مضامین

سیاسی قیادت کی غفلت اور ماحولیاتی خطرات!

وند ِتا مشرا

اروند کجریوال تقریباً 8 سال سے دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس دوران انہیں اپوزیشن کے نام پر کسی سے مقابلہ کی ضرورت نہیں پڑی۔ کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اس کی کرسی خطرے میں ہے۔ اس دوران 8 سردیاں گزر گئیں اور تقریباً ہر موسم سرما میں دہلی میں آلودگی کی صورتحال بگڑتی رہی۔ سال در سال گزرتے گئے اور ملک کے لیے ”نئی قسم کی سیاست“ کرنے کا دعویٰ کرنے والے اروند کجریوال ہمیشہ ان ہی پرانے بہانوں کے بھروسے دہلی کے عوام کو مفت کی بجلی اور پانی کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کی بیماری بھی مفت میں عطا کرنے کے لیے اپنی بے عملی کو تعاون دیتے رہے۔
2022 کا موسم سرما بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سب جانتے تھے کہ پہلے دیوالی میں فضائی آلودگی بڑھے گی اور اس کے بعد بڑھنے والی سردی فضائی آلودگی میں اضافہ کرتی رہے گی۔ پچھلے سال تک، ہمیشہ کی طرح، سی ایم کجریوال کے پاس پنجاب کی کانگریس حکومت پر پرالی جلانے کو روکنے میں ناکام ہونے کا الزام لگانے کا موقع تھا، جو اس بار ہاتھ سے نکل گیا کیوں کہ پنجاب کے لوگوں نے وہاں اکثریت کے ساتھ عام آدمی پارٹی کی حکومت قائم کردی۔
جب انہیں عوام کی طرف سے حاصل اکثریت اور اعتماد کا مفید استعمال کرتے ہوئے آنے والے موسم سرما سے دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں پھیلنے والی فضائی آلودگی کور وکنے کے لیے پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تھا تب وہ اور ان کے پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان گجرات میں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ شاید گجرات جیتنا پہلے سے جیتے ہوئے دہلی کو آستھما اور پھیپھڑوں کے کینسر جیسی بیماریوں سے بچانے سے زیادہ ضروری تھا۔ شاید یہی سچ ہے اس لیے تو چیف منسٹر کجریوال گجرات میں ریالیاں اور جلسے کرتے رہے۔ اور اب دہلی میں آلودگی کی صورت حال سب سے بدتر ہوگئی تب انہیں یاد آیا کہ وہ دہلی کے چیف منسٹر ہیں اور تب جاکر انہوں نے پریس کانفرنس کرکے اسکول بند کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے ملک کے دیگر حصوں میں PM2.5 کے ذرات اور دیگر فضائی آلودگی کے اعداد و شمار میڈیا کو سناتے رہے تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ آلودگی پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ صرف دہلی کا مسئلہ نہیں ہے۔ امریکہ میں قائم ہیلتھ ایفیکٹس انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ اگست 2022 میں جاری کردہ اسٹیٹ آف گلوبل ایئر رپورٹ 2022 میں کہا گیا ہے کہ دہلی گزشتہ 10 سالوں سے دنیا کا سب سے آلودہ شہر (PM2.5 کے لحاظ سے) رہا ہے۔ اروند کجریوال ان 10 سالوں میں سے زیادہ تر دہلی کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔
ملک بھر کے شہروں کے اعداد و شمار گنانے سے دہلی کے وزیر اعلیٰ کی اپنی نااہلی کم نہیں ہوسکے گی۔ CSE کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تقریباً 33% مقامی ذرائع دہلی میں فضائی آلودگی کی صورتحال کے لیے ذمہ دار ہیں۔ مقامی ذرائع میں گاڑیوں سے ہونے والے اخراج نے دہلی میں پی ایم 2.5 کی بڑھتی ہوئی سطح میں تقریباً 51 فیصد حصہ ڈالا ہے۔ دہلی کے مقامی ذرائع سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے لیے کیا کارروائی کی گئی؟ جب پورا شہر دھند میں ڈوبا ہوا تھا تب جاکر پریس کانفرنس کیوں یاد آئی؟ یہ کسی بھی طرح ”نئی سیاست“ نہیں ہے۔ یہ پرانی سیاست کا بدتر ورژن ہے جسے پہنچاننے کی ضرورت ہے۔ دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) مسلسل کئی دنوں سے ”سنگین“ بنا ہوا ہے، اس لیے اسکول بند کرنے کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے، لیکن چوبیسوں گھنٹے انتخابی سیاست میں لگے رہنا، پہلے سے جیتی ہوئی ریاستوں میں انتظامیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے قرون وسطی کے جنگجوﺅں کی طرح ریاست در ریاست جیتنے کی کوشش شخصی اور پارٹی کو فائدہ تو پہنچاسکتی لیکن ایسی حکمت عملی سے عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا رہا ہے اور آگے بھی ہوگا۔
چوں کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بن گئی ہے، اسی لیے سی ایم کجریوال نے پنجاب سے آنے والی پرالی سے پیدا ہوئی آلودگی کے لیے محدود ذمہ داری ضرور قبول کی ہے، لیکن یہ بھی کہا کہ چونکہ ان کی حکومت بنے ہوئے صرف 6 ماہ ہوئے ہیں، اس لیے انہیں ایک سال کا مزید وقت دیا جائے۔ یہ دراصل ان کی بے عملی، نااہلی، بے حسی کا ملا جلا مظاہرہ ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان میں کمال کی بے حسی ہے۔ کجریوال کو گرین پیس کے ذریعہ کئے گئے ایک مطالعہ کو نوٹ کرنا چاہیے کہ فضائی آلودگی، خاص طور پر PM2.5، دہلی میں صرف ایک سال میں تقریباً 54,000 قبل از وقت اموات کا سبب بنی۔ سی ایم کجریوال کو سوچ سمجھ کر ”ایک اور سال“ مانگنا چاہیے تھا۔
کجریوال ہی نہیں، ہر اس لیڈر سے ”خبردار“ رہنا چاہیے جو آلودگی اور ماحولیاتی مسائل کے بارے میں بے اعتناءاور بے حس بنا رہتا ہے۔ 2019 میں ہندوستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے تقریباً 1.6 ملین افراد کی بے وقت موت ہوئی تھی۔ ہندوستان میں فضائی آلودگی کے اثرات پر اس سال شائع ہونے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ایم 2.5 کی زد میں آنے سے بچوں کی اموات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں فضائی آلودگی اور 15-49 سال کی عمر کی خواتین میں بڑھتی ہوئی خون کی کمی کے درمیان تعلق بھی پایا گیا ہے۔ہندوستان میں سالانہ اموات کا تقریباً 17.8 فیصد اموات فضائی آلودگی سے ہوتی ہے۔ آلودگی خواتین اور بچوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل صرف مقامی نوعیت کے نہیں ہیں، ان کے اسباب و اثرات ریاست اور ملک کی حدود سے باہر ہیں۔ اسی لیے صرف دہلی میں ہی اسکول بند نہیں ہیں ایئر کوالٹی مینجمنٹ کمیشن (سی اے کیو ایم) نے دہلی، اتر پردیش اور ہریانہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں اسکولوں اور کالجوں کو بند کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ اس سے قبل نوئیڈا میں 3 سے 8 نومبر تک اسکول بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، اس دوران آن لائن کلاسز کا انعقاد جاری رہے گا۔آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ کمزور ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ طاقتور لوگ جن کے پاس اقتدار اور وسائل پر قانونی اور تاریخی حقوق ہیں وہ حسب توقع کمزور طبقات سے ”حصہ داری“ کے نام پر اختیار سے عاری ذمہ داری لینے کی امید کررہے ہیں۔
دہلی میں بیٹھے ہوئے ملک کے طاقتور ترین لوگوں کی ناک کے نیچے کچرے کا ڈھیر بن گیا لیکن وہ اس پر خاموش رہے۔ ہر سال ملک کا دارالحکومت، ملک کی ساکھ کو بھی اپنی دھند میں لپیٹ لیتا ہے اور پھر وہ خاموش رہتے ہیں، دہلی میں ہر سال ہزاروں لوگ آئی ایل ڈی، دمہ اور پھیپھڑوں کے کینسر سے مرتے ہیں لیکن وہ خاموش رہتے ہیں۔ مجال ہے کہ انتخابی سیاست، ارکا ن اسمبلی/پارلیمنٹ توڑنے کے پروگراموں اور صدا برسراقتدار رہنے کے کسی داﺅ میں کوئی کمی رہ جائے لیکن دارالحکومت سمیت اہم ہندوستانی شہروں میں ہندوستانی شہری جس زہر کو ہر دن اپنے پھیپھڑوں میں لے رہے ہیں اسے لے کر وہ بس خاموش رہنے میں ہی بہادری دکھاپاتے ہیں۔
جب بین الاقوامی فورمز پر ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک سے ڈیل کرتے ہیں، ان سے زبردستی شرکت کے نام پر ذمہ داری لینے کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کے لیے دباو¿ ڈالتے ہیں، تو ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جس طرح ترقی یافتہ ممالک کا یہ رویہ غلط ہے، اسی طرح ہندوستان کے اقتدار کے مختلف شراکت داروں یعنی پی ایم، سی ایم اور ڈی ایم کا رویہ بھی غلط ہے۔ حکومت ہند نے ایک ماہ میں 1.5 لاکھ کروڑ کا جی ایس ٹی وصول کیا، لیکن پرالی مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کسانوں کو جیل اور جرمانے کا قانون بنانا کہاں تک مناسب ہے۔ اگر ایک سال تک لاکھوں کسان سڑکوں پر احتجاج نہ کرتے تو آج پرالی جلانے والے کسانوں کو جیل میں ٹھونسا جارہا ہوتا۔۔ اگر کوئی غریب کسان اپنی معاشی حالت کی وجہ سے اپنے کھیت میں پرالی جلانے پر مجبور ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری حکومتوں کو لینا ہوگی۔
7 نومبر سے، شرم الشیخ ، مصر میں یو این ایف سی سی سی کا 27 واں کنونشن سی او پی27 ہورہا ہے۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ آیا ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ پی ایم مودی کو اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ پچھلے سال نومبر میں اسی وقت، جب پی ایم مودی نے گلاسگو میں سی او پی26میں شرکت کی، تو انہوں نے ‘پنچامرت’ کے نام سے ایک پہل شروع کی تھی۔ آج دہلی سمیت ملک کے تمام شہروں میں شدید فضائی آلودگی کی صورتحال بنیادی طور پر ان ہی وعدوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ پنچامرت کا نعرہ کچھ دنوں تک اخبارات میں چھایا رہا لیکن جب آج شہر سانس لینے سے قاصر ہیں تو پی ایم کی خاموشی کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ دہلی دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے لیکن ہندوستان کے وزیر ماحولیات کس اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ… پچھلے بارہ مہینوں میں دنیا نے گلاسگو میں سی او پی26 میں ترقی یافتہ ممالک کے بیانات اور ان کے اقدامات کی حقیقت کے درمیان ایک وسیع خلیج دیکھی ہے۔
یہ بیان سن کر دنیا ہم پر ہنس رہی ہوگی۔ حال ہی میں وزیر اعظم نے ‘LiFE’ یعنی طرز زندگی برائے ماحولیات کے نام سے ایک پہل کی ہے۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ طرز زندگی کو ماحول دوست بنایا جائے۔ اس کے لیے ماحولیاتی تعلیم اور بیداری کی ضرورت ہوگی، لیکن تضاد یہ ہے کہ وزیر اعظم کی قیادت میں مرکزی حکومت نے اپنے 2022-23 کے بجٹ میں ماحولیاتی تعلیم، بیداری اور تربیت کے بجٹ کو پچھلے سال کے 77.13 کروڑ روپے سے گھٹا کر 58 کروڑ روپے کر دیا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں وزارت ماحولیات کے تحت پانچ خودمختار اداروں کی کل مختص رقم میں بھی کمی کی گئی ہے۔
نعروں، باتوں، وعدوں، خواہشات، عزائم کا سامنا جب حقیقت سے ہوتا ہے تب ”پنچامرت“ ، ” لائف“ کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ جس پروگرام کے دوران وزیراعظم نے ”لائف“ پروگرام شروع کیا تھا اس میں دنیا کے نامور لوگوں نے شرکت کی،سبھی نے پی ایم مودی کی تعریف بھی کی۔ پی ایم نے فخر کے ساتھ کہا کہ "غیر فوسل ایندھن پر مبنی ذرائع سے نصب شدہ بجلی کی صلاحیت کے 40 فیصد تک پہنچنے کا ہندوستان کا عزم مقررہ وقت سے 9 سال پہلے حاصل کر لی گئی ہے۔“ یہ واقعی قابل ستائش ہے۔ لیکن کیا وزیر اعظم بتا سکتے ہیں کہ ملک کے اہم ماحولیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے درکار بجٹ کو کیوں کم کیا جا رہا ہے؟ یا دنیا بھر سے تعریفیں اس لیے مل رہی ہیں کہ ہندوستان کے ہر معاشی ۔سماجی شعبہ کو خانگی ہاتھو ںمیں سونپا جارہا ہے؟
اگر ملک میں ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے تو پروجیکٹ ٹائیگر کا بجٹ کیوں کم کیا گیا؟ یہ گزشتہ سال کے 323 کروڑ روپے سے کم ہو کر 193 کروڑ رہ گیا ہے۔ جبکہ یو این ایف سی سی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی حیاتیاتی تنوع گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کو 20 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔
ہندوستان میں جس چیز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے لیڈروں کے تئیں عوام کا نظریہ۔ لیڈر اپنی کوتاہیوں کو چھپاتا ہے اور اس کے لیے وہ عوام کی جانب سے اسے دیا گیا پیسہ ‘ مواصلاتی ذرائع یعنی میڈیا کو اپنے قبضے میں لے کر کرتا ہے۔ اسی لیے ‘پنچامرت’، ’لائف‘، ‘سوچھ بھارت‘ جیسے پروگرام عوام کے ذہنوں میں چھاجاتے ہیں۔ مفت بجلی، پانی کے وعدے عوام کی بے بسی کو ووٹ کے ذریعے بدلنے کا ذریعہ ہیں۔ خاص طور پر جب حکومتیں ادارہ جاتی تبدیلیوں کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کے استحکام کے لیے کام کرنا شروع کر دیں۔
ہندوستان کا حال یہ ہے کہ منتخب نمائندوں کو بھگوان یا ‘اوتار’ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اور اوتاروں اور خداو¿ں سے کون حساب مانگے گا؟ نوٹ بندی کے دوران سینکڑوں لوگ بنکوں کی لائنوں میں لگ گئے، کورونا کے دوران 40 لاکھ سے زائد لوگ کورونا وائرس سے مرے اور ہزاروں مزدور سڑکوں پر لقمہ اجل بن گئے، لیکن اوتاروں سے کسی نے حساب نہیں پوچھا۔
اناج کی ایک بوری اور ایک لیٹر تیل اپنے پیاروں کی موت کے آگے بھاری پڑگیا! موربی کا پل گرا، 140 لوگ مارے گئے لیکن گجرات ساتھ نہیں کھڑا ہوا، احتساب نہیں مانگا گیا۔ ریپ کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا، گجرات کھڑا نہیں ہوا، احتساب نہیں مانگا گیا۔ جس ملک میں لوگ اپنے لیڈر کو بچائیں اور اپنے پڑوسی کو مرنے دیں، جہاں زندگی لیڈروں کی عقیدت کے لیے وقف ہو، وہاں کون آگے آئے گا اور ماحولیات، آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے پیچیدہ مسائل پر اپنے پسندیدہ لیڈروں سے جواب طلب کرے گا؟ جب تک ہمارا عقیدہ ہماری انسانیت پر حاوی رہے گا، کوئی نہ کوئی مداری آکر ہمیں نچاتا رہے گا اور ایک دن ہم اس آلودگی میں ہانپتے ہوئے اپنی جان دے دیں گے۔