مذہب

وہ فیصلہ، جو میں نے دل سے کیا۔ کولمبیا کی ایک خاتون کی داستان

اب میں فخر کرتی ہوںکہ میںمسلمان ہوں۔ میں اللہ کی شکر گزارہوں کہ اُس نے مجھے یہ دولت عطا فرمائی۔ چار سال قبل میں نے اسلام کو سمجھنے کی کوشش شروع کی۔ الحمد للہ میں کامیاب رہی لیکن اس سے قبل میں عربوں کے کلچر، انکی موسیقی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔

میں کولمبیا سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہوں۔ میرا جنم بوکارہ منگا نامی شہر میں ہوا تھا لیکن میں نے زندگی کا بڑا حصہ ویلی ڈوپار سٹی میں گزارا۔ پیشہ کے اعتبار سے میں Bacteriologist ہوں۔ میں نے کولمبیا کی ایک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ ساری باتیں میرے ساتھ تھیں۔ میں عقیدے کے اعتبار سے رومن کیتھولک تھی لیکن کبھی میں نے عیسائیت پر عمل نہیں کیا۔

اب میں فخر کرتی ہوںکہ میںمسلمان ہوں۔ میں اللہ کی شکر گزارہوں کہ اُس نے مجھے یہ دولت عطا فرمائی۔ چار سال قبل میں نے اسلام کو سمجھنے کی کوشش شروع کی۔ الحمد للہ میں کامیاب رہی لیکن اس سے قبل میں عربوں کے کلچر، انکی موسیقی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ میںچاہتی تھی کہ عربوں میں رہوںبسوں، مجھے عربی رسم الخط اور کتابت بہت پسند آتی تھی اور آج بھی پسند ہے۔ یہ چند باتیں ہیں جن سے مجھے گہری دلچسپی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس دلچسپی نے مجھے اسلام سے قریب تر کردیا۔ مجھ سے اسلام کا پہلا تعارف انٹرنیٹ کے ذریعہ ہوا۔

2004 میں ایک دن میں نے ایک اسلامک سائٹ پر اپنا پیام چھوڑا جس میں، میں نے لکھا تھا کہ اسلام کے بارے میں جاننے سے مجھے دلچسپی ہے۔ کچھ دنوں بعد مجھے ایک ای میل ملا جس میں مجھ سے کہا گیا تھا کہ کیا آپ اسپینی زبان میں فری اسلامک لٹریچر پڑھنے سے دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس ای میل پر مصطفی محی الدین کی دستخط تھی جن کا تعلق مصر سے تھا۔ یہ ای میل پڑھنے کے بعد مجھے بڑا تعجب ہوا لیکن ساتھ ساتھ شبہ ہوا کیونکہ کسی دوسروں کی جانب سے کتابوں کی اس طرح کی پیشکش میرے لئے عجیب و غریب بات ہے ۔

یہ بھی بات تھی کہ میں ای میل بھیجنے والے صاحب سے واقف نہیں تھی، تاہم یہی ای میل ہم دونوں کے درمیان پہلا رابطہ بنا۔ میں نے برادر محی الدین کو اپنا پتہ روانہ کیا۔ تقریباً دو ماہ بعد کچھ کتابیں میرے گھر پہنچیں اور میں بے حد خوش ہوئی۔ اس کے بعد میں نے برادرمحی الدین کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا۔ وہ حیرت انگیز طورپر غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح غیرمسلم بھائیوںاور بہنوں کے سامنے دین کو پیش کیا جانا چاہئے۔

اس کے بعد سے آج تک میں برادر محی الدین کے پاس مسلمان اور غیر مسلم ایسے افراد کے نام اور پتے بھجایا کرتی ہوں جنہیں کتابیں پڑھنے سے دلچسپی ہو۔ برادر محی ان لوگوں کو کتابیں روانہ کرتے ہیں۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ کتابیں طلب کرنے والے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں ان کی مادری زبان کچھ ہی ہو بھائی محی الدین انہیں اسی زبان میں کتابیں بھجواتے ہیں۔ جولائی 2004 میں ہم نے چار افراد کے ساتھ دعوت کا کام شروع کیا۔ جن میں برادر محی الدین، بہن مریم، کلوڈیا اور میں شامل تھے۔ اب 2008 میں الحمدللہ ہماری دعوت کا یہ کام ایک نیٹ ورک گروپ بن چکا ہے۔

کولمبیا، ارجنٹینا، برازیل،چِلّی، پیرو، میکسیکو وغیرہ میں دعوت کا کام چل رہا ہے۔ ہر دن ہماری ملاقات ایسے افراد سے ہوتی ہے جو اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ کئی مسلمان اور غیر مسلم اس بات پر حیرت ظاہر کرتے ہیں کہ سیدا پائولا ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی ہے لیکن دعوت کا کام انجام دیتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ روبرو ہوکر اسلام کی مدافعت کرتی ہے اور جو کوئی بھی اسلام کے بارے میں کوئی غلط بات کرتا ہے وہ ڈٹ کر اس کا جواب دیتی ہے۔ میں ان کو سمجھاتی ہوں کہ اصل اسلام اور اسکی اسپرٹ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرا دل صاف کررہا ہے۔

ان کتابوں کی وجہ سے میں تیزی سے اسلام کے بارے میں سیکھنے لگی اور جیسے جیسے دن گزرتے گئے ویسے ویسے اسلام کے تعلق سے میری محبت بڑھتی چلی گئی۔ میں انٹرنیٹ سے بھی استفادہ کرتی رہی۔ نیٹ ورک دوستوں سے میںاسلام کے تعلق سے کئی سوالات کیا کرتی تھی۔ ابتداء میں جب کسی دوست نے مجھ سے سوالات کئے تو میں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ابھی میں سیکھ رہی ہوں اور اسلام قبول کرنے کا ابھی میں نے عزم نہیں کیا۔ لیکن الحمدللہ چند ہی دنوں میں میرے افکار کے دھارے نے رُخ بدل دیا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جبکہ مجھے یہ سمجھ میں آنے لگا کہ اسلام ہی حقیقت ہے اور یہی سلامتی کا صحیح راستہ ہے، یہی سچا دین ہے، میرے ذہن اور دل میں یہ ساری باتیں تھیں۔ کئی مرتبہ برادر محی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اب آپ کلمہ شہادت پڑھنا پسند کریںگی۔ تو ہمیشہ میں انہیں یہی جواب دیتی کہ ابھی نہیں، مجھے کچھ مزید وقت چاہئے۔

2007 میں میرے بعض مسلمان دوستوں کو یہ پتہ چل گیا کہ میں دعوت کا کام تو کرتی ہوں لیکن ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے میرے دل میں کلمہ شہادت پڑھنے کا خیال ضرور چھپا ہوا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ سوائے اللہ کے اور کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہی آخری نبی ہیں۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کا دل مسلمان ہوچکا ہے اس لئے آپ مسلمان ہوچکی ہیں۔ یہ سب کچھ آپ اس لئے کہہ رہی ہیں کہ آپ مسلمان ہیں لیکن خود آپ کو اس بات کاپتہ نہیں ہے۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کلمۂ شہادت پڑھیں۔ میرے خیال میں یہ لوگ صحیح کہہ رہے تھے۔

اللہ مجھے ہدایت دے رہا تھا، اسلام میری زندگی سے قریب ہورہا تھا، مجھ میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ میں مسلمان ہونے والی ہوں۔ 2007 میں رمضان کے اختتام پر میں عائشہ نامی ایک بہن کے ساتھ کولمبیاگئی۔ ہم نے یہ سفر اس لئے کیا کہ بہن عائشہ کلمہ پڑھنا چاہتی تھی۔ میں اُن کے ساتھ چلی گئی، یہ بھی نہیں سوچا کہ میں اپنے شہر کو کب واپس ہوںگی اور جب میری واپسی ہوگی تب میں مسلمان ہوچکی ہوںگی۔ کولمبیا کے شہر مائیکواMaicao میں جب میں ایک مسجد کی طرف جارہی تھی جہاں بہنیں نماز پڑرہی تھیں تو میں سجدے میں گر پڑی اور اللہ سے التجا کی کہ قطعی فیصلے پر پہنچنے میں میری مدد فرمائے۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔

اس کے کچھ ہی دن بعد بہن عائشہ اور بھائی محمد حمود سے کہا کہ الحمدللہ میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے، وہ دونوں بہت خوش ہوئے۔ ہم مسجد گئے، میں نے کلمۂ شہادت پڑھا، اس سے چند منٹ قبل میں نے اپنے والدین کو فون کیا اور انہیں بتادیا کہ میں اسلام قبول کررہی ہوں۔ میں نے یہ اطلاع دی کہ یہ فیصلہ میری ساری زندگی پر اثر انداز ہونے والا تھا۔ جب میں نے والدین سے یہ بات کہی تو میرے والد نے مجھ سے کہا کہ ’’بیٹی یہ عمل تمہیںمبارک ہو‘‘ اپنے باپ کے منہ سے یہ بات سن کر میں بہت خوش ہوئی اور محسوس کیا کہ میرے باپ کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔ تب میں نے محسوس کیا کہ میری ماں لوسیا کسی قدر الجھن کا شکار ہے۔ انہوںنے میری بات سن کر کہا کہ ’’ٹھیک ہے بیٹی تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ تم کیا کررہی ہو، اللہ تم پر مہربان رہے‘‘۔

میں نے انٹرنیٹ پر کلمۂ شہادت پڑھا۔ اس وقت دو افراد موجود تھے ان میں سے ایک برادر محی اور دوسرے برادر احمد تھے جن کا تعلق مصر سے تھا۔ میرے خاندان اور دوستوںنے خاموشی سے یہ فیصلہ سن لیا، ان میں سے بعض نے ابتداء میں مذاق بھی اڑایا۔ لیکن الحمدللہ اب سبھی لوگ اچھی طرح سے میرے اس فیصلے کو قبول کرچکے ہیں۔ میرے بھتیجے عمرڈیویڈ مجھ سے چھ سال بڑے ہیں اور وہ عربی رسم الخط میں الحمدللہ کا لفظ لکھتے ہیں،انہیں مسلم موسیقی بھی بہت پسند ہے۔

بعض وقت انہوں نے مجھے قرآن پڑھنے کی ترغیب بھی دی۔ اسلام قبول کرنے سے متعلق میرا فیصلہ دل کی گہرائیوں سے تھا۔ یہ نہیں کہ کسی نے ایسا کرنے پر مجھے مجبور کیا تھا، سچ تو یہ ہے کہ اللہ نے میری رہنمائی کی، مجھے ہدایت کی روشنی دی اور مجھے صراطِ مستقیم بھی دکھایا۔ تمام انبیائے کرامؑ جو صحیح راستہ دکھانے کے لئے آئے تھے، اللہ کی ذات ہی مستقل وجود رکھتی ہے، اللہ نہایت رحم کرنے والا، معاف کرنے والا اور دنیا کی ہر چیز کا خالق بھی ہے۔

اب ہم مسلمانوں کی طرح رہتے ہیں، لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اسلام وہ نہیں ہے جو بعض ٹی وی چینلس بتارہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعض مسلمان بے حد ناپسندیدہ حرکات کرتے ہیں لیکن اس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اس کا شخصی عمل ہے۔ لیکن اسلام کے تعلق سے کسی غلط امیج کو ہم لوگوں کے ذہنوں میں باقی نہیں رکھ سکتے جس کو ختم کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان دنوں میں مصطفی محی کے ساتھ کام کررہی ہوں جو اسپین اور لاطینی امریکہ کے مسلمانوں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ آخر میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میںحق تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ صحیح راستہ دکھایا۔ اللہ تیرا شکر ہے کہ آج میں مسلمان ہوں۔
٭٭٭

a3w
a3w