طنز و مزاحمضامین

’’ میری عادت ہے اکثر میں بھول جاتا ہوں‘‘

حمید عادل

فلم ’’ دی گریٹ گیمبلر ‘‘کا ایک نغمہ ہے ’’ پہلے پہلے پیار کی ملاقاتیں یاد ہیں ‘‘اسی گانے میں ہیروصاحب، ہیروئن صاحبہ سے پوچھتے ہیں ’’ میری عادت ہے اکثر میں بھول جاتا ہوں ،دیکھو پھر کچھ بھول گیا،مجھ کو یاد دلانا ، میرا کیا نام ہے ؟‘‘ ہیروئن صاحبہ کہتی ہیں ’’ دیوانہ ‘‘
’’ نام میں کیا رکھا ہے ؟‘‘ نام بھولنا کوئی خاص بات نہیں لیکن فی زمانہ انسان بھولنے کی لت میں اس قدر مبتلا ہوتا جارہا ہے کہ وہ اپنے فرائض تک بھول رہا ہے ، اپنی موت کو بھول رہا ہے،خود کو بھول رہا ہے ،حتیٰ کہ خدا کو تک بھول رہا ہے … البتہ جن باتوں کو اسے بھول جانا چاہیے ان باتوں کو وہ سینے سے لگائے پھرتا ہے … منفی پہلو کو اس قدریاد رکھتا ہے کہ مثبت کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ ہی نہیں ہوتی…
ہم نے اپنے دوست احباب کو اکثر خود سے یہ شکایت کرتے پایا کہ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے ،اب میں بھولنے لگا ہوں …کبھی کہا جاتاتھا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت کمزور ہونے لگتی ہے یعنی عمر جتنی زیادہ ہوتی ہے ، یادداشت اتنی ہی کمزور ہوتی جاتی ہے …لیکن آج نئی نسل کی یادداشت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے،لیکن پھول بانو کو کوئی حیرت نہیں ہوتی … اگر ہمارا لڑکا یہ کہے کہ جانے میں نے اپنا موبائل کہاں رکھ دیا تو پھول بانو بڑے پیار سے کہتی ہیں’’اسے بھولنا نہیں کہتے بیٹے ، میرے خیال میں موبائل رکھتے وقت تمہارا دھیان کہیں اوررہا ہوگا ۔‘‘ وہیں اگر ہم یہ کہیں کہ ’’ جانے ہم نے گھر کی چابیاں کہاں رکھ دی ہیں …‘‘تو پھول بانو تنک کر کہتی ہیں ’’بھولنے کی عمر ہوگئی ہے آپ کی۔‘‘
ہم آج تک یہ سمجھ نہ سکے ہیںکہ آخر جب بھی بھولنے پرکوئی لطیفہ سنایا جاتا ہے غائب دماغ پروفیسر کواس لطیفے کا ہیرو بنادیا جاتا ہے …بھولنے کے لیے کیا ضروری ہے کہ آدمی پروفیسر ہی ہو،اب یہ دیکھیے کہ ہم پروفیسر نہیں ہیں مگر غائب دماغ ہوتے جارہے ہیں … بس میں سوار ہوتے ہیں ، کنڈکٹرہمارے پاس ٹکٹ کے لیے آتا ہے اورہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں جانا کہاں ہے…دو ایک بار ایسا بھی ہوا کہ جہاں سے ہم بس میں سوار ہوئے، اسی مقام کو اپنی منزل بتانے لگے، کنڈکٹر نے تو مسکرانے پراکتفا کیا لیکن ارد گرد کے لوگ بے ساختہ ہنس پڑے… ڈرائنگ روم میں کسی کام سے جاتے ہیں اور وہاں جاکر بھول جاتے ہیں کہ ہم یہاں آئے کس لیے؟ دماغ پر زور ڈالتے ہیں لیکن کھوپڑی میں کوئی ہلچل نہیں ہوتی اور ہم ہارے ہوئے جواری کی طرح لوٹ آتے ہیں …کبھی پیسے دے کر چیز لینا بھول جاتے ہیں اورکبھی بنا پیسے دیے چیز اٹھا لیتے ہیں ،حفاظت سے رکھنے کی چاہ میں کوئی چیز اتنی حفاظت سے رکھتے ہیں کہ خود کو بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ چیز ہم نے کہاں رکھ چھوڑی ہے۔
ایک بار بڑا عجیب معاملہ ہوا، ہمارے ایک ہاتھ میں دستر خوان تھا ا ور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون،دستر خوان ہمیں کچن میں رکھنا تھا اور موبائل فون کے ساتھ بازار جانا تھا …ہم نے موبائل فون کچن میں رکھ دیا اور دستر خوان کے ساتھ سارا بازار گھوم کر گھر لوٹے …
ہم کبھی کسی سے چونچیں لڑا رہے ہوتے ہیں ، یکایک تسلسل ٹوٹتا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے تھے؟ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے کوئی مکھی نگل لی ہے … کبھی یوں ہوتا ہے کہ آدمی روبرو ہوتا ہے لیکن ہم اس کا نام بھول جاتے ہیں ،کبھی نام یاد رہ جاتا ہے اور آدمی کو بھول جاتے ہیں ۔
پچھلے دنوں غضب ہوگیا، ہم تو آٹو سے اترگئے لیکن موبائل فون ہمارے ساتھ آٹو سے نہیں اترا یعنی ہم موبائل فون آٹو میں بھول گئے ،ٹھیک ویسے ہی جیسے بی جے پی اچھے دن کا وعدہ بھول گئی …ہم سل فون کو بھول گئے لیکن سل فون ہمیں نہیں بھولا اور شام کا بھولا صبح گھر لوٹ آیا … کیسے لوٹ آیا یہ کہانی پھر سہی..
اس قدر غائب دماغ ہونے کے باوجود ہمارا یہ کمال نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم سانس لینا آج تک نہیں بھولے …
چمن بیگ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں انہیں ان کا بیٹا مل گیا… بیٹے نے سلام کیا تو مشکوک کھسیانے ہوکر کہنے لگے: وعلیکم السلام بیٹا! کہو تمہارے والد کا کیا حال ہے؟‘‘
آدمی کی کھوپڑی پر جیسے ہی ایک دروازے سے وحشت وارد ہوتی ہے، دوسرے دروازے سے دماغ غائب ہوجاتا ہے …معروف شاعر ظریف لکھنوی نے کیا خوب کہا ہے :
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے ، لیلہ نظر آتا ہے
پریشان حال شوہر نے اپنی بیگم کوفون کیا اور کہا:
’’کسی نے میری گاڑی کا اسٹینرنگ،بریکیں ، ایکسیلیٹر ،گیئر سب کچھ چوری کرلیا ہے۔ ‘‘اور پھر قدرے توقف سے کہنے لگے :’’مطلب اس دنیا کو کیسے سدھارا جائے؟ ظاہر ہے میں پولیس میں رپورٹ تولکھواؤں گا، لیکن مجھے بطور ایک دردمندانسان سارے پہلو پہ غور بھی کرنا ہے کہ اس روئیے کے پیچھے کیا کیا محرکات ہیں؟ کیا بیروزگاری ہے یاتربیت کی کمی۔ ڈپریشن یاپھر کوئی نفسیاتی مسائل؟ مجھے اس پر بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ مجھے اس پر بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کرنا کس طرح چھوڑسکتے ہیں؟ کیااسباب ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعے سارے معاشرے میں رونما ہوتے ہیں؟
بیگم: (اطمینان سے) آپ بول چکے تو میری بات غور سے سنو، مجھے لگتا ہے کہ شاید تم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ہو‘‘۔
ایک منٹ کے لیے مکمل سناٹا چھاگیا…
اس کے بعد شوہر کی انتہائی دھیمی آواز آئی؛ تم ٹھیک کہہ رہی ہو، میں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھا ہوں‘‘۔
بیگم نے کہا :’’ آتے ہوئے چھ انڈے ،ایک ڈبل روٹی،ایک لیٹردودھ، ایک پاؤ دہی، ایک گڈی ہرے دھنیے کی لیتے آنا اور ہاںدھنیا سونگھ لینا، پچھلی بارمیتھی اٹھالائے تھے…‘‘
سائنس دان کہتے ہیں کہ دن میں خواب دیکھنے والے ذہین ہوتے ہیں ،مشکوک حیدرآبادی دن میں خواب توخوب دیکھتے ہیں ،پھر بھی جانے کیوں وہ ذہین نہیں ہیں … وہ دن میں جہاں کہیں کوئی چمچماتی کار دیکھتے ہیں ، مونگیری لال کے حسین سپنے دیکھنا شروع کردیتے ہیں،تصور کرتے ہیں کہ یہ کار ان ہی کی ہے …کہیں کوئی خوبصورت سا عالیشان بنگلہ دیکھتے ہیں ، تصور کرتے ہیں کہ یہ ان ہی کا ہے … اس قبیل کے خواب دیکھنا بری بات ہے ، خواب وہ دیکھیں کہ جس میں آپ کی محنت و لگن شامل ہو، جستجو ہو کچھ پانے کی …
کیا آپ کو اپنی ایک سال کی عمر کی باتیں یاد ہیں؟ نہیں نا مگر سائنس کا ماننا ہے کہ ہرشخص یہ یادیں دہرا سکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کو حیرت ہو مگر یہ دعویٰ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیاہے۔نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ماضی کا یہ نظریہ غلط ہے کہ کسی بھی انسان کو ساڑھے 3 سال کی عمر سے پہلے کی باتیں یاد نہیں رہتیں…سائنس تو یہ فلسفہ آج پیش کررہی ہے جب کہ ہمارے ہاں اردو محاورے میں یہ بات برسہا برس پہلے کہی جا چکی ہے کہ ہم کوشش کریں تو کسی کو چھٹی کا دودھ تک یاد دلاسکتے ہیں …وہ چھٹی جو بچے کی پیدائش کے چھٹے دن بطور رسم منائی جاتی ہے …جب کہ سائنسداں ایک سال کی باتوںکو یاد کروانے کی بات کرر ہے ہیں…قصہ مختصر یہ کہ آج کی سائنس ہمارے کل کے اردو محاورے سے پیچھے بہت پیچھے ہے…
کہا جارہا ہے کہ مرد حضرات خواتین کے مقابلے میں زیادہ بھلکڑ ہوتے ہیں اور وہ اکثر عام تو کیا خاص باتیں تک بھولنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ انکشاف ناروے میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے۔ ناوریجن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیق کے بقول عمر چاہے 30 ہو یا 60 سال مرد ہمیشہ ہی خواتین کے مقابلے میں زیادہ بھلکڑ ثابت ہوتے ہیں، اس تحقیق کے نتائج نے محققین کو بھی ششدر کرکے رکھ دیا…لیکن ہم ہرگز حیران نہیں ہوئے ،کیوں کہ ہمارے پاس پھول بانو ایسی روشن مثال ہیں کہ جو ایسی ایسی باتیں یاد رکھتی ہیں جنہیں ہم بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں ۔ہم چشمہ آنکھ پر لگائے سارا گھر اسے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور پھول بانو کو ہم نے ایسا کرتے کبھی نہیں دیکھا…اف ہو…خود کو بھلکڑ ثابت کرنے کی چاہ میں ہم یہ بھی بھول گئے کہ پھول بانو تو چشمہ لگاتی ہی نہیں ہیں …
سائنس نے خوب ترقی کی ہے اور ہم سائنسدانوں کی کاوشوں کو رات دن استعمال کرتے کرتے خود انتہائی کند ذہن ہوتے جارہے ہیں …انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہمیں ہر سوال تک فوری رسائی کی سہولت فراہم کی ہے مگر اس چیز نے ہم کو بطور خاص نوجوانوں کو غائب دماغ بنانا شروع کردیا ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اب تو صورتحال یہ ہے کہ لوگ انٹرنیٹ سرچ انجن کو ایک علیحدہ ٹول سمجھنے کی بجائے اپنی ذہانت کا حصہ تصور کرنے لگے ہیں اور اسی وجہ سے اکثر منہ کی کھاتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گوگل یا دیگر سرچ انجنس پر انحصار کی بدولت ہم ان حقائق کو بھی یاد نہیں رکھ پاتے جو ہم آن لائن جان چکے ہوتے ہیں… ایک وقت تھا جب ہمیں اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کے لینڈ لائن نمبرس زبانی یاد رہا کرتے تھے، جیسے ہی کسی رشتے دار کا نام لیا جاتا ، فوری ہماری زبان پراس رشتے دار کا لینڈ لائن نمبر آجاتا …اورآج ہمیں موبائل فون کا سہارا لینا پڑتا ہے، ہمارے درمیان کچھ ذہین حضرات تو ایسے بھی ہیں جنہیں خود اپنا نمبر یاد نہیں رہتا …کیلکولیٹر نہیں تھا تو ہم سارا حساب زبانی کرلیا کرتے تھے اور آج یہ عالم ہے کہ ہم دو اوردو کا حساب بھی کیلکولیٹر پر کرتے ہیں …زبانی حساب کربھی لیں توکیلکولیٹر پرجب تک انگلیاں نہ نچائیں ہمیں چین نہیں پڑتا …
اس کائنات میں ہر ذی روح حافظہ کی قوت رکھتی ہے، ماہرین بتاتے ہیں کہ چند گرام کا دماغ رکھنے والی گلہریاں اور بعض پرندے مہینوں بعد یاد کر سکتے ہیں کہ اْنہوں نے اپنی خوراک کس جگہ چھپائی ہے… لیکن سوا کلو کا سپر کمپوٹر جیسا دماغ رکھنے والا انسان ایک گھنٹے میں بھول جاتا ہے کہ اس نے کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔ ہمارے اردگرد موجود لوگوں میں کچھ کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں چیزیں یاد کرنے اور ماضی کھنگالنے میں دقت محسوس ہوتی ہے…کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یادوں کی یلغار ہوجاتی ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ذہن خالی خالی سا رہتا ہے … بقول حسرتؔ موہانی:
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
ہم اپنے دماغ سے دن رات خوب کام لیتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ ہوں گے جودماغ پر زور ڈال کر دماغ سے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہوں گے…جسسے متعلق ایسی ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جو کسی جادو سے کم نہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ جادوئی دنیا کہیں دور نہیں بلکہ ہمارے ہی اندر بسی ہے۔ دماغ کی سب سے عمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ خوشگوار یادوں کوزیادہ محفوظ رکھتا ہے اور ناگوار واقعات کو جھٹک دیتا ہے … بلاشبہ یہ بھی ایک نعمت ہے ،ورنہ آدمی ناخوشگواردل دہلا دینے والے واقعات کو دل سے لگا کر پاگل ہی ہوجاتا …
بے شک:
’’تم اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاوگے‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰