طنز و مزاحمضامین

مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر

حمید عادل

جس طرح کوئی شاعر اپنی تازہ غزل سنانے کے لیے بے قرار رہتا ہے ٹھیک اسی طرح چمن بیگ اپنی بیگم کی شکایت کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں … جب بھی ملتے ہیں،بیگم کی شکایت ضرور کرتے ہیں ،ان کے کہے کا خلاصہ یہی ہوتا ہے کہ ان کی اہلیہ بڑی نا اہل ہیں اور وہی ہیںجو ان کے ساتھ نباہے جا رہے ہیں … جہاں تک ہماری معلومات ہیں، مسز چمن بیگ نہایت سگھڑ خاتون ہیں اور انہوں نے انتہائی برے حالات میں نہ صرف گھر بلکہ چمن بیگ کو تک سنبھالا اور آج بھی سنبھال ہی رہی ہیں …
ہمیں چمن بیگ کی ازدواجی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن چمن کا لہجہ ایسا ہوتا ہے گویا وہ اپنی بیگم کی شکایتیں ہمارے روبرو کرکے ہم پر احسان بلکہ احسان عظیم کررہے ہیں … اکثر کہتے ہیں ’’ میں اپنے گھریلو حالات کسی کو نہیں سناتا ، صرف تم ہی کو سناتا ہوں ۔‘‘ اور ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہم ان کا شکریہ ادا کریں یا سخت سست سنائیں کہ بے شرم انسان ! شرم کرو، گھر کی باتیں باہر لاتے ہو…ہمیں دیکھو ،ہم نے کبھی ا پنے گھر کی باتیں تمہیں سنائی ہیں؟
ایک دن چمن بیگ چہرہ لٹکائے وارد ہوئے، وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے ’’وہی بیگم کا دیا غم ہے …‘‘
’’ اب کیا ہوا؟‘‘
کہنے لگے ’’صبح شام یہی راگ الاپتی ہے، ہمارے حالات کب بدلیں گے؟میری زندگی تو برباد ہوگئی تم سے شادی کرکے …‘‘
’’اورتم نے کیا کہا؟‘‘ہم نے سوال دے مارا۔
’’میں کہتا کہاں ہوں، ایک چانٹا بیگم کے گال پر جڑ دیا…اور بے ہوش ہوگیا۔‘‘
’’چانٹاتم نے مارا اورخود بے ہوش ہوگئے؟…‘‘ ہم نے حیرت سے پوچھا۔
’’میرا چانٹا کھانے کے بعد بیگم نے مجھے کان بھیری ماری تھی…‘‘
’’تم مار کھانے والے کام کرتے کیوں ہو؟‘‘ ہم نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے استفسار کیا…
’’مگر یہ تو دیکھو کہ بیگم میں ذرا سا بھی صبر نہیں ہے ۔‘‘چمن بیگ نے خواہ مخواہ مسز چمن کی شکایت کرڈالی۔
’’ یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تم بھابی کوچانٹا مارو اور وہ صبر کرجائیں …‘‘
ہمارے چبھتے سوال پر چمن بغلیں جھانکنے لگے…
ہم چمن بیگ کی شکایتوں سے اکثر بور ہوتے ہیں لیکن پچھلے دنوںہمارے اندر موجود’’ چلبل پانڈے‘‘ نے ہمیں اکسایا تو ہم نے ان سے پوچھا:
’’ یہ تو کہوکہ بیگم سے تمہاری پہلی لڑائی کب ہوئی تھی؟‘‘
’’شادی کے فوری بعد یعنی ،وداعی کے وقت۔‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ میرا موبائل بج اٹھا تھا جس کی رِنگ ٹون تھی:
دل میں چھپا کے پیار کا طوفان لے چلے
آج ہم اپنی موت کا سامان لے چلے
اورآخری بارلڑائی کب ہوئی تھی؟‘‘ ہم نے ایک اور سوال داغا۔
’’ آخری لڑائی میری غلطی کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ بیگم نے مجھ سے پوچھا تھا ٹی وی پر کیا چل رہا ہے ؟‘‘ اور میں نے سادگی سے جواب دے دیا ’’ کیڑا‘‘
’’ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ میں نے دو دن تک اپنی بیوی سے بات نہیں کی!‘‘
’’ اپنا رعب جھاڑنے کے لیے ؟‘‘
’’بالکل نہیں!میں بیوی کی باتوں میں مداخلت کرنا نہیں چاہتا تھا۔‘‘
یہ تو بتاؤ کہ گھڑی اور بیوی میں کیا فرق ہے ؟‘‘
’’ایک خراب ہوتی ہے تو بند ہوجاتی ہے اور دوسری خراب ہوتی ہے تو چالو ہوجاتی ہے ۔‘‘ چمن بیگ کا جواب تھا۔
’’ماں اور بیوی میں کیا فرق ہے ؟‘‘
’’ایک آدمی کو روتا ہوا اس دنیا میں لاتی ہے اور دوسری رونا جاری رکھنے کا بندوبست کرتی ہے ۔‘‘
’’چیونگم اور بیگم میں کیا فرق ہے ؟‘‘
’’دونوں شروع میں میٹھے ہوتے ہیں اور بعد میں بے ذائقہ اور چپکو ہوجاتے ہیں ۔‘‘
چمن بیگ کے انٹرویو سے ہمیں اندازہ ہوا کہ انہوں نے بیوی سے متعلق مندرجہ بالا ساری باتیں کہیں نہ کہیں پڑھی ہیں اوران ہی کو سچ مان بھی لیا ہے …جب کسی کے دل میں کسی کے تعلق سے منفی باتیں گھر کر جاتی ہیںتو پھر وہ مثبت سوچ کی جانب مشکل سے ہی پلٹتا ہے…ایک اور بات یہ ہے کہ چمن، ٹی وی خوب دیکھتے ہیں بلکہEat Cricket, drink Cricket, sleep Cricketکی طرز پر وہ Eat TV, drink TV, sleep TVپر عمل کرتے ہیں…ان کی گفتگو ٹی وی اور فلمی تذکرے سے خالی نہیں ہوتی …جس طرح معمولی سی بات کو ٹی وی پر چیونگم کی طرح کھینچ کر دکھایا جاتا ہے ، چمن بیگ نے بھی ٹھیک ویسا ہی انداز اپنایا ہوا ہے…مثال کے طور پر موز کے چھلکے پر پیر رکھنے کی بدولت کوئی شخص گر پڑے تو اِسے بھی ٹی وی اینکر اہم موضوع بنا کر کچھ اس طرح ناظرین سے مخاطب ہوگا:
’’ناظرین! سڑک پر پڑے اس بے جان موز کے چھلکے کو ذرا غور سے دیکھیے ، کیسے چپ چاپ پڑا ہے لیکن آپ نے غلطی سے اس پر پیر رکھ دیا تو پھر آپ کی بتیسی انتیسی یا پھر تیسی میں بھی تبدیل کرسکتا ہے، یہ موز کا چھلکا…آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موز کے چھلکے سڑک پر نہ پھینکیں ، بہتر ہوگا کہ ہم موز، چھلکا سمیت کھا جائیں ! جس کی بدولت ہمیں بے شمار وٹامنس اور پروٹینس ملیں گے اور ہم موز کے چھلکے پر پیر پڑنے سے گرکر زخمی ہونے سے بھی محفوظ رہیںگے!‘‘
خیر بات چمن بیگ کی چل رہی تھی،ٹی وی اینکر کی نہیں…مگر کیا کریں، چمن بھی کسی ٹی وی اینکر سے کم نہیں…’’ اچھا شوہر،بری بیوی‘‘ سیرئیل ( جس کے رائٹر ، ڈائرکٹر اور ہیرووہ خود ہیں)کے ایپی سوڈ نمبر 420کے تحت کہنے لگے : ’’بیوی وہ ہوتی ہے جو شادی کے بعد اپنے شوہر کی ساری عادتوں کو بدل دیتی ہے اور پھر کہتی ہے ’’آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔‘‘اور پھرہمارے کان میں پھسپھسانے لگے :’’ ایک پتے کی بات بتاؤں؟‘‘ ہم نے بھی جوابی سرگوشی کی ’’بتاؤ‘‘ کہنے لگے ’’ شاید تم نہیں جانتے کہ لفظ ’’بیگم‘‘ دراصل پہلے ’’بے غم‘‘ تھا،کیوںکہ شادی کے بعد سارے غم تو شوہر کے حصے میں آجاتے ہیں ، اس لیے بیگم ’’بے غم‘‘ ہوجاتی ہے!
چمن بیگ کے بیوی مخالف رویے کو دیکھ کر ہمیں برسوں پہلے دہلی ایرپورٹ پر پیش آیا ایک واقعہ یاد آگیا …ہوا یوں تھا کہ دہلی سے ممبئی پرواز کرنے والے ایک طیارے کی روانگی میں ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر ہوگئی تھی، کیوںکہ ایک درمیانی عمر کے شخص کو خاتون کے طیارہ چلانے پر شدید اعتراض تھا، ان کا استدلال تھا: ’’مرنا ہے کیا؟ عورت سے گھر نہیں سنبھلتا ، ہوائی جہاز کیا خاک سنبھالے گی؟‘‘ہم نے تو یہاں تک سنا کہ اس شخص نے ایرہوسٹس کو بلایا اور خاتون پائلٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جب سب کومرنا ہی ہے تو پھر جہاز میں ہی کیوں نہ چلاؤں!‘‘
’’ سر آپ کیسے جہاز چلا سکتے ہیں؟‘‘ایر ہوسٹس نے اعتراض کیا۔
’’ شہر کے بے ہنگم ٹریفک میں اسکوٹر آرام سے چلا لیتا ہوں تو ہوا میں جہاز کیوں نہیں چلا سکتا؟ یہاں تو ٹریفک جام کا مسئلہ بھی نہیں ہے! ویسے کیا فرق پڑتا ہے جہاز کوئی خاتون چلائے یا پھرمجھ جیسا اناڑی ، جہاز کو تو Crashہونا ہی ہے!‘‘
دریں اثنا سیکوریٹی عملے کو طلب کرلیا گیا اور اس شخص کو طیارہ سے باہر نکال دیا گیا …
فرض کیجیے کہ بیوی نے ٹی وی پراپنے شوہر کو خاتون پائلٹ پر شدید اعتراض کرتے ہوئے دیکھ لیا اوروہ شخص گھر پہنچے تو شوہر اور بیوی کے درمیان کچھ اس طرح کی گفتگویقینا ہوئی ہوگی:
بیوی: دہلی ایر پورٹ پرکیا کہا تھاتم نے، میں گھر نہیں سنبھال سکتی، ارے میں نے تمہیں سنبھالا یہی کیا کم ہے؟
شوہر:(نہایت ملائم لہجے میں)جانو! میںنے کیا کبھی تم سے کوئی شکایت کی ہے ؟
بیوی: شکایت کرنے کی حیثیت نہیں ہے تمہاری، عورت گھر نہیں سنبھال سکتی جہاز کیا سنبھالے گی؟ کہنے کی جرأت کیسے کی آپ نے؟
شوہر:( دم دبا کر، جو اُسے ہے ہی نہیں )تم غلط سمجھ رہی ہو جان من! مجھے تم پر نہیں، جہاز کی پائلٹ پر اعتراض تھا۔
بیوی:(بگڑ کر)چپ رہو،تم نے جہاز کی پائلٹ کے کندھے پر بندوق رکھ کر مجھ پر گولی چلائی ہے ،آج کے بعد میں تم سے بات نہیں کروں گی!
شوہر:(سادگی سے )کیا تم گونگی ہونے والی ہو؟
بیوی :نہیں میں تمہیں بہرہ کرنے والی ہوں۔
شوہر: بہرہ تو میں شادی کے فوری بعد ہوہی گیا تھا…
بیوی: (غصے سے پیر پٹختے ہوئے )مجھ پر اتنا گہرا طنز…میں میکے جارہی ہوں ، اب تمہارے پاس کبھی نہیں آؤں گی۔
شوہر:(لاپرواہی سے) چلو ہٹو، اب ایسی جھوٹی جھوٹی میٹھی میٹھی باتیں کرکے رجھانے کی کوشش مت کرو!
اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
اکبر الہ آبادی
کامیاب ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کی قدر کریں…سیانے کہہ گئے ہیں ’’ مرد کو اپنی برائی اور کمزوری کا احساس بیوی کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ ‘‘ معروف لبنانی شاعراور ادیب خلیل جبران کہتے ہیں:’’ شوہر کی حیثیت جسم میں سر کی طرح ہوتی ہے اور بیوی گردن ہوتی ہے جو سر کو جس جانب چاہے موڑ سکتی ہے…‘‘ خلیل جبران نے اپنی محبوبہ کو(وجہ چاہے جو ہو) زوجہ نہیں بنایا، جب کہ چمن بیگ نے لو میریج کی ہے …
تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر
اکبر الہ آبادی
آج ہی ہمیں واٹس ایپ یونیورسٹی سے یہ گیان ملا کہ ’’ شوہر کو اپنی بیوی کے لیے اتنا اچھا ہونا چاہیے کہ بیوی دعا کرے کہ میری بیٹی کو بھی میرے شوہر جیسا ہم سفر ملے …‘‘ہم نے اسے فوری چمن بیگ کو فارورڈ کیا تو جواب آیا ’’شوہر کا اچھا ہونابڑی بات نہیں ہے، بڑی بات یہ ہے کہ شوہر کے اچھے ہونے کا احساس بیوی کوہو ۔‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰