کی کوشش کی وہ سرخ رو ہوئیں اور برخلاف اس کے جن قوموں میں جمود پیدا ہوگیا اور جو نئے سائنسی تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر رہیں وہ یا تو ذلیل وخوار ہوئیں یا پھر ایسی فراموش کردی گئیں کہ تاریخ کے صفحات میں ان کے تذکرے یک لخت بند ہوگئے۔

کسی بھی ملک وقوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ ان کے عروج وزوال کا رشتہ براہ راست ان کے سائنسی رویہ کے بھرپور احساسات یا اس کے فقدان سے جڑا ہوا ہے۔ جن قوموں نے خدا کی اس کائنات کے اسرار کو جاننا چاہا، مشاہدہ کے لئے بیتاب رہیں وہ ترقی خوشحالی اور امن کی طرف قدم بڑھاتی رہیں لیکن جن قوموں نے نظامِ قدرت کے رموز سے خوف زدہ ہوکر اوہام پرستی اوراندھ وشواس کا راستہ اختیار کیا اور علم وتحقیق کو گناہ سمجھا وہ قعر مذلت میں جا گریں۔

جن قوموں میں دین ومذہب کے نام پر عوام کا استحصال کیا گیا وہ پستی کی جانب گرتی رہیں۔ اندھیرا ان کا مقدر بن گیا، لیکن جن قوموں نے جستجو اور خدمت خلق کو دین کا حصہ مانا وہ بلند سے بلند تر ہوکر روشنی پاتی رہیں۔ ایک سچائی اور بھی ہے، وہ یہ کہ غیر حقیقی اور غیر سائنسی رویہ پر ہمیشہ حقیقی اور سائنسی رویہ کی فتح ضرور ہوتی رہی ہے۔ اس فتح کو کبھی برائی پر سچائی کی جیت کہا گیا تو کبھی اسے بے دینی پر دین کی فتح کی کامیابی سے تعبیر کیا گیا لیکن ہاں واضح رہے کہ :

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی؛

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

یاد رکھئے کہ سماجی اور ملکی حالات اسی وقت بہتری کی جانب موڑ لیتے ہیں جب کہ افرادِ ملک و قوم میں احساس جاگتا ہے علم کا، عمل کا، یقین کا، خلوص کا اور دین حق کا۔ اور یہ سارے احساسات اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب عوام سائنسی فکر کو اپناتے ہیں۔ جوش پر انحصار نہ کرتے ہوئے ہوش سے کام لیتے ہیں۔ جہل کا مقابلہ علم سے کرتے ہیں۔ نفرت وعداوت کا مقابلہ شرافت نفس سے کرتے ہیں۔ توہم پرستی کا مقابلہ دینِ حقیقی سے کرتے ہیں۔ بدی کا مقابلہ نیکی سے کرتے ہیں۔ اور یہی ہے سائنسی مزاج، سائنسی رویہ، سائنسی شعور اور سائنسی طرز فکر اور سائنٹفک ٹمپر (Scientific Temper) ہے جس کی بابت  ہندوستان کا آئین مندرجہ ذیل الفاظ میں ہر شہری کو حکم دیتا ہے؛

It shall be the duty of every citizen of India to develop Scientific Temper, Humanism and the spirit of Inquiry and Reform. (Indian Constitution, Part IV A Article 51A (h)

ترجمہ۔ ہندوستان کے ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ سائنسی مزاج، انسان دوستی اور تحقیقات اور اصلاح کے جذبہ کو پروان چڑھائے۔

ہندوستانی قانون کے اس حکم کی پابندی ہم سب پر لازم ہے کیونکہ سائنسی مزاج کی کمی ہمارے سماج اور ملک کے لئے مضرت رساں ہے۔ اس صورت حال کا جاری رہنا ہمارے عوام کے لئے نقصان دہ ہے۔ اگر آج ہم سب نے مل کر اس مسئلہ پر مثبت قدم نہ اٹھائے اور سائنسی رویہ کو عام کرنے میں ناکام رہے، سائنس کوایک عام آدمی کے دروازے تک نہ لے جاسکے تو ملک کی ترقی کی رفتار میں کمی آجائے گی اور اگر ہم نے سائنسی شعور کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تو یقینا شاعر پکار اٹھے گا  :

یہ شام وسحر، یہ شمس وقمر، یہ اختر و کوکب اپنے ہیں؛

یہ لوح وقلم، یہ طبل وعلم، یہ مال وحشم سب اپنے ہیں