سوشیل میڈیامضامین

ٹوپیاں

دراصل ہماری تہذیب میں سر ڈھانکنا خاص طورپر داخل ہے ۔ عورتیں اپنی ساری کے پلو سے یا پھر چادر سے سر ڈھکتی ہیں تو مرد پگڑی سے۔ چاہے وہ غم کا موقع ہو یا پھر خوشی کا آج بھی اگر ٹوپی نہ ہو تو مرد سر پر دستی یا پھر ہاتھ ہی رکھ لیتے ہیں جب کہ مغرب میں مرد سر سے ہیٹ اتار لیتے ہیں ۔ چاہے بزرگوں سے مل رہے ہوں یا کسی غمی کی تقریب میں شرکت کررہے ہوں اپنا ہیٹ اتار دیتے ہیں ۔

اودیش رانی

اردو زبان میں ٹوپی ، پگڑی اور دستار کی خاصی اہمیت ہے ۔ ٹوپی ڈالنا، پگڑی اچھالنا ، دستار اتارنا ، دھوکا دینا ، بے عزت کرنا ، افسوس ظاہر کرنا جیسے محاورے شامل ہیں ۔

حیدرآباد میں سالار جنگ ڈیوڑھی کے سامنے ٹوپیوں کا بڑا بازار تھا اور انگریزی میں کیاپ مارٹ کہلاتا تھا۔ اب یہاں صرف شادی کا سامان جیسے ، مچھر دان تکیے بکتے ہیں، دستار بنانے والے اور رومی ٹوپی بنانے والے کہیں نہیں رہے…

اگر ہم مشرقی ممالک کی تصویریں دیکھیں تو آپ کو سر پر ٹوپیاں نہیں ملیں گی۔دیگر ممالک میں بالوں والی ٹوپیاں مل جاتی ہیں مگر گاندھی ٹوپی ، رام پوری ٹوپی ، قراقرمی ٹوپی اور رومی ٹوپی حیدرآباد میں عام تھیں ۔گاندھی ٹوپی آزادی کے بعد خاصی مقبول ہوئی اوراس کی شناخت سیاسی تھی۔ یہ عام طورپر سفید کھادی کی بنی ہوتی تھی۔ مجھے جہاں تک یاد ہے نواب مہدی نواز جنگ سفید گاندھی ٹوپی نہیں پہنتے تھے بلکہ وہ اپنی نہرو جیکٹ سے ملتے ہوئے رنگ کی گاندھی ٹوپی پہنتے تھے…

آزادی سے پہلے مسلمانوں اور کائستھوں میں دستار ہی استعمال ہوتی تھی۔تقریبات میں دستار کی خاصی اہمیت ہے ، یہ آٹھ گز نفیس ترین ململ سے بنائی جاتی ہیں۔ سر پر درمیان میں روٹی کی شکل میں کپڑا ہوتا ہے جس کے اطراف سات پلیٹیں دائرے کی شکل میں ہوتی ہیں ، سامنے تاج کی شکل ہوتی ہے ۔ گھر میں تین رنگ کی دستاریں ہوتی تھیں ۔ کالی ، سفید اور گلابی ۔ کالی اگر غمی ہواور سفید عام طورپر استعمال ہوتی تھی جب کہ گلابی شادیوں میں استعمال ہوتی تھیں۔ لاڈ بازار میں دستار یں کرائے پر بھی ملتی تھیں۔

امیر گھرانے کی شادی تھی ، نوشہ نئے رجحانات کے تھے، سیول سرویس امتحان پاس تھے ،چنانچہ وہ بجائے شیروانی کے جدید لباس یعنی شرٹ پتلون میں چلے آئے ۔جس کے بعد صاحب دولت نے اپنے سبھی مہمانوں کے لیے شیروانی اور گلابی دستار لاڈ بازار سے کرائے پر منگوالیں اور دولہے کو بھی ایک شیروانی اور دستار منگوائی مگر نوشہ نے کہا کہ میں اپنے لباس میں ہی ٹھیک ہوں ۔ خیر شادی ہوگئی مگر دستار کی اہمیت سارے براتیوں کو معلوم ہوگئی۔

خیر دستار اور رومی ٹوپی بنانے والے محمدیہ کیاپ مارٹ کے سامنے تھے، ان کے پاس عجیب سے اوزار ہوتے تھے اوروہ بآسانی دستار کو باندھ دیا کرتے تھے۔

رومی ٹوپی :جس نے بھی نظام سابع کو عام لباس میں دیکھا ہے ان کو یاد ہوگا کہ وہ لال رنگ کی ٹوپی جو مخروطی ہوتی تھی اور اس پر ایک پھندنا ہوتا تھا ، پہنا کرتے تھے۔ اس کو ترکی ٹوپی یاپھر رومی ٹوپی کہا جاتا تھا ۔ یہ ٹوپیاں اکثر عید بقر عید پر نظر آتی تھیں۔ اب ایسی ٹوپیاں بنانے والوں نے اپنا روزگار بدل دیا ہوگا کیوں کہ جس جگہ یہ بنائی جاتی تھیں وہاں اب سیوئنگ مشین کی مرمت کی دکانیں ہیں ۔

اب رومی ٹوپیاں تقریباً نا پید ہوگئی ہیں، تقریباً چالیس سال بعد میں نے یہ ٹوپی مرحوم رحمان جامی صاحب کے سر پر دیکھی تو معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف غزلیات لکھتے رہے ، کلیات جمع کرتے رہے بلکہ ٹوپیاں جمع کرنا بھی ان کا شوق تھا…

قراقری ٹوپی ،کشتی نما تو ہوتی تھی مگر ایک مخصوص بھیڑ کے بالوں سے تیار کی جاتی تھی جو گھنگریالے ہوتے ہیں ۔ ان بھیڑوں کے لیے مناسب مقام راجستھان کے صحرا ہیں ، یہ قدرے قیمتی ہوتی تھی ۔ عام طور پر ہندو حضرات کے معمول کی ٹوپی تھی یعنی دفتر میں اس کا بطور خاص استعمال ہوتا تھا ۔ کبھی کبھار تقاریب میں بھی پہن لیتے تھے۔ رام پور جو چاقو کے لیے مشہور ہے ، وہاں کی ٹوپی بھی عام ہے ۔ یہ مخمل کی کشتی نما ہوتی ہے ۔ ابھی بھی ہم کو رام پوری ٹوپی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ڈاکٹر کرن سنگھ، وہی ٹوپی پہنا کرتے تھے، اس کے علاوہ خرگوش کے بالوں کی ٹوپی بھی بنائی جاتی تھی۔ پتا نہیں کیوں کھادی کی بنی کشتی نماٹوپی گاندھی جی سے منسوب ہے ۔ کیوں کہ میں نے گاندھی جی کی بیشتر تصویروں میں ان کو چادر میں لپٹا ہوا ہی دیکھا ہے ۔ ہاں یہ ٹوپی جواہر لال نہرو نے بہت پہنی ہے ، آخر کار یہ ٹوپی کانگریس سے منسوب ہوگئی ۔ کانگریس کے سبھی قائدین یہ ٹوپی پہنتے ہیں، عام طور پر درزی ان کو سی دیتے ہیں۔

نمازی ٹوپیاں: یہ کروشیا سے عام طور پر بنائی جاتی ہیں کبھی کبھی کپڑے کی بھی مل جاتی ہیں ، عموماً گول ہوتی ہیں۔

یہاں میں خاص ٹوپی کا ذکر کرنا چاہوں گی جوپشواز پر خواتین پہنا کرتی تھیں، یہ ٹوپی گول یا چوکور ہوتی تھی۔ پیشانی پر ٹیکہ ہوتا اور کارچوب کا کام ہوتا اور اسی میں کالے دھاگے کی چار یا چھ چوٹیاں ہوتی تھیں جن میں کناری کی موباف ہوتی تھی۔

انگریزوں کی آمد نے ہیٹ کو ہمارے کلچر میں داخل کردیا جو عام طور پر سوٹ کے ساتھ پہنی گئی۔

دراصل ہماری تہذیب میں سر ڈھانکنا خاص طورپر داخل ہے ۔ عورتیں اپنی ساری کے پلو سے یا پھر چادر سے سر ڈھکتی ہیں تو مرد پگڑی سے۔ چاہے وہ غم کا موقع ہو یا پھر خوشی کا آج بھی اگر ٹوپی نہ ہو تو مرد سر پر دستی یا پھر ہاتھ ہی رکھ لیتے ہیں جب کہ مغرب میں مرد سر سے ہیٹ اتار لیتے ہیں ۔ چاہے بزرگوں سے مل رہے ہوں یا کسی غمی کی تقریب میں شرکت کررہے ہوں اپنا ہیٹ اتار دیتے ہیں ۔

مغلوں اور راجپوتوں نے پگڑی باندھی تھی اور ان پگڑیوں کی خوبی یہ تھی کہ مالکین اور ملازمین کی پگڑیوں میں فرق ہوتا تھا، کپڑے اور رنگ میں بھی۔ شاہوں کی پگڑیاں زرین کپڑے کی ہوتی تھیں جب کہ ملازمین کی پگڑیاں رنگ برنگی اور سوتی کپڑے کی ہوتی تھیں ۔ اب پگڑی صرف سردار جی کی رہ گئی ہے ، ویسے سفید پگڑی والے سردار نرنکاری ہوتے ہیں اور آج کل نوجوان سردار میاچنگ پگڑیاں پہنتے ہیں ۔ موجودہ دور میں جو ٹوپیاں ہیں وہ گول پولیس والوں کی پلاسٹک کی ٹوپی ہے ۔ حیدرآباد میں پہلے پولیس والوں کی بھی پگڑیاں ہوتی تھیں جو کالے اور پیلی لکیروں والی ہوتی تھیں۔ اب بازار میں کچھ ہیٹ جیسی گول ٹوپیاں بکنے لگی ہیں جو لڑکیاں او رلڑکے دونوں پہنتے ہیں ۔ ان ٹوپیوں پر عجیب عجیب باتیں لکھی ہوتی ہیں ۔ جیسے کہ:

India’s Most Wanted
Don’t Love Me
Meet Me Again

آج بھی ٹوپی ہماری تہذیب کا حصہ ہے چاہے وہ ہیٹ نما ہو ، کشتی نما ہویاپھر کپڑے کی نمازی ٹوپی ہو۔یہ اور بات ہے کہ پشواز والی ٹوپی شاید آخری بار فلم ’’ مغل اعظم‘‘ میں نگار سلطانہ نے پہنی تھی اب تو فلمو ں میں بھی یہ ٹوپی نہیں دکھائی دیتی ۔اسی طرح رومی ٹوپی ، قراقری ٹوپی بالکل ہی نا پید ہیں ۔ خرگوش کے بالوں کی ٹوپی آج دیکھنے کو مل جاتی ہے، باقی سب ٹوپیاں تو اچھالی جا چکی ہیں ۔
٭٭٭