سیاستمضامین

کیا بی بی سی نے دستاویزی فلم بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائی ہے؟

محمد غزالی خان

بہت سے تبصروں کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ تبصرہ یہ پڑھنے کو ملا ہے کہ گجرات مسلم کشی ۲۰۰۲ پر بی بی سی نے دستاویزی فلم آر ایس ایس کے کہنے پر تیار کی ہے تاکہ آنے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
کاش انسانی معاملات اتنے ہی آسان ہوتے جتنا ہم انہیں سمجھتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ نہ کرے جس دن آر ایس اتنی طاقت ور ہوگئی کہ حکومتِ برطانیہ یا یہاں کے اداروں پر اثرانداز ہوسکے تو اس دن بین الاقوامی دباؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ ہندوستان میں ایسا خون خرابہ کرے گی کہ اس کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا۔ (اللہ ایسے منحوس دن سے ہمیشہ محفوظ رکھے) ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ان کے نزدیک ہٹلر نے ’نسلی صفائی‘ کا ایک سبق چھوڑا ہوا ہے۔
یہ سوال بہرحال اپنی جگہ ہے کہ بی بی سی نے یہ فلم کیوں بنائی؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ بی بی سی نیم خود مختارادارہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ برطانیہ کی بین الاقوامی سیاست کی حد تک یہاں کا کوئی بھی ادارہ یا اخبار آزاد نہیں۔ برطانیہ میں مراعات یافتہ صحافیوں کی ایک خاص قسم ہے جنھیں ’لابی کراسپانڈینٹ‘کہا جاتا ہے۔ لابی کراسپانڈینٹس مختلف اخباروں اور اداروں کے ساتھ کام کرنے والے صحافی ہوتے ہیں مگر انہیں خاص طور پر وزارت خارجہ میں بلا کر بتایا جاتا ہے کہ وہ کسی ملک پر کی جانے والی تنقید میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔ ان سب کو ان ہدایات پر سختی سے عمل کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں یہ تصور کرنا کہ حکومتی پالیسی کو نظرانداز کرتے ہوئے بی بی سی نے آر ایس ایس کے کہنے پر اتنی حساس فلم تیار کی ہوگی، معصوم فکر کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتی۔
مگرپھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت نے یہ فلم کیوں بننے دی؟ اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جو بی بی سی نے ۲۰۰۲ میں رپورٹ نہ کی ہو یا جو اس وقت ہندوستانی اور عالمی میڈیا میں نہ آئی ہو۔ بی بی سی کے اس دعوے کے باوجود کہ ’خفیہ دستاویز‘پہلی بار منظرعام پر آئی ہے، ۲۵ اپریل ۲۰۰۲ کو ادارے کے ویب سائٹ پر رپورٹ کے اقتباسات پر مشتمل ایک مفصل رپورٹ شائع ہوچکی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے میں اس کا لنک بھی ذیل میں دے رہا ہوں۔
اس خفیہ رپورٹ جسے اس وقت بی بی سے نے ’لیک شدہ‘رپورٹ بتایا تھا، کو مرتب کروانے میں اس وقت کے وزیرخارجہ جیک اسٹرا نے خاص طورپر دلچسپی لی تھی جن کے حلقہ انتخاب میں گجراتی مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی سیاست داں کی طرح جیک اسٹرا کو بھی اپنے ووٹ پکے کرنے تھے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے خود وائر کے لئے کرن تھاپر کو دئے گئے حالیہ انٹریو میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ لیبر پیئر، مرحوم لارڈ آدم پٹیل سے جیک اسٹرا کے نزدیکی تعلقات تھے، یہاں تک کہ سالوں پہلے اپنی شادی کے بعد جب وہ ہندوستان گئے تو کئی دن آدم پٹیل صاحب کے آبائی گھر پر قیام کیا تھا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ بعد میں لارڈ آدم پٹیل خود نریندرمودی سے ہاتھ ملانے پہنچ گئے تھے۔ اس پر ملی گزٹ کے ویب سائٹ پر میرا مفصل مضمون بعنوان Supporting Modi: Economic interests overshadow quest for justice موجود ہے۔ لابی کراسپانڈینٹس کی مجبوری اورحد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون برطانیہ کے ایک مسلم اخبار کے لئے اس کے مدیر کے کہنے پر لکھا گیا تھا۔ (مدیرصاحب، جو میرے اچھے دوست بھی ہیں، شاید پہلے غیر سیاہ فام صحافی ہیں جو لابی کراسپانڈینٹ بھی ہیں۔) مگر جب مدیر صاحب نے مضمون پڑھا تو انہیں اپنے پر جلتے ہوئے محسوس ہوئے۔ لہٰذا یہ مضمون ملی گزٹ میں شائع کرایا گیا۔
ان سب باتوں سے ہٹ کریہ بھی ذہن میں رہے کہ مسلمانوں کی طرح ہندوستان میں عیسائی بھی ہندوتوا تشدد کا شکار ہیں؛ مگر مذہب کے نام پر ان کے انسانی حقوق کی بات کی گئی تو اس سے برطانیہ کی نام نہاد لبرل اپروچ زد میں آتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنے سے انسانیت پرستی کا علم بھی بلند ہوجاتا ہے اور ہندوتوا حکومت پر بھی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومتیں جب آپس میں معاملات کرتی ہیں تو سفارتی تقاضوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے ایک دوسرے کو زیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتیں۔ آنے والی جی ۲۰ میٹنگ میں عوامی نظروں سے دور ہندوستان کا ہاتھ مروڑنے کے لئے انسانی حقوق کا حوالہ دے کر بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اورسفارتی انداز میں دھمکی بھی دی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں کی ہمدردی میں یہ فلم بالکل نہیں بنی۔ یہ بالکل ویسا ہی قدم ہے جیسے امریکہ بہادر فلسطین میں خواتین پر اسرائیلی مظالم پر ایک لفظ نہیں کہے گا البتہ افغانستان میں حقوق نسواں کی پامالی پر دن رات گھلا جارہا ہے۔ یا مقبوضہ فلسطین سمیت دنیا بھر میں خود انسانی حقوق کی پامالی کی حمایت میں کسی سے کم نہیں؛ مگر یوغور مسلمانوں کی مظلومیت پر مسلسل آنسو بہارہا ہے۔