مضامین

پاکستان کا سیاسی و معاشی بحران اور عالمی تبدیلیاں

منور مرزا ……(پاکستانی نقطہ نظر)

پاکستان اِن دنوں دو طرح کے چیلنجز کاسامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف اندرونی سیاسی کش مکش برقرار ہے، تو دوسری طرف، اسے سخت معاشی بدحالی کا سامنا ہے، جس میں فوری بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی مہنگائی اور سیاسی و سفارتی جوڑ توڑ نے ہمارے خطّے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بڑی طاقتوں میں کش مکش بڑھ رہی ہے کہ ایک طرف روس اور چین ہیں، تو دوسری طرف امریکہ اور یوروپ کھڑے ہیں، جب کہ ہندوستان اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک تعلقات میں توازن کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اِس کش مکش میں اپنے مفادات کو نقصان سے بچائیں۔
پاکستان جیسے معاشی طور پر کم زور ممالک میں جب بھی اندرونی تقسیم اور تناؤ بڑھتا ہے، تو اْن کے لیے سب سے بڑی آزمائش مختلف ممالک کو اپنے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے روکنا ہوتا ہے، کیوں کہ اْن کی دخل اندازی سے معاملات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کا ا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے زیادہ تر ہم سایوں سے تعلقات معمول پر نہیں رکھے۔ وہ ایک طرف تو آزاد اور خود مختار پالیسیز کی آرزو رکھتا ہے، لیکن دوسری طرف وہ سارے کام کرتا رہا، جنھوں نے مْلک کوغیرمْلکی قرضوں اورکچھ ایسے معاملات میں اْلجھا دیا کہ جن کی وجہ سے ملک اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔ آج ملک کو سیاسی اور معاشی، دونوں ہی طرح کی مداخلتوں کا سامنا ہے۔ سیاسی مداخلت توخود پاکستان کے قائدین کی دعوت پر شروع ہوئی۔
عمران خان نے نام نہاد سائفر لہرا کرجس اندازمیں امریکہ کو للکارا، وہ بہادری نہیں، بلکہ ڈپلومیسی سے لاعلمی تھی۔ کسی ثبوت کے بغیر ایک بڑی طاقت سے سینگ لڑانے میں توانائیاں خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جب اِس پالیسی کے نقصانات نے قوم کو گھیرا، تو بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ ”میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“ کیا کسی سابق وزیرِ اعظم کو، جو ساڑھے تین سال اقتدار میں رہا ہو، یہ بھی بتانا پڑے گا کہ قوم کو کِن کِن معاشی معاملات میں کس کس کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔
اس وقت ملک جس سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، اِس میں ہر بیرونی طاقت کو موقع مِل رہا ہے کہ وہ اپنی مرضی کا میدان چْنے اور پاکستان پر وار کرے۔ دوسری جانب، امریکہ اور مغربی ممالک میں پاک فوج کے سربراہ کے خلاف خودساختہ جلاوطن ”دانش وَروں“، نام نہاد صحافیوں اور پاکستانی تارکینِ وطن کے ذریعے جس قسم کی گھناؤنی مہم چلوائی جا رہی ہے، وہ بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ خارجہ امور میں قومی مفادات کا تحفّظ سب پرفوقیت رکھتا ہے، لیکن شایدقوم کو سمجھانے کے لیے ارسطو کو دوبارہ پیدا ہونا پڑے گا۔
حال ہی میں امریکہ کے ایک سابق نمائندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد کے حوالے سے جو چشم کْشا انکشافات سامنے آئے، وہ بہت ہی تشویش ناک ہیں۔ وہ جس طرح گزشتہ 25 برسوں سے پاکستان مخالفت میں پیش پیش رہے، یہ کوئی راز نہیں۔ پھر مسلم دنیا میں اْنھیں امریکی ایجینسیز نے جس طرح استعمال کیا، اس سے بھی اہلِ علم واقف ہیں۔اب وہ پاکستان کو ڈکٹیشن دے رہے ہیں کہ اْسے کیا کرنا چاہیے، جب کہ اْن کے پاس کوئی سرکاری یا حکومتی عہدہ بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، امریکہ، چین، روس یہاں تک کہ مسلم ممالک کے سفیر بھی اپنے بیانات کے ذریعے پاکستانیوں کو نصیحتیں کررہے ہیں۔ کیا اِسی حقیقی آزادی اور خْود مختاری کے لیے ہم اِس خود ساختہ بحران میں مبتلا ہوئے بیٹھے ہیں۔
اب عالمی صورتِ حال پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ روس، یوکرین جنگ جاری ہے۔ چین کے صدر، شی جن پنگ، سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ کروانے کے بعد اِس جنگ کے خاتمے کے لیے بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ وہ مارچ کے آخری دنوں میں روس گئے۔ اْنہوں نے صدر پوٹن کو”ڈیئر فرینڈ“ کہہ کر پکارا، گویا روس سے قریبی تعلقات کا اعادہ کیا۔ گو، وہ اِس سے قبل صدر جوبائیڈن کو بھی ”اولڈ فرینڈ“ پکار چْکے ہیں۔ تاہم، جب سے ناٹو نے روس کو نمبر ایک اور چین کو نمبر دو دشمن قرار دیا ہے، دونوں طاقت وَر ہم سایوں کے تعلقات میں گرمی محسوس ہو رہی ہے۔
چین اور ہندوستان روس سے تیل خریدکر اسے مغربی پابندیوں کے منفی اثرات سے بچا رہے ہیں۔ تاہم، یہ ذہن میں رہے کہ جس وقت سوویت یونین بکھر رہی تھی، اس وقت یہ دونوں دوست ایک طرف کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ چین کا روس پر بہت کم انحصار ہے، جب کہ اس نے سعودی عرب اور ایران سے معاہدہ کرکے روسی تیل پر انحصار تقریباً ختم کر دیا ہے۔ روس، اب چین کی دوستی سے زیادہ اْس کی فیاضی کا محتاج ہے۔ روس نے جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے، جب کہ چین نے ایسی کوئی حماقت نہیں کی۔ وہ تائیوان کے معاملے پر بھی ڈپلومیسی ہی سے کام لے رہا ہے اور تصادم سے گریزاں ہے۔
صدر پوٹن اور صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات میں یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق کوئی ٹھوس لائحہ ٓ عمل سامنے نہیں آیا۔ چین نے جو تجاویز پیش کیں، ان پر صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ اْن میں سے کئی نقاط کسی امن معاہدے میں شامل کیے جا سکتے ہیں، لیکن دوسرے فریق، یعنی یوکرین اور مغرب کا اْن پر راضی ہونا ضروری ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو یہ دو طرفہ ملاقات بنیادی طور پر دو طرفہ معاملات ہی پر ختم ہوئی، کیوں کہ دونوں رہنماوٓں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چین نیوٹرل ہے۔
اس دورے میں جن دستاویز پر دست خط کیے گئے، اْن میں سے ایک باہمی تجارت کے فروغ پر مشتمل تھی اور دوسری، چین کو سائبیریا سے گیس سپلائی سے متعلق تھی۔ ناٹو کی بڑھتی طاقت اور اْس کے ایشیا میں پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا گیا، جب کہ آکوس معاہدے کے تحت آسٹریلیا کو ایٹمی آب دوز کی فراہمی پر بھی تشویش کا لفظ استعمال کیا گیا، حالاں کہ آکوس معاہدے سے پیسیفک اورمشرقی بحرِہند میں آسٹریلیا کے نیوکلیئر پاور ہونے سے نئی تبدیلیاں رْونما ہوں گی۔ لگتا ہے کہ انڈونیشیا میں امریکہ اور چین کے صدور کی جو طویل بات چیت ہوئی، وہ خاصی کام یاب تھی، کیوں کہ وہاں دونوں ممالک نے عالمی امن کے لیے جو روڈ میپ طے کیا، وہی مستقبل قریب میں دنیا کو محاذ آرائی سے روکنے کی بنیاد بنے گا۔
ویسے بھی صدر پوٹن نے امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کی بجائے یوکرین پر یورش کو ترجیح دی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اْن کی نظریں یوروپ میں پیش قدمی پر مرکوز ہیں۔ ایک اور توجّہ طلب بات یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں کی بات چیت میں افغانستان کے بحران کا ذکر نہیں آیا۔ کم ازکم ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں تو اس کا ذکر شامل نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ روس اور چین دوحہ مذاکرات میں طے پانے والی باتوں سے متفق ہیں۔ اب طالبان کو تسلیم کرنا یا اْنھیں اقتصادی طور پر مضبوط کرنا اْنہی شرائط سے منسلک ہے، جن کا اس معاہدے میں ذکر ہے۔ کیا وہ اِس امر پر بھی مطمئن ہیں کہ بھارت کا ماضی کی طرح کابل میں اثر ورسوخ بڑھے؟اِس ضمن میں دو باتیں غور طلب ہیں۔
ایک تو بھارت کا اقتصادی طور پر طاقت وَر بننا اور دوسری بات پاکستان کی کم زور ترین معیشت ہے، جو سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ اِس امر پر غور کی ضرورت ہے کہ اسلام آباد اپنی کم زور معیشت اور اندرونی سیاسی کش مکش کی وجہ سے علاقائی سیاست میں کس حد تک غیر موثر ہوتا جارہا ہے؟ ہمارے سیاسی ماہرین اور دفاعی تجزیہ کار امریکہ کے خطے سے جانے کے بعد کے منظر نامے میں جو خواب دِکھاتے تھے، وہ تو کم زور معیشت کی وجہ سے اْلٹ ہوگئے ہیں۔ کہاں پاکستان کی ایک موثر قوّت بننے کی خوشیاں، غلامی کی زنجیریں توڑنے کا جشن اور کہاں قرضوں کی گارنٹی کے لیے در در پِھرنا۔
طالبان حکومت نے پاکستان سے روزانہ پچاس لاکھ ڈالرز کی اسمگلنگ سے اپنے روز مرّہ کے کام چلا لیے، مگر اپنے محسن پاکستان کو معاشی طور پر بیمار کر ڈالا۔ صْورتِ حال یہ بن رہی ہے کہ طالبان، جن کے ہم سرپرست تھے، وہ اب بھارت سے ہاتھ ملارہے ہیں۔ روس، بھارت کاقریبی حلیف اور فوجی پارٹنر ہے۔ چین اْس کے شنگھائی فورم اور برکس بینک کا ساتھی ہونے کے ساتھ اْس سے ایک سو بلین ڈالرز سے زیادہ کی مشترکہ تجارت کر رہا ہے۔ جب کہ ہم اس سارے منظر نامے سے مکمل طور پر باہر ہیں، کیوں کہ ہمارے ملک کے رہنما ”غدّار، غدّار“ کے نعروں پر خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔
تیل کی قیمتیں پھر گرنا شروع ہوگئی ہیں، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے سودمند ہیں، تو پریشان کن بھی۔ فائدہ مند تو اِس لیے کہ درآمدات کا بِل بہت کم ہوجائے گا، کیوں کہ تیل مارکیٹ اب ساٹھ ڈالر فی بیرل تک گر چْکی ہے اور پاکستان کی کوشش ہے کہ روس سے45 ڈالر پر سودا ہوجائے۔ اگر تیل کی قیمت میں ذرا بھی کمی ہوئی، تو یہ ممکن ہوجائے گا۔ دوسری طرف، تیل پیدا کرنے والے ممالک میں پھر الارم کی سی کیفیت ہے۔ شاید وہ اِسی لیے آئی ایم ایف کو قرضوں کی ضمانت دیتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں اور یہ ہمارے لیے پریشان کْن ہے۔ ہم عربوں کو ناراض نہیں کرسکتے ہیں اور روس سے کم قیمت پر تیل بھی خریدنا چاہتے ہیں۔
چین کی ایسی صورت میں اِس بات پر نظر ہوگی کہ روس جنگ کی دلدل میں پھنس کر کس حد تک کم زور ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو اْس کا بڑا حریف صرف بھارت رہ جائے گا۔ اِسی لیے امریکہ، یوروپ اور جاپان، ہندوستان کو بہت مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس کی معیشت بھی دو سال سے دنیا میں سب سے تیز رفتار رہی ہے۔ اِس منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اب کھیل تماشے بند کرکے علاقے میں اپنی پوزیشن پر توجہ دینی ہوگی۔ گزشتہ چھہ ماہ میں ہم جس بْری طرح لڑکھڑائے، اْس سے تو یہ اشارے ملتے ہیں کہ اگر ہم نے خْود اِس بحران پر قابو نہ پایا، تو باہر سے کسی امداد کی توقّع فضول ہوگی۔
حال ہی میں مغربی ممالک میں بینکس کا بحران آیا ہے۔ امریکہ کے سلی کون ویلی بینک کے دیوالیہ ہونے کے بعد یوروپ کا سب سے بڑا بینک، کریڈٹ سوئس بھی انتہائی مشکل میں ہے۔ کچھ ماہرین تو اِن حالات کو2019 ء سے مماثل قرار دے رہے ہیں، جب امریکہ سے شروع ہونے والے لے مین برادرز کے پراپرٹی قرضوں نے مالیاتی بحران پیدا کیا اور جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بَھر کو مالیاتی مسائل سے دوچار کر دیا تھا۔ یہ بحران پانچ سال تک چلا، مگر زیادہ تر معاشی ماہرین حالیہ بینکس بحران کو محدود نوعیت کا مالیاتی مسئلہ قرار دے رہے ہیں، جس سے جلد نجات مل جائے گی، لیکن یہ پاکستان کے لیے پھر بھی الارمنگ صورتِ حال ہے کہ ہمارا بینکنگ سیکٹر ملک کے مالیاتی نظام میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
پہلی افغان وار کے موقعے پر پاکستان کی جیو اسٹریٹیجک اہمیت کا سبق پڑھایا جاتا تھا، حالاں کہ ایسا کچھ نہیں تھا اور پالیسی بنانے والے سراب کے پیچھے دوڑتے رہے اور آج ناکام ہونے کے بعد ہانپ کر بیٹھ چکے ہیں۔ یہ باتیں عام تھیں کہ پاکستان میں زیرِ زمین تیل کے بے پناہ ذخائر ہیں، بس انہیں نکالنے نہیں دیا جاتا۔ ہرحکومت نے تیل نکالنے کی کوشش کر کے دیکھ لی، یہاں تک کہ چار، پانچ مرتبہ سمندر میں بھی ڈرلنگ کی گئی، مگر تیل نہ نکلا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو یا کوئی بھی رہنما اقتدار میں آجائے، ملکی قدرتی وسائل کبھی بھی ہماری ضروریات پوری نہیں کر سکیں گے، ہمیں لامحالہ بہت سی اشیاء درآمد کرنی ہی پڑیں گی۔
کہا گیا کہ جتنی آبادی زیادہ ہوگی، اْتنی ہی طاقت بڑھے گی اور ہمارا دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے لگے گا، اِس ضمن میں چین اور بھارت کی مثال دی جاتی رہی، لیکن یہ 22 کروڑ کی آبادی اب بوجھ بن چْکی ہے۔ جن ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، اْنھوں نے اپنی آبادی کو تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا اور ہم نے ایک جذباتی نسل پیدا کرنے کے سِوا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ جسے میر جعفر اور میر صادق کے قصّے سْنائے گئے، تو کبھی سری لنکا کے غرق ہونے سے خوف زدہ کیا گیا، کبھی ایرانی انقلاب کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ یہاں کے حالات کیا ہیں اور وہاں کے حالات کیا تھے۔ افسوس کہ یہ سیاسی دانش وَری صرف پاکستانی عوام ہی کے لیے رہ گئی ہے۔
٭٭٭