رمضان

ماہ مبارک اور برادران وطن

رمضان المبارک کا مہینہ ضبط نفس کی تربیت کا اور مواسات و غم گساری کا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں ہمیں روزہ کا حکم دیا گیا ہے ، نفل نمازوں کا اجر بتایا گیا ہے اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

رمضان المبارک کا مہینہ ضبط نفس کی تربیت کا اور مواسات و غم گساری کا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں ہمیں روزہ کا حکم دیا گیا ہے ، نفل نمازوں کا اجر بتایا گیا ہے اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، پھر اس مواسات و غم خواری کے دائرہ کو محدود نہیں کیا گیا ، گویا پوری انسانیت اس مہینہ کی نسبت سے حسن سلوک کی مسحق ہے ، اس پس منظر میں ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ماہِ مبارک میں برادرانِ وطن کے ساتھ ہمارا کیا سلوک و رویہ ہونا چاہئے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ،انسانی اخوت کا رشتہ ہم سب کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے؛ کیونکہ قرآن نے بہت ہی واضح تصور دیا ہے کہ پوری انسانیت کے ماں باپ حضرت آدم و حوا علیہم السلام ہی ہیں، گویا ہم سب ایک کنبہ کے افراد اور ایک خاندان کے ارکان ہیں ، یہ رشتہ ہمیں برادرانِ وطن کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر رویہ کی راہ دکھا تا ہے ، اس پس منظر میں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ رمضان المبارک اور عید میں ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں کو کس طرح شریک کرسکتے ہیں؟

ہمارا عقیدہ ہے کہ ایمان ہی انسان کی نجات کا واحد راستہ ہے ، جو لوگ ایمان سے محروم ہیں مرنے کے بعد انھیں اپنے عمل کا حساب دینا ہو گا اورایمان سے محرومی کی وجہ سے وہ ہمیشہ دوزخ کا ایندھن بنے رہیں گے ، یہ دوزخ اتنی تکلیف دہ اور اذیت کے اسباب سے بھر پور ہوگی کہ دنیا میں اس کی ہولناکیوں اور وحشت انگیزیوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، اور شرک ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کریں گے ، خدا کی شانِ کریمی کا دامن اتنا وسیع ہے اوراس کے عفو و درگزر کا سایہ اس قدر دراز ہے کہ وہ بڑے بڑے گناہ کو بھی معاف کردیں گے ؛ لیکن جیسے کوئی غیرت مند شوہر اپنی بیوی کی بد مزاجی ، فضول خرچی ، بد صورتی اور بد زبانی کو سہ لیتا ہے ؛ لیکن اس کی بد چلنی اور بد کرداری کو برداشت نہیں کرسکتا ، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو یہ بات گوارہ نہیں ہے کہ جن انسانوں کو اس نے وجود بخشا ہے اور پل پل ان کی نعمتوں کے سہارے طرح طرح کی لذتوں اور راحتوں سے نفع اٹھا رہے ہیں، وہ اپنے خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے ، اس لئے شرک ایسا جرم عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں اسے معاف نہیں فرمائیں گے۔

اس لئے انسانی ہمدردی کا سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے کہ ہم اپنے ان ہدایت نا آشنا بھائیوں تک حق کی روشنی پہنچانے کی کوشش کریں ، رمضان المبارک ہمارے لئے اس کا بہت بہتر موقع فراہم کرتا ہے ، اسی مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے نازل ہو نے کا آغاز ہوا ، اسی لئے نزولِ قرآن کی یادگار کے طور پر تراویح کی نماز رکھی گئی، شب ِقدر کو بھی نزولِ قرآن ہی کی نسبت سے یہ بلند و بالا مقام حاصل ہے ، ہم اس ماہ میں انگریزی اور مقامی زبانوں میں قرآن مجید اور احادیث کا ترجمہ برادرانِ وطن تک پہنچا نے کی کوشش کریں ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اکثر مقامی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہو چکا ہے ، پورے ہندوستان میں بیس کروڑ مسلمان کی تعداد مانی جائے اور ہر مسلمان رمضان میں اپنے ایک غیر مسلم بھائی کو کتاب الٰہی کا نسخہ دعوتی نقطۂ نظر سے پہنچا دے تو پانچ سال میں ملک کا کوئی غیر مسلم شہری ایسا باقی نہیں رہے گا ، جس کے پاس قرآن نہیں پہنچا ہو ، اور اس کے اثرات گہرے ، دُور رس اور غیر معمولی ہوں گے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں جو کشش اور دلوں کو مسخر کر نے طاقت ہے وہ ہزار مخالفتوں اورمعاندانہ رویوں کے باوجود آج بھی قائم ہے ۔

اس سلسلہ کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے کہ ڈیڑھ سال پہلے وی، ایچ، پی کی طرف سے قرآن مجید مع ہندی ترجمہ ان مقامات کی نشاندہی کے ساتھ فراہم کیا گیا، جن میں وی ، ایچ ، پی قیادت کے بقول بد امنی پھیلانے کی اور غیر مسلموں کے ساتھ بد سلوکی کی تعلیم دی گئی ہے ، اس مسئلہ میں شریک ایک مذہبی پیشوا کے لئے یہی مترجم قرآن ہدایت کا ذریعہ بن گیا ، انھوں نے پورے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور بالآخر اسلام لے آئے، نیز انھوں نے ہی بتایا کہ قرآن مجید کی تقسیم کے بعد خود اکثر ہندو پیشواؤں کا احساس تھا کہ ان آیتوں کے حوالہ سے اسلام پر جو اعتراضات کئے جارہے ہیں وہ درست نہیں ہیں ، اور آیت کے سیاق و سباق سے ان کا غلط ہونا ثابت ہوتا ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم صرف قرآن مجید کا ترجمہ اپنے ان بھائیوں تک پہنچائیں تو انشاء اللہ یہ معمولی سی کوشش بھی بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت سے سرفرازی کاباعث بنے گی ۔

افطار میں جہاں ایک پہلو غذا کا اور کھانے کھلانے کا ہے ، وہیں اس میں عبادت اوربندگی کا جو رنگ ہے، وہ بھی بہت ہی پرکشش اور جاذبِ قلب و نظر ہے ، محض اللہ کے لئے دن بھر بھوکے پیاسے رہنا اور اپنی روز کی عادتوں سے کنارہ کش ہو جانا، پھر جیسے ہی مغرب کے وقت مؤذن نے خدا کی کبریائی کا نعرہ لگا یا ، سارے لوگ ایک ساتھ افطار کے لئے دستر خوان پر بیٹھ گئے ، نہ کوئی بڑا نہ چھوٹا ، نہ اونچا نہ نیچا ، نہ مالدار نہ غریب ، کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں، ایک ہی دستر خوان پر ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ، پھر اس وقت بھی خدا سے دُعاء و التجاء ، دن بھر کے بھوکے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں ، خدا کے سامنے بچھاؤ اورجھکاؤ کی یہ کیفیت اتنی دل آویزا اور پر کشش ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے غیر مسلم بھائیوں کو افطار کے لئے مدعو کریں ، وہ کھانے میں بھی شریک ہوں اور خدا کی بندگی کے اس غیر معمولی نظارہ کو بھی اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھیں؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ افطار کے نظم کو شور شرابہ اور محض کھانے کے انتظام کے لئے دوڑ دُھوپ سے بچاتے ہوئے وہ ماحول پیدا کیا جائے جو افطار کے وقت مطلوب ہے، اور غذائی دعوت سے زیادہ روحانی دعوت پر توجہ مرکوز رکھی جائے، روحانی دعوت سے مراد یہ ہے کہ ان تک دین کی کچھ بات پہنچانے کا نظم کیا جائے، مثلا افطار سے آدھا ایک گھنٹہ پہلے مدعوئین کو بلا یا جائے اور رمضان المبارک کی نسبت سے غیر مسلم بھائیوں کے حسب ِحال مختصر سا بیان رکھا جائے، جس میں توحید ، رسالت آخرت کا تصور ، روزہ کا مقصد، رمضان المبارک کے افعال وغیرہ پر روشنی ڈالی جائے، قرآن مجید کا تعارف کرایا جائے، اس کے تاریخی طور پر محفوظ ہونے کے پہلو کو واضح کیاجائے گویا صرف کھانے کا دستر خوان نہ ہو؛ بلکہ ہدایت ِربانی کا دستر خوان بھی بچھانے کی کوشش کی جائے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ خود نماز کا منظر بھی بہت ہی پر کیف اور متاثر کن ہے ، جو انسان پتھروں ، درختوں ، سیاروں اور سمندروں کے سامنے سر موجھکنے کو تیار نہیں وہ خدا کے سامنے ایک زر خرید غلام کی طرح؛ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہاتھ باندھے کھڑا ہے ، کبھی کمر تک جھکتا ہے ، کبھی دو زانو نگاہوںکو پست کئے بیٹھا ہے اور کبھی اپنی پیشانی کو زمین پر بچھا دیتا ہے ، پھرجب نماز سے فارغ ہو تا ہے تو خدا کے دربار میں اس طرح ہاتھ پھیلاتا ہے جیسے کوئی ضرورت مند اورمصیبت زدہ بھکاری دست ِسوال دراز کرتا ہے ، یہ عجز و فروتنی اور جھکاؤ اور بچھاؤ کی ایسی تصویر ہے کہ اس سے زیادہ اپنے آپ کو مٹا دینا اور سر خمیدہ ہوجانا حضرت انسان کے لئے ممکن ہی نہیں ، پھر حاکم اور محکوم ، دولت مند اور غریب ، تعلیم یافتہ اور جاہل اور بڑے اور چھوٹے سبھوں کا ایک ہی صف میں دوش بدوش اور قدم بہ قدم کھڑا ہونا اجتماعیت اور انسانی وحدت کی ایسی مثال ہے کہ اس ملک کی اکثریت اپنے مذہب میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔

رمضان المبارک میں نمازوں کا اہتمام بڑھ جاتا ہے ، مسجدیں نماز پڑھنے والوں سے معمور ہو جاتی ہیں اور ذوقِ عبادت نسبتاً بڑھ جاتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے پروگرام کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہ برادرانِ وطن نماز کے اس ماحول کو دیکھیں ؛تاکہ وہ اسلام کی عملی کیفیت کو ملاحظہ کر سکیں ؛ بلکہ اگر کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو انھیں مسجد میں دعوت دینی چاہئے، تاکہ وہ مسجد کے پرسکون ماحول اورسادہ طریقۂ عبادت کو دیکھ سکیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجران کے عیسائیوں کو مسجد ہی میں ٹھہرایا تھا ، غزوۂ بدر کے مشرک قیدیوں کے رہنے سہنے کاانتظام بھی مسجد میں ہی کیا گیا تھا ، بنو ثقیف کے مشرکین کے وفد کو بھی آپؐ نے مسجد نبوی میں ہی ٹھہرایا تھا ، اور جو غیر مسلم حضرات آپؐ سے ملاقات کے لئے آتے تھے ، عموماً مسجد ہی میں ان سے ملاقات ہوتی تھی، اس لئے دعوتی نقطۂ نظر سے غیر مسلم بھائیوں کو مسجد میں بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

رمضان المبارک اور عید الفطر کی مناسبت سے صدقۃ الفطر کا حکم دیا گیا ہے ، جس کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے ، اسلام میں زکاۃ کے مصارف تو محدود ہیں ، زکاۃ کی رقم مسلمان ہی سے لی جاتی ہے ، یہاں تک کہ اگر مسلم حکومت ہو تو وہاں بھی صرف مسلمانوں ہی سے زکاۃ کی رقم لی جائے گی، غیر مسلموں سے نہیں ؛ کیوں کہ غیر مسلموں سے زکاۃ لینا ان کو ایک اسلامی عبادت پر مجبور کرنا ہے اور اسلام اس کو روا نہیں رکھتا کہ ایک مذہب کے ماننے والے لوگ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی افعال انجام دینے پر مجبور کریں کہ یہ مذہبی آزادی کے مغایر ہے ؛ اسی لئے زکاۃ کا مصرف بھی صرف مسلمان کو قرار دیا گیا ہے ، غیر مسلموں پر زکاۃ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں؛ لیکن صدقۃ الفطر کا مقصد نزولِ قرآن اور ماہِ رمضان کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اور اپنی خوشی میں اپنے غریب بھائیوں کو شریک کرنا ہے ۔

چنانچہ فقہاء حنفیہ کے نزدیک صدقۃ الفطر غیر مسلم بھائیوں کو بھی دیا جا سکتا ہے ، اور ایک صدقۃ الفطر ہی پر موقوف نہیں بلکہ زکاۃ کے علاوہ تمام ہی صدقاتِ واجبہ غیر مسلموں پر بھی خرچ کئے جاسکتے ہیں ، اور صدقات نافلہ کے بارے میں تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ غیر مسلم بھی اس کا مصرف ہیں اور ان کا تعاون کرنا بھی باعث ِاجر و ثواب ہے ، ہمیں چاہئے کہ خوشی کے اس موقع پر اپنے غیر مسلم پڑوسیوں اور ضرورت مند لوگوں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں اور صدقۃ الفطر کی مدد سے غیر مستطیع برادرانِ وطن کا بھی تعاون کریں؛ تاکہ اسلام کی فراخ دلی، مسلمانوں کی رواداری اور انسانی رشتہ کے تحت حسن سلوک اور بہترین برتاؤ کو وہ محسوس کریں ، یہ ہمارے لئے باعث اجر و ثواب ہو گا اور اسلام کا بہتر تعارف اور خاموش دعوت ان کے سامنے آسکے گی ۔
٭٭٭