سیاستمضامین

کیتلی کتنی بھی گرم ہوجائے کیتلی ہی رہتی ہے

ڈاکٹر عابد الرحمٰن ( چاندور بسوہ)

وہ مسلم مخالف پارٹی کا مسلم چہرہ سمجھا جاتا تھا ۔ حالانکہ ابتدا میں وہ آزاد امیدوار کے طور پر بھی الیکشن لڑ چکا تھا لیکن اس کی سیاسی اننگ کا باقائدہ آغاز اسی پارٹی سے ہوا ۔اس نے اس وقت پارٹی جوائن کی جب وہ اقتدار سے کوسوں دور تھی اور اس وقت بھی پارٹی نہیں چھوڑی جب پارٹی نے کھلم کھلا مندر مسجد اور ہندو مسلم کی سیاست کی جس سے اس کی اپنی قوم مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ۔پارٹی نے بھی تنظیمی عہدوں اور پھر اقتدار ملنے پر وزارت کی صورت اس کی وفاداری کا خاطر خواہ انعام دیا ۔ جب وہ پہلی بار الیکشن جیت کر لوک سبھا میں پہنچا اور اس کی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو اسے وزارت اطلاعات جیسا اہم قلمدان سونپا گیا۔ جب وہ الیکشن نہیں جیت سکا تو پارٹی نے اسے راجیہ سبھا میں نامزد کیا ۔ جب لوک سبھا چناؤ میں پارٹی نے ایک بھی مسلمان کو امیدواری نہیں دی تب بھی اسے وزیر مملکت بنایا گیا ۔ اس دوران اس نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی بھرپور کوشش کی ۔ جب گوشت کا مسئلہ آیا کہ اس کی پارٹی نے مختلف ریاستوں میں گائے کی نسل کے جانوروں کے ذبیحے پر پابندی لگادی اور لوگوں نے اس کی پارٹی پر تنقید کی تو اس نے پارٹی سے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ جو گوشت کھائے بغیر نہیں رہ سکتے انہیں چاہئے کہ پاکستان چلے جائیں یا عرب ممالک یا کسی اور مقام جہاں گوشت ملتا ہو ۔یعنی جو بات آزادی کے بعد سے ‘پاکستان یا قبرستان ‘ کے نعرے کے ذریعہ مسلسل کہی جاتی رہی تھی اس نے وہی بات سرکار کے ایک وزیر کے طور پر کہہ دی تھی ، حالانکہ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے اس بات پر اس کی سرزنش کی تھی لیکن شاہ نے کچھ نہیں کہا تھا کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ وزیر موصوف کا نشانہ کس کی طرف ہے اور بندہ وفادارہے ۔ اسے اس وفاداری کا صلہ بھی دیا گیا کہ اگلے ہی سال اسے نہ صرف راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا گیا بلکہ وزارت میں بھی ترقی دے کر کابینہ میں شامل کر لیا گیا ۔ سرکار کی دوسری معیاد میں بھی وہ اسی کابینی وزارت میں برقرار رکھا گیا۔امید تھی کہ سرکار اسے راجیہ سبھا میں نامزد کر کے اس وزارت میں برقرار رکھے گی ، کہ پارٹی میں اس کی حیثیت ایک مضبوط اور معتبر لیڈر کی سی سمجھی جاتی تھی لیکن جب پارٹی نے راجیہ سبھا کے لئے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا تو سمجھ میں آیا کہ وہ ایک مضبوط اورمعتبر لیڈر نہیں بلکہ پیادہ تھا ۔شاید اب کیتلی کا کام ہو چکا تھا لیکن وہ کیتلی چونکہ چائے سے بھی زیادہ گرم تھی اس لئے یہ مان لینا آسان نہیں تھا کہ اب وہ کباڑ کی نذر ہونے والی ہے سو قیاس آرائیوں کا دور شروع ہوایا خود پارٹی نے قیاس آرائیوں کو ہوا دی کہ آگے اس سیٹ پر لوک سبھا کے ضمنی چناؤ ہونے ہیں جو اس کا اپنا حلقہ تھی جہاں سے وہ ایک بار جیتا بھی تھا ، پارٹی اس کی وفاداری اور حب الوطنی کے بدلے اسے اس سیٹ سے امیدواری کا انعام دینے والی ہے۔یعنی لوک سبھا پہنچا کر اسے وزارت پر جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا ، لیکن ایسا ہوا نہیں پارٹی نے اس سیٹ سے کسی اور کو امیدواری دی اور وہ جیت بھی گیا، یہی نہیں جب اس کی راجیہ سبھا کی معیاد ختم ہوتے ہی اس سے وزارت کا استعفیٰ لے لیا گیا حالانکہ قانونی طور پر کوئی وزیر پارلمنٹ کا رکن نہ ہوتےہوئے بھی چھ مہینے تک وزارت میں برقرار رہ سکتا ہے ۔ لیکن اسے بھی ماسٹر اسٹروک کہا گیاکہ اب پارٹی اسے ترقی دے کر ملک کا نائب صدر بنانا چاہتی ہے اس پر میڈیا میں کافی چرچا بھی ہوئی تبصرے بھی ہوتے رہے اور اس منصب کے لئے اسے ہی سب سے موزوں امیدوار بھی قرار دیا گیا لیکن صاحب ایسا بھی نہیں ہوا پارٹی نے اپنے اس وفادار سپاہی کو نائب صدر کے لئے نامزد نہیں کیا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی قیاس آرائیاں اب بھی ہوتی رہیں کہ پارٹی اسے کسی بڑی اور اہم ریاست کا گورنر بنانے جا رہی ہے لیکن صاحب پارٹی نے یہ بھی نہیں کیا بلکہ اسے جس ریاست کا گورنر بنائے جانے کی باتیں ہورہی تھیں اس کی گورنری ایک دوسری ریاست کے گورنر کے سپرد کردی ۔ حالانکہ یہ مستقل فیصلہ نہیں ہے ابھی وہاں مستقل گورنر نامزد کیا جانا باقی ہے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ وہ عہدہ بھی شاہ کے اس وفادار کو ملے گا ۔ اگر پارٹی کو اسے ہی وہاں کا گورنر بنانا ہوتا تو پہلے ہی بنادیا ہوتا پھر بھی ہم دعا گو ہیں کہ اسے وہ عہدہ مل جائے ۔ لیکن قیاس آرائیاں اب بھی ختم نہیں ہوئی ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ پارٹی اسے کوئی بڑی تنظیمی ذمہ داری دے سکتی ہے ۔
جو بھی ہو اب چاہے وہ کسی ریاست کا گورنر بنادیا جائے یا اسے کوئی تنظیمی ذمہ داری دے دی جائے ہم سمجھتے ہیں کہ فعال سیاست کا اس کا کریئر ختم ہوا۔یہ سبق ہے ان تمام لیڈران کے لئے جو اپنی قوم سے زیادہ پارٹی کی وفادری کرتے ہیں ۔ مذکورہ لیڈر کے وزیر رہتے ہوئے ملک میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیاں ہوئیں ۔ مسلمانوں کی لنچنگ ہوئی ، حجاب کا معاملہ اٹھا یا گیا ، بلڈوزروں کا ظلم شروع ہوا ، خود اس کی پارٹی کے ممبران نے شان رسالت صلی اللہ و علیہ و سلم میں گستاخی کی ۔ یہ صاحب ان سب معاملات میں یا تو چپ رہے یا پھر پارٹی لائن سے چپکے رہے ۔ مسلمانوں کی لنچنگ زیادہ تر گوشت کو لے کر ہی ہوئی اور اس میں تو یہ صاحب چائے سے زیادہ کیتلی گرم کے مصداق اتنے گرم ہو گئے تھے کہ ان کے بیان سے لنچنگ کی حمایت کی بو آ رہی تھی ۔اس کے باوجود پارٹی نے ان کے ساتھ جو مذاق کیا ہمیں یقین ہے کہ اس پر وہ پارٹی کے خلاف بھی نہیں جا ئیں گے کہ وفاداری میں چائے سے بھی زیادہ گرم ہونے کی عادت نے پارٹی کو ناراضی بتانا یا احتجاج کرنا تو دور خود اپنے خلاف پارٹی کے فیصلے پر سوال اٹھانے کا حوصلہ بھی ان سے چھین لیا ہوگا ۔اس سے پہلے ان کی پارٹی نے سیکولر اور مسلم دوستی کی ملزم پارٹی سے آئی ایک مسلم لیڈر کو بھی اپنا نائب صدر اور کابینی وزیر بنایا تھا وہ بھی چائے سے اتنی زیادہ گرم ہوئی تھیں کہ انہوں اپنی ہی قوم مسلمانوں کو اقلیتی درجے سے بھی خارج کردیا تھالیکن اس کے کچھ ہی دن بعد ان سے وزارت چھین لی گئی تھی پھر ایک چھوٹی سے ریاست کا گورنر بنادیا گیا تھا اور اب نہ جانے وہ کہاں ہیں ۔ مذکورہ لیڈر نے ان سے کچھ سبق نہیں سیکھا اور اب خود تاریخ کا سبق بننے کی راہ پر ہیں۔ ویسے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ہمیشہ ایسے لوگ ہی کیا کرتے ہیں جن کی اصل پیادے سے زیادہ نہیں ہوتی اور شاہ بھی انہیں اسی حساب سے استعمال کیا کرتے ہیں۔