
شوکت تھانوی
ہم نے تو نہایت شوق سے اپنے باغ میں نارنگی کے درخت لگائے اور ان کو ہمارے پڑوسی بھائی امجد کی بکری اس طرح چر گئی کہ گویا ہم نہ آجاتے تو جڑ بھی تناول فرما جاتی، اب اس وقت ہمارا دل یہی چاہتا ہے کہ بھائی امجد کو مارتے مارتے گرادیں اور ان کی بکری کے کباب بناکر تمام محلہ میں تقسیم کریں یا اس کو اتنا پیٹیں کہ وہ خود نارنگی کا درخت بن جائے لیکن سوائے اس کے کہ دو ایک ڈنڈے لگا کر بکری کی ٹانگ توڑ دیں اور ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا یا ہمارے دوست امین ہمارے گرامو فون کو اپنی بیوی کے نام سے مانگ کر لے گئے اور وہاں اس میں اتنی کوک بھردی کہ وہ ٹوٹ گیا۔اب ہم اس کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ ان سے اس کی مرمّت کے لیے کہیں حالانکہ ہم کو نیاگرامو فون لینا چاہیے، لیکن نہیں لے سکتے‘ اسی طرح سراج نے ہماری گھڑی کا شیشہ توڑ دیا، لیکن ہم نے ان کا سر نہیں توڑا، اس لیے کہ اُن سے مراسم تھے اور یہ ذرا چھوٹی سی بات تھی کہ ہم چار آنہ کے شیشے کے لیے ان کا قیمتی سر توڑ دیتے لیکن اُنہوں نے فوراً دوسرا شیشہ لگوادیا حالانکہ ان کو نئی گھڑی یا گھڑی کے دام دینا چاہئے تھے۔ سلطان نے ہماری بائیسکل میں ایسا روگ پیدا کردیا ہے کہ وہ ایک قسم کی موٹر سائیکل ہوکر رہ گئی ہے۔ یعنی اُس کے مڈگارڈ چلتے میں ”پھڑ پھڑ“ ہوتے ہیں لیکن ہم اُن سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ نئی بائیسکل نہ دو یا نئے مڈگارڈ بنواﺅ اس لیے کہ وہ کہدیں گے کہ میں نے ڈھبری لگوادی تھی۔ اور ہم کو خاموش ہوجانا پڑے گا۔ بھائی جمیل کے لڑکے نے ہمارے قلم کا نب توڑ دیا۔ لیکن ہمارے چہرہ پر ایک شکن بھی پیدا نہیں ہوئی ورنہ سب یہی کہتے کہ بچے کی غلطی پر افسوس کرتے ہیں بلکہ جب بھائی جمیل نے دوسرا نب لگایا اُس پر بھی ہم سے یہ کہتے نہ بن پڑا کہ جو نب ٹوٹ گیا ہے وہ ایک پیسہ والا ہے اور جو لگ رہا ہے وہ اس سے بہت کم قیمت ہے۔
ہماری اس قسم کی باتوں کو لوگ مروت کہتے ہیں اور یہ واقعی مروت ہی ہے جس سے ہم شدید سے شدید نقصان اُٹھانے کے باوجود خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہ ہم خوب جانتے ہیں کہ نئی روشنی یعنی موجودہ دور میں مروت آﺅٹ آف فیشن یعنی متروک ہوگئی ہے۔ لیکن جن لوگوں کی فطرت میں مروت داخل ہوچکی ہے جیسے ہم، وہ لوگ غیر ارادی طور پر مروّت کرتے ہیں اور نقصان اُٹھاتے ہیں حالانکہ اس وقت کامیاب انسان وہی ہے جس میں مروّت کا نام نہ ہو اور انتہائی بدقسمت وہ ہے جس کی آنکھ میں مروّت ہے۔ اب اگر ہم یہ چاہیں کہ اپنے کسی دوست کو ایک رقم قرض دیکر مع سود در سود واپس لے لیں تو یہ ہمارے لیے ناممکن ہوجائے گا۔ ہم مروّت سے مجبور ہوکر اصل رقم بہت خفیف منافع کے بعد لے کر خاموش ہوجائیں گے۔
لیکن اگر کوئی ایسا شخص جس میں مروّت نہ ہو، اپنے باپ کو بھی کچھ قرض دے گا تو اصل رقم کی سہ گنی وصول کرے گا اور جب تک وصول نہ ہوجائے گی اتنے تقاضے کرے گا کہ بیچارے قرضدار کو کسی اور سے قرض لے کر ان سے جان چھڑانا پڑے گی۔ بالکل یہی حال ہمارا اُن نادہندہ دوستوں کے ساتھ ہے جو قرض تو لے لیتے ہیں لیکن ادا کرنا بھول جاتے ہیں، اس قسم کے لوگوں پر معمولی سا مقدمہ چلا کر بس ڈگری حاصل کرلیتے ہیں تاکہ ہماری رقم مع سود و خرچ ہم کو مل جاے لیکن اگر مروّت نہ ہوتی تو ہم ان حضرت کو بغیر پھانسی دلوائے ہرگز نہ مانتے۔
عجیب زمانہ آگیا ہے کہ اگر کسی سے مروّت کے معنی پوچھے جائیں تو مشکل سے بتائے گا، مروّت کا عملی ثبوت دینا تو پھر بھی مشکل ہے، بات اصل میں یہ ہے کہ
ہے بجائے خود زمانہ بیکسی میں مبتلا
اب مروّت کا نشاں اپنے نہ بیگانے میں ہے
یہ تمام کچہریاں،عدالتیں،تھانے، کوتوالیاں، چوکیاں،حوالاتیں، جیلیں حبس دوام، بعبور دریائے شور اور پھانسی سب دنیا کی بے مروتی کی زندہ مثالیں ہیں۔ اگر دنیا مروّت سے بیگانہ نہ ہوجاتی تو ان میں سے کسی کی بھی ضرورت نہ پڑتی، نہ کوئی مروّت کے مارے کسی پر مقدمہ چلاتا نہ کوتوالی کی ضرورت پیش آتی نہ کوئی گرفتار ہوتا اور نہ تمام دنیا کی بڑی بڑی عالی شان عمارتیں جیل خانہ بن کر ہمارے اور آپ کے لیے بیکار ہوجاتیں، لیکن تہذیب اور تمدن کے ارتقائی دور میں جہاں اور بہت سی وحشیانہ باتیں ترک کر دی گئی ہیں، وہاں مروّت بھی متروک ہوگئی ہے۔ آپ کہیں گے کہ جب مروّت متروک نہیں ہوئی تھی اُس وقت بھی جیل خانے موجود تھے اور اس وقت بھی لوگ جیل‘ حبس و دام‘ بعبور دریائے شور اور پھانسی کی حدتک آپس میں لڑتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس چیز کو مروّت کہتے ہیں وہ آجتک دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوئی اور یہ لفظ بھی اس طرح پیدا ہوگیا ہے کہ دنیا والے اس کو دوسروں کے متعلق استعمال کرتے ہیں اور اپنے متعلق کبھی غور ہی نہیں کرتے کہ ہم میں بھی مروّت ہونا چاہیے یا نہیں۔
بس اس کا استعمال ایسے موقعوں پر ہوتا ہے کہ کسی شخص پر مجسٹریٹ نے پچاس روپیہ جرمانہ کردیا اب وہ شخص جرمانہ ادا کرنے کے بعد مدتوں اپنے دوستوں سے یہی شکایت کرے گا کہ دیکھئے جناب یہ مجسٹریٹ صاحب ہمارے ہموطن بھی ہیں اور سسرالی عزیز بھی ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پردادا کے ان نانا صاحب مرید تھے اور یہ ہمارے ایک زمانہ میں ہم جماعت بھی رہ چکے ہیں، لیکن آج خدا نے ان کو حاکم بنایا ہے تو ہم کو پہچانتے بھی نہیں اور ذرا سے موٹرلڑنے پر پچاس روپئے جرمانہ کردیتے، یہ حال ہے جناب آج کل مروّت کا ”لیکن انہی حضرت کے متعلق ایک دوسرا آدمی یہ شکایتیں کرتا پھرتا ہے کہ ”روز کا ساتھ اُٹھنا بیٹھنا لیکن ضرورت پر دس روپئے مانگے تو اس بے مروّتی سے انکار کردیا کہ حیرت ہوگئی جس میں مروت نہیں وہ انسان کس کام کا اور اس دوسرے شخص کے متعلق ایک تیسرا شخص کہتا ہے کہ ذرا لڑکے کی آنکھ میں لگانے کے لیے افیون مانگی تو دم نکل گیا ہزار بہانے کرنا شروع کردئے اتفاق سے ٹھیکہ پر نہیں ملی تھی ورنہ ہم خود ہاتھ نہ پھیلاتے لیکن ان کی بے مروتی تو دیکھئے کہ چاول بھر افیون تک سے انکار کردیا۔ خدا کی مار ہے ایسے کمبخت بے مروتوں پر۔“
مروّت خواہ کتنی ہی اچھی چیز ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ تکلیف دہ بہت ہوتی ہے اور اگر کوئی بدقسمت انسان مروّت کو اپنی وضع بنالے اور اس وضع پر قائم رہنے کا عزم کرلے تو سمجھ لیجئے کہ یہ دنیا والے اس کو یا تو بہت جلد مارڈالیں گے یا وہ اپنے عزم میں ناکام ہوکر اس وضع کو چھوڑ بیٹھے گا۔ اب یہی دیکھئے کہ ہم نے جس وت یہ طئے کیا کہ ہم کسی رسالہ میں بلا معاوضہ کوئی مضمون نہ دیں گے اس وقت ہم کو اپنے بامروّت ہونے کا خیال بھی نہ آیا لیکن جب اپنے ارادے کو عملی صورت میں لانے کی کوشش کی تو ایک جھجک سی پیدا ہوئی کہ ہم کس طرح ان مدیران رسالہ جات کو اجرت کے لیے لکھیں جن سے دیرینہ تعلقات ہیں اور جو ہمارے تقریباً دوست ہوچکے ہیں لہٰذا رہ گئے ہم جھجک کر اور پھر بلا اجرت مضامین بھیجنا شروع کردیے۔ تھوڑے دنوں کے بعد ہم نے طئے کرلیا کہ اب مروّت کو بالائے طاق رکھ کر اجرت لینا شروع کردیں ورنہ یہ رسالے مفت کے مضامین لکھواتے لکھواتے ہم کو مار ڈالیں گے اور ہماری مروّت دھری رہ جائے گی لہٰذا بہت غور و فکر کے بعد ارادے کرکے اور یاارادوں کو ملتوی کرکے پھر ارادے کرکے اور ارادوں میں ناکام رہ کر ایک دن ہم نے ہمت کی اور ایک رسالہ کی مضمونی فرمائش کے جواب میں اُجرت کے لیے لکھ ہی دیا۔ لیکن جب خط لیٹر بکس میں ڈال چکے تو افسوس ہوا کہ ہم نے خوامخواہ دس پندرہ روپئے کے لیے ان تعلقات کو مجروح کردیا جو اب تک قائم تھے بہرحال اب تو جو کچھ ہونا تھا ہوہی چکا۔ اب جو اُس خط کے جواب میں ایڈیٹر صاحب نے اپنی مالی مشکلات کا رونا رویا اور زبان کی خدمت کے لیے اپنے ایثار کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم کو اس پر مجبور کیا کہ ”کچھ دن اور اسی بیگاہ کو برداشت کیجئے اس کے بعد انشاءاللہ آپ جو مانگیں گے مل گا۔“ تو جناب ہم کو بڑی شرم آئی اور ہم عرق عرق ہوگئے اور ہم نے فوراً اُن کو لکھدیا کہ نہیں صاحب غلطی سے پہلے خط میں آپکو لکھ دیا تھا میں آپ کا خادم ہوں آپ اطمینان رکھئے میں زندگی بھر مفت مضامین بھیجتا رہوں گا۔ تقریباً یہی حال ہر رسالہ کے ساتھ ہوا اور ہر رسالہ کی طرف سے جواب میں مضمون واحد لہٰذا ہمارے یہاں بھی بحمدللہ خیریت ہوگئی اور باقی حالات بدستور۔
ایک زمانہ ایسا آگیا کہ ہم کو اس بیگارنے بیمار ڈالدیا اور مروّت کی وجہ سے کسی سے انکار بھی نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا اپنی بیماری کو طول دیتے رہے بلکہ مرض کو خطرناک بناتے رہے یہاں تک کہ ہمارے لائق معالج نے فرمایا کہ تم کو دق ہوگئی ہے جاﺅ پہاڑ پر‘ یہ وہ وقت تھا کہ ہم نے اپنی زندگی سے ہاتھ دھولیا اور زندگی کے ساتھ ساتھ مجبوراً مضمون نگاری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے یہ بیماری منجانب اللہ ایک ایسی رحمت تھی جو ہم پر ابتک نازل ہوتی رہتی ہے اور جس کے پھل ہم کو اب تک مل رہے ہیں یعنی اس بیماری کے بعد ہمارا مزاج ایسا چڑ چڑا ہوگیا کہ ہم نے غصہ میں آکر ایک سرکلر یعنی گشتی مراسلہ اس مضمون کا تمام رسائل کے نام بھیج دیا کہ اب چاہے جو کچھ ہو ہم مفت میں مضمون نہ دیں گے اور ایک سطر بھی بلا اُجرت نہ لکھیں گے۔ ”بلکہ اسی مراسلہ کے ساتھ ساتھ شرح اُجرت کا نقشہ بھی بھیج دیا۔ اس مراسلہ کے جواب میں بہت سے رسائل تو خاموش ہورہے بہت سے رسائل نے پھر وہی ”مضمون واحد“ والے خط بھیجے بہت سے رسائل نے کہا کہ ”نہ آپ کی بات نہ ہماری بات یہ لیجئے گا“۔ اور بہت سے ایسے رسائل بھی جنہوں نے کہہ دیا کہ ”مضمون وی پی بھیج دیجئے۔“ ہم نے مضمون وی پی کردیا اور جناب جس وقت اس کے روپئے وصول ہوئے ہم کوپہلی مرتبہ اپنی اس حماقت کا احساس ہوا جس کو اصطلاح عام میں مروّت کہتے ہیں۔
اور ہم نے طئے کرلیا کہ اب اس کمبخت مروّت کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہ دیں گے۔ چنانچہ ہم نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور معاوضہ لینے کی سختی سے پابندی کی متعدد بار ہمارے پیروں کو لغزش ہوئی ہمارے پیروں کو لغزش ہوئی ہمارے ارادوں میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہوئے ہم نے مفت بھیجنے کے ارادے سے مضمون لکھ ڈالا‘ لیکن پھر ہم کو فوراً ہوش آگیا اور ہم نے دی پی کافارم بھی بھردیا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ہم میں مروّت ہے ہی نہیں تو غلط ہوگا، اتنا ہم ماننے کو تیار ہیں مروّت کے معیار میں ضرور تبدیلی ہوگئی ہے مثلاً یہ کہ پہلے اُجرت لینا ہی گناہ سمجھتے تھے اب اُجرت کی کمی اور بیشی میں مروّت اپنے جلوے دکھاتی ہے۔
مروّت حقیقتاً ایک ایسی کمزوری ہے کہ اگر خدانخواستہ اس کا علم کسی کو ہوگیا تو بس سمجھ لیجئے کہ آئی کمبختی۔ اب اس مروّت کی کمزوری سے ایسا فائدہ اُٹھایا جائے گا کہ مزاج بھی درست ہوجائے کوئی تو پوچھتا ہے کہ ”بھائی صاحب بڑا لاجواب کپڑا شیروانی کا لائے کہاں سے خریدا ہے بھائی ہم کو بھی منگا دو“ اب وہ بد نصیب جو بامروّت ہے فوراً اپنی شیروانی ان حضرت کے نذر کردے گا، کوئی کہتا ہے کہ ”ارے یار اگر تم اشارہ بھی کردو تو گاﺅں سے نہایت نفیس گھی آجایا کرے واللہ کو کو جم اور بناسپتی گھی کھاتے کھاتے ناک میں دم آگیا ہے‘ اب آ پ گویا زندگی بھر گھی پہنچوانے کے نوکر ہوگئے اوراگر آپ کی مروّت نے زیادہ جوش کیا تو قیمت بھی آپ ہی ادا کریں گے۔ ایک صاحب تشریف لاتے ہیں کہ آپ کے والد اور میرے چچا ہم جماعت تھے ،اس کے علاوہ خود میں بھی آپ کا خادم ہوں، اب یہ کتنی بُری بات ہے کہ بندہ زادہ آپ ہی کے دفتر میں ملازمت کا امیدوار ہے۔ اگر آپ باقی تمام درخواستیں کسی طرح غائب کرادیںتو اسی کا انتخاب ہوسکتا ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ آپ کے اختیار میں ہے میں تو سمجھوں گا کہ آپ نے مجھ کو خرید لیا۔“ اول تو آپ بامروّت ہیں دوسرے وہ شخص لسّان ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کسی نہ کسی طرح تمام درخواستیں اڑادیں گے اور جب اُن کے غائب ہونے کا پتہ چل جائے گا تو آپ ملازمت سے علحدہ کردیے جائیں گے، مختصر یہ کہ اگر آپ کی مروّت کا پتہ دنیا کو چل گیا ہو تو بس سمجھ لیجئے کہ آپ کی گردن میں چکی کا پاٹ ڈال کر یہ دنیا والے آپ کو عمیق ترین سمندر میں غرق کرکے چھوڑیں گے“ جل تو جلال تو صاحب کمال تو اس مروّت کی بلا کر ٹال تو۔“
جس طرح آجکل دق کی مختلف قسمیں ایک دم سے نکل آئی ہیں کہ پھیپھڑے کی دق‘ آنتوں کی دق‘ ہڈی کی دق‘ آنکھوں کی دق‘ کان کی دق‘ ناک کی دق‘ ناخن کی دق‘ بالکل اسی طرح مروّت کی بھی صد ہا قسمیں ہیں جن میں سب سے زیادہ مہلک مروّت تو وہ ہوتی ہے جو دل کی ہوکہ حاضر غائب ہر طرح اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی وقت دوست کا خط آگیا کہ دوسہری‘ لنگڑا سفیدہ‘ فجری‘ کھجیری وغیرہ آموں کے دو تین جھابے پارسل کردیجئے‘ اب آپ پر گویا اس کی تعمیل اس طرح فرض ہوجائے گی کہ بیوی کا زیور بیچ کر کہیں سے قرض لے کر کسی کے یہاں چوری کرکے غرض کہ جس طرح بھی ممکن ہوگا وہ پارسل ضرور روانہ ہوں گے۔
ایک قسم کی مروّت کا علاج قبر میں ہوا کرتا ہے۔ ایک دوسری قسم مروّت کی وہ ہے جس کو منہ دیکھے کی یا آنکھ کی مروّت کہتے ہیں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ دوست ایک نہیں دس ہزار خط بھیجیں لیکن اُدھر سے جواب غائب اور اگر کہیں وہ دوست صاحب خود پھٹ پڑے تو تمام خاموشیوں کی تلافی ہوجاتی ہے اور انکار کرتے نہیں بن پڑتا جو کچھ وہ فرماتے ہیں اس کی تعمیل ہوتی ہے اور وہ مروّت کی کمزوری سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن جہاں وہ نظروں سے غائب ہوئے بس مروّت بھی تشریف لے گئی اس قسم کی مروّت کا علاج تو بہت آسان ہے لیکن آنکھ ایسی نعمت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
سب سے زیادہ اچھا تو یہ ہے کہ مروّت کی جڑیں اُکھاڑ کر پھینک دی جائیںاور یاد رکھیے کہ جب تک مروّت کا نشان بھی باقی ہو ترقی کرنے کا کوئی تصور اپنے ذہن میں نہ لائےے اس وقت کامیاب وہی انسان ہے جو بامروّت نہیں، دور کیوں جائےے انگریزوں کو دیکھ لیجئے کہ ان کے یہاں کی کتاب لغات میں اس مفہوم کا کوئی لفظ ہی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا وہ تاجر ہیں اور مروّت تجارت کی سخت ترین دشمن لہٰذا ان کے یہاں اس کی کاشت ہی نہیں ہوتی اور ہم ہندوستانیوں کے یہاں انسان بنتا ہے بجائے چار کے پانچ عناصر سے جس میں ایک مروّت بھی ہے تو جناب ایسی صورت میں کیا امید کی جاسکتی ہے کہ ہندوستان ترقی کرے گا۔
آج اگر ہم مروّت سے بیگانہ ہوجائیں تو ترقی اور کامیابی ہمارے قدم چومے گی، لیکن یہ بھی ایک قسم کی مروّت ہے کہ ہم مروّت سے بیگانہ ہونا نہیں چاہتے۔٭٭
٭٭٭