مضامین

کرناٹک میں جمہوریت کا امتحان!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

جنوبی ہند کی اہم ریاست کرناٹک میں 10 مئی کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہو نے جا رہے ہیں۔ مجوزہ انتخابات کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ الیکشن ملک کی سیاسی سمت کو متعین کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ اب جب کہ الیکشن کا مرحلہ بالکل قریب آ چکا ہے ،سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ریاست میں بر سر اقتدار بی جے پی حکومت نے یکم مئی کو اپنا انتخابی منشور بھی جاری کر دیا۔ ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن کا رول ادا کرنے والی کانگریس پارٹی نے دوسرے دن 2 مئی کو اپنا منشور جا ری کر تے ہوئے ریاستی عوام سے بہت سارے وعدے کئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی نگرانی میں 224 رکنی اسمبلی کی تمام نشستوں پر انتخابات کرائے جارہے ہیں۔ 13 مئی کو ووٹوںکو گنتی ہو گی اور اسی دن نتائج کا اعلان کر دیاجائے گا۔ جس پارٹی کو کم از کم 113نشستوں پر کامیابی ملے گی وہ حکومت بنا سکے گی۔ آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ کرناٹک میں اگلی حکومت کانگریس کی ہوگی۔ لیکن ہندوستانی سیاست میں آخری دنوں میں کوئی بھی کرشمہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ کانگریس بھاری اکثریت سے کرناٹک میں اپنی جیت درج کرائے گی۔ کرناٹک کے رائے دہندں کے لئے آنے والا الیکشن ایک بڑی آزمائش ہے۔ بی جے پی نے اپنے گزشتہ چار سالہ دورحکمرانی میں ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول کو بڑھاوا دے کر جس انداز میں عوام کے ذہنوں کو پراگندا کیا اس سے وہاں کے انصاف پسند اور باشعور عوام اچھی طرح واقف ہیں۔ خاص طور پر گز شتہ دو سال کے دوران ریاست کے چیف منسٹر بسوارج بومئی نے اپنی عدم کارکردگی کی پردہ پوشی کرتے ہوئے جن حساّس موضوعات کو کرناٹک میں چھیڑا ہے، اس سے ان کی تنگ نظری کا کھلا اظہار ہو تا ہے۔ ریاست کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہہبود کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے بومئی حکومت نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی پوری کوشش کی۔ سب سے پہلے مسلم لڑکیوں کے لئے تعلیم کے دروازے بند کرنے کے لئے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی۔ اس مسئلہ کو ایک سنگین مسئلہ بناکر پیش کرتے ہوئے پوری ریاست کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ جب کہ حجاب کا مسئلہ مسلمانوں سے متعلق ہے۔ مسلم طالبات اگر حجاب میں رہ کر تعلیم حاصل کرتی ہیں تو اس سے دوسروں کو تکلیف کیوں ہے۔ محض مسلم دشمنی کی بنیاد پراس مسئلہ کو اتنا طول دیا گیا کہ یہ مسئلہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت تک پہنچ گیا۔ پھر دیگر فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل بی جے پی کی جانب سے زیر بحث لائے جاتے رہے۔ ان میں لو جہاد کا مسئلہ، حلال گو شت پر امتناع کا مطالبہ، مساجد میں لاوڈ اسپیکر پر دی جانے والی اذانیں، کھلی جگہ پر نماز جمعہ پڑھنے پر پابندی اور یہ کہ مسلمانوں کی عید گاہوں میں مورتیوں کو نصب کرنا وغیرہ ایسے متنازعہ عنوانات کو چھیڑ کر بر سر اقتدار پارٹی نے عوام کو گمراہ کرکے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کر لی۔ اب جب کہ الیکشن سَر پر آ گئے ہیں تو پھر ہندوتوا کا بھوت بی جے پی کے قائدین پر سوار ہو گیا ہے۔ اسمبلی الیکشن سے عین قبل کرناٹک کے مسلمانوں کو دیے جانے والے تحفظات بھی ختم کر دئے گئے۔ سپریم کورٹ نے بی جے پی حکومت کے اس اقدام پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے حکومت کے فیصلہ پر حکم التواءجا ری کر دیا۔ 9 مئی کو سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر بحث ہو گی۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ حکومت کے اس اقدام کو کالعدم کردے گی ، کیوں کہ یہ تحفظات مذہب کی بنیاد پرنہیں بلکہ معاشی پسماندگی کی بنیاد پر دیے گئے ہیں۔
ان ساری فرقہ وارانہ کارستانیوں کے باجود بی جے پی کو ڈر ہے کہ وہ دوبارہ ریاست میں حکومت بنابھی سکے گی یا نہیں۔ اس لیے پھر ایک بار متنازعہ موضوعات کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کر تے ہوئے اکثریتی طبقہ کو رجھانے کی ناکام کو شش کی جا رہی ہے۔ بی جے پی نے جو منشور یکم مئی کو جا ری کیا، اس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ اگر بی جے پی کرناٹک میں حکومت بناتی ہے تو ریاست میں یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے گا۔ منشور میں این آر سی کو بھی نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ بی جے پی حکومت نے پہلے ہی ریاست میں گاو¿ کشی پر امتناع عائد کر دیا ہے اور تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بھی نافذ العمل ہے۔ آئندہ بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو مذہبی بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کی جا ئے گی۔ بی جے پی کے اس سارے منشور میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ریاست کی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوںکے لیے کیا مراعات دی جا ئیں گی۔ پارٹی نے اپنے الیکشن مینی فسٹو میں اپنی اقلیت مخالف ذہنیت کا بھر پور مظاہرہ کیا تا کہ ریاست میں بدامنی اور مذہبی منافرت کا ماحول پیدا کرکے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ آیا دستور ہند نے کسی ریاست کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی مخصوص ریاست میں یکساں سول کونافذ کرے۔ یہ اختیار توپارلیمنٹ کو اس وقت حاصل ہے جب ہر مذہب کے لوگ یکساں سول کوڈ کے حق میں رائے دیں۔ دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی ۔ آر ۔ امبیڈکر نے دستور کے نفاذ کے وقت جاری مباحث کے دوران یہ بات آن ریکارڈ کہی تھی کہ ”عوام کی مرضی کے بغیر کوئی فاتر العقل حکومت ہی ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی حماقت کرے گی “دستور کے بانی کی اس واضح یقین دہانی کے بعد بھی کوئی فسطائی طاقت بروز قوت یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کرتی ہے تو یہ ملک کے دستور کی توہین ہے۔ بی جے پی قائدین دانستہ طور پر ان سارے موضوعات کو اس لئے چھیڑ رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے۔ رام مندر کا ایشو بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس لئے ہر الیکشن کے موقع پر نئے نئے جذباتی مسائل کو عوام کے درمیان لا کر یہ اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتے ہیں۔ جنوبی ہند میں خاص طور پر کرناٹک کو گجرات کے بعد ہندوتوا کی تجربہ گا ہ بنانے کی کوشش برسوں سے جاری ہے۔ 2007میں بی جے پی کو پہلی مرتبہ کرناٹک میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ بی۔ ایس ۔ یدی روپا ، بی جے پی کے پہلے چیف منسٹر رہے۔ اس وقت سے ہی وہاں بی جے پی اپنے سیاسی اثر کو بڑھانے میں لگ گئی۔ اس دوران حکومتیں بدلتی رہیں ، کانگریس اور جے ڈی ایس کو بھی حکومت کرنے کا اس دوران موقع ملا ۔ لیکن پھر اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ اب اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اقتدار اس کے ہاتھوں نکلنے نہ پائے۔ اس لئے جارحانہ فرقہ پر ستی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ پورا انتخابی منشور متنازعہ موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کرناٹک کے عوام کے لئے کیا فلاحی اقدامات کئے جائیں گے۔ بیروزگاری کے مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے گا۔ کسانوں کے ساتھ انصاف کیسے کیا جائے گا۔ غریب خاندانوں کو کچھ رعاتیں دینے کا وعدہ انتخابی منشور میں کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی کرناٹک کی انتخابی مہم میں حصہ لیا لیکن انہوں نے بھی عوامی فلاح و بہبود کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کی۔ امیت شاہ کی پوری انتخابی مہم فرقہ وارانہ نوعیت کی رہی۔ انہوں نے کرناٹک کی طرح تلنگانہ میں بھی ریزویشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ بی جے پی کے لئے کرناٹک کا الیکشن اس لئے اہم ہو گیا کہ آنے والے سال لوک سبھا کا الیکشن ہونے والا ہے۔ اس لئے ابھی سے ماحول کو کشیدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کرناٹک اسمبلی کا الیکشن 2024کے عام انتخابات کا ریہرسل ہے۔
کرناٹک اسمبلی کے انتخابات کانگریس کے لئے موت و زیست کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کانگریس نے بھی اپنا انتخابی منشور 2 مئی کو جاری کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگر کرناٹک میں کانگریس کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو وہ بی جے پی حکومت کی جانب سے منظور کئے گئے تمام غیر منصفانہ قوانین کو اندرون ایک سال منسوخ کر دے گی۔ ریزرویشن کی حد کو 50 فیصد سے بڑھا کر 75فیصد کرنے کا کانگریس نے وعدہ کیا۔ دیگر طبقات کے علاوہ اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کی بات کہی گئی۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا کی بی جے پی حکومت نے جو مسلم تحفظات ختم کر دیے ہیں، اسے بحال کر دیا جائے گا۔ کانگریس نے اپنے منشور میں یہ اعلان بھی کیا کہ ہندوتوا تنظیم بجرنگ دَل اور پی ایف آئی جیسی تنظیموں پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ پارٹی ایسے افراد اور تنظیموں کے خلاف سخت اور فیصلہ کن کارروائی کرے گی جو مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر سماج میں نفرت پھیلاتے ہیں۔ ریاست کے غریب عوام سے بھی بہت سارے وعدے کئے گئے ۔کانگریس قائد راہول گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی نے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے ریاست کے عوام کو تیقن دیا کہ وہ کرناٹک میں بڑھتی ہو ئی فرقہ پرست سیاست کو روکنے کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے لڑکھڑاتی کانگریس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ کرناٹک میں اس یاترا کا پہلا تجربہ ہوگا۔ اگر یہاں کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو آنے والوں دنوں میں کانگریس اپنی ساکھ کو اور بہتر بنا سکتی ہے۔ بی جے پی عوامی مسائل سے فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ کہنے کے بجائے کرناٹک کے عوام کے لئے انہوں نے کیا ٹھوس اقدامات کئے اس پر گفتگو کریں۔ کرناٹک میں کرپشن اس حد تک بڑھ گیا کہ وہاں کے چیف منسٹربھی مبینہ طور پر اس میں ملوث ہیں۔ مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔ حکومت کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ریاست کے غریب بھوکے مر رہے ہیں۔ ان کے منہ میں ہندوتوا کا نعرہ دے دیا گیا۔ اپنی ناکامیوں اور اپنے کئے ہوئے وعدوں کی عدم تکمیل پر بی جے پی کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ نزاعی مسائل کو چھیڑ کر اپنے حقیر مفادات کو پورا کرلے۔ کرناٹک کے عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ بھوکے اور فاقہ کش رہ کر ہندواتوا کا ساتھ دیں گے یا پھر ایک اطمینان اور سکون کی زندگی کی خاطر ایسی پارٹیوں کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے جو ریاست میں امن و سلامتی کی ضمانت دے رہی ہیں۔ عوام کے متحدہ ووٹ کے ذریعہ ہی انتشار پسند قوتوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ سیکولر ووٹوں کی تقسیم بی جے پی کے لیے راہیں ہموار کرے گی۔ بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ جے ڈی ایس بھی کرناٹک کے مخصوص علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ کانگریس اور جے ڈی ایس میں انتخابی مفاہمت ہوتی ہے تو یہ بہت اچھا اقدام ہوگا۔ لیکن تا دم تحریر ایسا کوئی اتحاد ان کے درمیان نہیں ہو سکا۔ اب کم ازکم رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ سیکولر پارٹی کا کون سا امیدوار بی جے پی کے امیدوار کو شکست دے سکتا ہے۔ اسی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرنا دانشمندی ہوگی۔ جہاں تک کرناٹک کے مسلمانوں کا معاملہ ہے ، ان کے لیے یہ الیکشن ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ امید ہے کہ کرناٹک کے سیاسی، ملّی اور مذہبی قائدین نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے اپنی سیاسی حکمت عملی بنائی ہوگی۔ ان کی اولین ترجیح سیکولر پارٹی کی کامیابی ہو ۔ اس نازک مرحلہ پر مسلمان صحیح فیصلہ کرنے میں ناکام ہوجائیں گے تو آئندہ پانچ سال ان کے لیے سوہان روح ثابت ہوں گے ۔ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے سے ہی قوموں کا مقدر سنورتا ہے۔ بعد میں کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔