سیاستمضامین

سپریم کورٹ اور وزیرِ قانون(مرکزی حکومت) میں اختلافات عروج پرججوں کے تقرر کرنے والی کمیٹی (کالیجیم) میں حکومت اپنی نمائندگی چاہتی ہے

٭ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھار ہورہی ہے۔ ٭ ایسی بحرانی صورت اب تک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ٭ نائب صدر جمہوریہ نصف صدی قبل صادر فیصلے پر تنقید کررہے ہیں۔ ٭ ججوں کے تقرر کے بارے میں وزیرِ قانون چیف جسٹس کے نام مکتوب روانہ کررہے ہیں۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

زعفرانی مرکزی حکومت ملک کی عدلیہ اور صحافت(الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا) پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہ رہی ہے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ ایک بات یاددلانے کے لائق ہے کہ 2002ء کے گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے دوران جب بی بی سی کے ایک نمائندے نے اس وقت کے گجرات ریاست کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی سے سوال کیا تھا کہ آپ ریاست میں حالات کو درست کرنے کے لئے کیا اقدام کرنا چاہتے ہیں تو جواب ملا تھا کہ تم انگریز لوگ ابھی تک سمجھ نہیں پائے ہو کہ ہندوستان دراصل کیا ہے اور ہندوستان کے کیا مسائل ہیں۔ اگر مجھے ملک میں اقتدار حاصل ہو تو میں سب سے پہلے ملک میں صحافت پر کنٹرول حاصل کروں گا اور صحافت کو بتاؤں گا کہ ان کی حد کیا ہے۔ میں حکومتی معاملات میں صحافت کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا۔
آج ملک میں وہی حالات ہیں جو جرمنی میں1933ء اور1945ء کے وقفہ میں تھے۔ نازی پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی سارے جرمنی میں عدلیہ کے سربراہوں کو صحافت کے نمائندوں کو طلب کرکے حکم دیا گیا کہ کوئی بھی فیصلہ یا تبصرہ حکومت کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ صحافت کے نمائندوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی حد میں رہیں اور وہی خبریں شائع کریں جن کی قبل از وقت منظوری حاصل کرلی گئی ہو۔
جرمنی کے وزیرِ پروپیگنڈہ گوبلس کو کھلی چھوٹ دیدی گئی تھی وہ جو خبر بھی چاہے ریڈیو جرمنی سے نشر کرے۔ اس طرح صحافت اور عدلیہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا گیا اور اخباروں اور ریڈیو کو حکم دیا گیا کہ وہ صرف اور صرف وہی خبریں شائع کریں جو حکومت کی پالیسی کے مطابق ہوں اور اگر اس حکم کی تعمیل نہیں کی گئی تو اخبار اور ریڈیو پر حکومت کنٹرول حاصل کرلے گی۔
آج ہندوستان میں بھی وہی ہورہا ہے جو نازی حکومت کے دوران جرمنی میں ہوتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زعفرانی حکومت نازی جرمنی کے فلسفہ کے مطابق عمل کررہی ہے۔ تمام ٹیلی ویژن چیانلس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی خبر شائع نہ کریں جو حکومت کے مفاد کے خلاف ہو۔ ہندوستان میں پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا مکمل طورپر مرکزی حکومت کا تابعدار بن چکا ہے اور حکومت کی تعریف میں ہی خبریں شائع کرتا ہے۔
اب صرف عدلیہ ہی وہ کانٹا ہے جس کی چبھن حکومت محسوس کررہی ہے ۔ 2016ء میں سپریم کورٹ کے ایک دستوری بنچ نے نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ ایکٹ کو کالعدم قراردیا تھا جس میں ججوں کا تقرر کرنے والی کمیٹی میں تین حکومتی نمائندوں کی شمولیت لازمی تھی اور ان میں ایک ایسا رکن ہوسکتا تھا جس کو VETO کرنے کے اختیارات حاصل تھے ۔ یعنی اگر تمام ارکان ایک جج کا تقرر کرنے پر راضی ہوں بھی تو اس وزیراعظم کے نامزد رکن کو اختیار حاصل تھا کہ وہ تمام اراکین کی رائے کو کالعدم قراردے سکتا تھا۔ اس وزیراعظم کے نامزد رکن کی تعلیمی قابلیت کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس ویٹو پاور کے حامل رکن کو صرف وزیراعظم ہی مقررکرسکتے تھے‘ جو ان کی نظر میں بہت قابل (EMINENT) تھا۔ اس قانون کو سپریم کورٹ نے کالعدم قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون ملک کے نظامِ عدل کو متزلزل کرسکتا ہے لہٰذا ملک کو ایسے قانون کی ضرورت نہیں۔
موجودہ زعفرانی حکومت اس فیصلے سے برانگیختہ ہوگئی اور راست طور پر عدلیہ پر حملہ آور ہوئی ‘ سپریم کورٹ کے کالیجیم کی جانب سے سفارش کردہ امیدواروں کی لسٹ واپس کردی گئی اور ججوں کے تقرر کا مسئلہ برسوں تک جوں کا توں موقف میں رہا۔
جہاں ہائیکورٹ کے ججس کا تقرر ایک مسئلہ ہے وہیں ان کی عہدہ سے برخواستگی بھی بڑا سنگین مسئلہ ہے۔ ہائیکورٹ جج کا تقرر صدرِ جمہوریہ کرتے ہیں لیکن ان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی تقرر شدہ جج کو ملازمت سے برطرف کردیں کیوں کہ یہ ایک دستوری عہدہ ہے اور اگر کوئی جج اپنے عہدہ پر تقرر کا اہل نہ ہو یا اس نے کوئی ایسی غلطی کی ہو جو کسی تادیبی کارروائی کا باعث بن سکتی ہو تو ایسی صورت میں ایک مکمل انکوائری اور اس کی رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد اس مسئلہ کو پارلیمنٹ دوتہائی اکثریت سے اس جج کو (IMPEACH) کرسکتی ہے ۔ گویا کسی جج کو اس کے عہدہ سے ہٹانے کے لئے بعد تادیبی کارروائی دوتہائی اکثریت پارلیمنٹ میں ضروری ہے۔
ججوں کے تقرر کے لئے سپریم کورٹ کالیجیم ذمہ دار ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینئر ججوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ججوں کی لیاقت کو ججس ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ اگر اس کمیٹی میں سرکاری نمائندوں کوشامل کرلیا جائے تو یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ ایک ڈاکٹر کی لیاقت کا امتحان کوئی انجینئر لے۔ اسی لئے سپریم کورٹ اپنے فیصلہ پر اٹل ہے جس کی وجہ سے وزیر قانون اور نائب صدر جمہوریہ برہم ہوگئے ہیں اور اول فول بکنے لگے ہیں۔ آج ایک ایسی صورت پیدا ہورہی ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ اور عاملہ باہم الجھ پڑے ہیں اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ صورت ایک صحت مند ماحول کے لئے ناسازگار ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے ایک اجتماع میں کہا کہ اگر حکومت کے پسندیدہ کوئی ایڈوکیٹ کو جج بنادیا جائے اور اگر بعد میں اس کی لیاقت کا بھانڈہ پھوٹ جائے اور وہ خلافِ دستور و قانون فیصلے صادر کرنا شروع کردے تو ایسی صورت میں ذمہ داری کیا حکومت پر عائد کی جائے گی یا ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر ۔ جن کے پاس ججوں کی لیاقت کو پرکھنے کی کسوٹی ہے۔ اگر ایسی صورت پیدا ہو تو حکومت اپنا پلّہ جھاڑ لے گی۔ ایسی صورت میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو ہی ایک نااہل جج کے تقرر کیلئے ذمہ دار قراردیا جائے گا۔
حکومت میں سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کے بارے میں مداخلت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ موجودہ حکومت ایسے امیدواروں کا تقرر کرنا چاہتی ہے جو زعفرانی ذہنیت کے حامل ہوں اور حکوموت کے ہر اقدام کو جائز قراردیں۔ اگر ایسی صورت پیدا ہو تو جمہوریت کے چاروں ستون یعنی عاملہ‘ مقننہ ‘ عدلیہ اور صحافت تمام حکومت کی گرفت میں ہوں گے اور کوئی بھی حکومت کے کسی بھی غلط اقدام کے خلاف نہ کچھ کرسکے گا ‘ نہ لکھ سکے گا اور نہ ہی کہہ سکے گا۔ ملک کچھ چنندہ لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا اور یقینی طور پر یہ بات کہی جاسکے گی کہ ہم ایک (OLIGARCHY) میں رہتے ہیں ۔ وہ دن دور نہیں جب صحافت کہے گی۔
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبالؒ
عجیب سوال۔ تباہ کن ارادے
جواب:- آپ نے سوال کیا ہے کہ آپ کے صاحبزادہ جن کی عمر بیس سال بھی نہیں ہوئی ہے اور انہوں نے بی۔کام کیا ہے ایک ایسی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے ہیں جس کی عمر ابھی سولہ سال نہیں ہوئی ہے اور اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے ۔ آپ نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر قائم ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ اس لڑکی کے والدین بھی اس رشتہ سے راضی ہیں۔ لڑکے نے ضد کی ہے کہ اگر اس کی شادی اس لڑکی کے ساتھ نہیں کی گئی تو وہ خود اس سے شادی کرلے گا۔ قانون کے مطابق لڑکی ابھی نابالغ ہے۔ اگر آپ کے لڑکے کی ضد قائم رہی اور اس نے وہ خطرناک اقدام کردیا جس کی اس نے دھمکی دی ہے تو پہلی بات یہ کہ وہ شادی غیر قانونی ہوگی چاہے لڑکی کے والدین راضی ہوں یا نہ ہوں۔ ہماری رائے میں آپ کے بے وقوف لڑکے کو زبردست تنبیہ کی ضرورت ہے۔ اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اس لڑکی کے والدین آپ کو بلیک میل کرنا شروع کردیں گے کیوں کہ آپ کافی دولت مند ہیں اور صاحبِ جائیداد بھی ۔ اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کے لڑکے کو (POCSO) قانون میں گرفتار کروایا جاسکتا ہے چاہے اس کا نکاح ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی نادان ایسی حرکت کربیٹھے تو زندگی برباد ہوجائے گی کیوں کہ (POCSO) مقدمات میں کم از کم دس سال جیل کی سزا ہوسکتی ہے۔
اپنے لڑکے پر سختی کیجئے ۔ والدہ کے لاڈ پیار کی وجہ سے یہ صورت آج پیدا ہوئی کہ بدمعاش و بدقماش لڑکوں کی صحبت میں آپ کا لڑکا یہاں تک پہنچ گیا کہ آپ کی جان وعزت پر بن آسکے گی اور آپ کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہونا پڑے گا۔
اگر وہ راہِ راست پر نہیں آتا تو اس سے بالکل بے تعلق ہوجائیے یہاں تک کہ اسے گھر سے نکال باہر کردیجئے۔ اسے ایک ایک پیسے کے لئے محتاج کردیجئے۔ وہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔
آپ کو اپنی اہلیہ پر بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ انہی کے لا و پیار نے آپ کو یہ دن دکھایا۔
ہر طرح کی کوشش کرکے اسے راہِ راست پر لانے کی کوشش کیجئے اور اگر یہ بھوت اس کے سر سے اتر جاتا ہے تو جلد از جلد اس نالائق کی کسی اچھی لڑکی سے شادی کردیجئے۔
جائیداد کی بذریعۂ ہبہ بیٹوں‘ بیٹیوں میں تقسیم
سوال:- میری آبائی جائیداد ہے جو دو مکانوں اور دو دوکانات پر مشتمل ہے ۔ ایک مکان میں رہائش پذیر ہوں اور دوسرے مکان کے چھ فلیٹس کو کرایہ پر اٹھاچکا ہوں۔ دو دوکانوں میں کرایہ دار ہیں جہاں سے کرایہ آتا ہے۔
مجھے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی ساری جائیداد اپنے بچوں میں وصیت کے ذریعہ تقسیم کردوں۔ گفٹ رجسٹری کی رجسٹریشن فیس کئی لاکھ روپیہ ہوگی جو فی الوقت ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہوں۔
اگر میں اپنی جائیداد ۔ دو اور ایک کی نسبت میں تقسیم کردوں تو کیا وصیت کو رجسٹر کروانے کی ضرورت ہوگی اور اس وصیت کا عمل میری زندگی کے بعد ہی ہوگا ۔ آپ کی قیمتی رائے کی اشاعت کی درخواست کی جاتی ہے۔
ایم۔اے۔احمد
مانصاحب ٹینک۔ حیدرآباد
جواب:- آپ اپنی اولاد کے حق میں وصیت نہیں کرسکتے البتہ آپ بذریعۂ ہبہ میمورنڈم اپنی جائیدادوں کو اپنے بچوں میں جیسے بھی آپ چاہیں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس عمل میں رجسٹریشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بہت سارے لوگ آج کل اسی طریقہ سے اپنی جائیدادیں اپنی اولاد میں تقسیم کررہے ہیں۔ آپ اس عمل میں دیر مت لگائیے۔ دو خونخوار قوانین سرپر تلوار بن کر لٹک رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ قوانین کی تلوار سرپر گرے‘ کچھ کرلیجئے۔