کریں کچھ لوگ بھرے ساری قوم ۔ آخر کب تک
قارئین کرام جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر زمانے اور ہر وقت میں کچھ نہ کچھ نالائق اور شریر نوجوان ہر سماج میں رہتے ہیں اس لیے ان کو نظر انداز کردینا چاہیے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ مسلم سماج کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہو اور مسلم سماج میں پھیلی برائی کو چھوٹا نہ سمجھیں، شرارت کرنے والے لوگ کچھ ہیں نہ کہیں بلکہ جس طرح لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جارہی ہے ویسے مسلم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی بھی جلد سے جلد شادیوں کے حوالے سے فکر کریں۔

محمد مصطفی علی سروری
محمد منہاج کی عمرصرف 19 برس ہے۔ وہ ایک خانگی ملازم ہے اور بھوانی نگر سے تعلق رکھتا ہے۔ شیخ امیر کی عمر 24برس بتلائی گئی ہے۔ جبکہ وہ کوکٹ پلی کا رہنے والا ہے اور ایک دوکان میں کام کرتا ہے۔صائم خان کی عمر 25برس ہے۔ وہ ایک ویٹر کا کام کرتا ہے۔ اور عنبر پیٹ میں رہتا ہے۔ محمد بابا کی عمر 33 برس ہے۔ وہ لیبر کے طور پر کام کرتا ہے اور راجندر نگر کا رہنے والا ہے۔ قارئین کرام یہ چاروں نوجوانوں کا تعلق شہر حیدرآباد کے الگ الگ علاقوں سے ہے لیکن حیدرآباد سٹی پولیس نے 29؍ جولائی کو ایک فہرست جاری کرتے ہوئے 12 مجرمین کے نام میڈیا میں جاری کیے۔ ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ پرانے شہر کے علاقے لال دروازے میں جب بونال کا تہوار زور و شور سے منایا جارہا تھا اس وقت وہ لوگ وہاں مندر کے پاس موجود تھے۔
حیدرآباد سٹی پولیس نے ان نوجوانوں پر یہ الزام نہیں لگایا کہ یہ مسلمان ہیں اور مسلمان ہوکر بھی ہندوئوں کے تہوار بونال کے موقع پر مندر کے قریب موجود تھے۔ پولیس کے مطابق ان مسلم نوجوانوں نے بونال جلوس میں خود شامل ہوکر جلوس میں موجود خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی کی اور انہیں ہراساں کر رہے تھے۔
قارئین کرام یہ کوئی الزام نہیں تھا بلکہ سادہ لباس میں موجود حیدرآباد سٹی پولیس کے ہاں خواتین کو چھیڑ چھاڑ کرنے کی باضابطہ طور پر ویڈیو بھی موجود تھی۔ حیدرآباد سٹی پولیس نے ان چار مسلم نوجوانوں کے بشمول 12 مجرمین کو عدالت میں پیش کیا جہاں پر ان لوگوں کو 2 دن سے لے کر 10 دن تک قید کی سزا اور جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب حیدرآباد سٹی پولیس کی شی ٹیم نے اس طرح خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے والوںکو گرفتار کیا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کی نظر میں 2 سے 10 دن کی قید کی سزاء ان مجرمین کو سدھارنے دی گئی۔ کیا خود امت مسلمہ کے ذمہ داران کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنی قوم کے ایسے نوجوانوں اور مجرمین کی تربیت اور اصلاح کا بیڑہ ااٹھائیں اور اس حوالے سے فکر کریں۔
اخبار دکن کرانیکل کی 28 ؍ اگست 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق رچہ کنڈہ کی شی ٹیم نے گذشتہ 10 ہفتوں کے دوران 106 افراد کو خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے کی پاداش میں گرفتار کرلیا ہے اور قارئین تشویش کی بات یہ ہے کہ ان 106 گرفتار شدگان میں 41 نوجوان قانونی طور پر بالغ نہیں بلکہ کم عمر ہیں۔
رچہ کنڈہ پولیس کمشنر مہیش بھگوت کے حوالے سے اخبار دکن کرانیکل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نابالغ مجرمین کی کونسلنگ کے لیے پولیس نے ان کے افراد خاندان کو طلب کیا اور ماہر پروفیشنل سے ان کی کونسلنگ کروائی۔
خانہ پری کہیے یا کچھ اور پولیس اپنے طور پر سماج سدھار نے کی کوشش کر رہی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ خود مسلم کمیونٹی بھی اس ضرورت کو محسوس کرے کہ مسلم نوجوانوں کو اس طرح کے جرائم سے روکنا بے حد ضروری ہے۔
قارئین ذرا اندازہ لگائیں حالیہ عرصے میں جوبلی ہلز عصمت ریزی کے معاملے میں جن پانچ ملزمین کو پکڑا گیا۔ وہ سب کے سب مسلمان تھے اور ان میں سے چار نابالغ تھے۔ یعنی قانونی طور پر طور پر بلوغت حاصل کرنے سے پہلے ہی ہمارے بچے جنسی طور پر فعال بنتے جارہے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
دوسری طرف ہمارے سماج میں ہمارے نوجوانوں کی شادی کی اوسط عمر 30 تا 35 برس کے درمیان ریکارڈ کی جارہی ہے۔ یعنی بچے ایک جانب جسمانی اور جنسی طور پر 20 برس سے کم عمری میں ہی فعال ہو رہے ہیں اور دوسری طرف انہیں اپنی شادیوں کے لیے 10 تا 15 برس تک مزید انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
اس دوران کئی ایسی خبریں میڈیا اور سوشیل میڈیا کے توسط سے سامنے آرہی ہیں کہ ہمارے نوجوان جرائم کے نت نئے واقعات میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔
نوجوان اگر جرائم کی جانب راغب ہو رہے ہیں تو یہ سیدھے سیدھے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں ان کے لیے حیدرآباد سٹی پولیس کی جانب سے جاری کردہ 24؍ اگست کا پریس نوٹ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
سید محبوب علی کی عمر 42 برس ہے اور وہ بطور باورچی کام کرتا ہے۔ اس نوجوان کو پولیس نے 1996ء سے اب تک 20 مختلف کیسس میں ملوث بتایا ہے۔ حیدرآباد، سائبر آباد اور نلگنڈہ پولیس کے حدود میں اس پر کیس بک کیے گئے اور پھر سال 2020ء میں اس پر پی ڈی ایکٹ بھی نافذ کیا گیا۔ جولائی 2022ء میں جیل سے رہائی کے بعد یہ نوجوان ایک دوسرے شخص کے ساتھ مل کر دوبارہ چوری کرنے لگا اور بالآخر پولیس نے محبوب علی کو اس کے ایک اور ساتھی کے ساتھ پکڑ کر ان کے قبضے سے 130 گرام سونا 500 گرام چاندی کے بشمول 7 لاکھ مالیتی اثاثے برآمد کیے اور ان کی گرفتاری کے بعد مزید کیس بک کر کے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔
قارئین یہاں یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سماج سے جرائم اور مجرمین کے خاتمہ کے لیے پولیس کام کر رہی ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پی ڈی ایکٹ کے تحت دو برس جیل میں گذار کر باہر آنے والا نوجوان بجائے سیدھا راستہ چلنے کے دوبارہ جرائم کی دنیا میں قدم رکھ رہا ہے۔ اس نوجوان کی اصلاح کے لیے سدھار کے لیے اگر قانون کام نہیں کر رہا ہے یا موثر ثابت نہیں ہو رہا ہے تو یہ مسلم کمیونٹی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر توجہ مرکوز کریں اور جرائم پیشہ افراد کو لازمی سماجی خدمات پر مامور کرتے ہوئے ان کی بازآباد کاری کی کوشش کریں۔
دوسری بات جو کہ سب سے اہم بھی ہے وہ مسلم سماج میں نکاح کی ہے۔ بظاہر دین اسلام نے نکاح کو جتنا آسان اور سہل بنایا مسلم کمیونٹی میں آج نکاح سے بڑھ کر دوسرا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر سماج کے غریب سے لے کر امیر تک ہر ایک کو اتفاق ہے وہ یہ کہ شادیاں ایک مسئلہ بن گئی ہیں۔ مسلم سماج میں لڑکے اور لڑکیوں کے رشتے تو موجود ہیں مگر کسی بھی رشتے کو موزوں سمجھنے کے لیے جو پیمانے بنادیئے گئے ہیں وہ اصل میں مسئلہ ہے۔
ہر ایک کو خوبصورت چھریرا بدن، سلم اور ویری فیئر لڑکی کی تلاش ہے۔ جبکہ دنیا بنانے والے اور ہم سب کے خالق اللہ رب العزت نے سب کو نہ تو ایک جیسا بنایا اور نہ ہی سب کا رنگ و جسم ایک جیسا ہے۔
اپنی لڑکیوں کی شادی کی فکر میں مسلم سماج اس قدر مگن ہے کہ لڑکوں کی تعلیم تربیت اور لڑکوں کی شادی بھی جلد ہو اس ضرورت کو بالکل نظر انداز کردیا ہے اور ہمارے لڑکے آج پوری مسلم قوم کے لیے وبال جان بن رہے ہیں۔
شاہ رخ حسین کی عمر 19 برس ہے اور وہ اپنے گائوں کی ایک 19 برس کی لڑکی کے یکطرفہ عشق میں گرفتار ہوکر پاگل پن پر اتر آتا ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی 29 ؍ اگست کی رپورٹ کے مطابق 23 اگست 2022ء کو شاہ رخ حسین نے 12 ویں جماعت کی طالبہ انکیتا کو اپنے دوست چھوٹو خان کے ساتھ مل کر صرف اس لیے سزا دی کہ اس لڑکی نے انکار کردیا اور پٹرول ڈال کر آگے لگادی۔ 45 فیصدی جھلس جانے والی انکیتا نے مرنے سے پہلے دیئے گئے اپنے بیان میں بتلایا کہ شاہ رخ پچھلے کچھ عرصے سے اس کو ہراساں کر رہا تھا۔ 28؍ اگست کو اپنے زخموں کی تاب نہ لاکر انکیتا چل بی اور اس کی موت کے بعد جھارکھنڈ میں زبردست تنائو اور سیاسی صورت حال بھی کافی خراب ہونے کی اطلاعات ہیں۔
قارئین کرام جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر زمانے اور ہر وقت میں کچھ نہ کچھ نالائق اور شریر نوجوان ہر سماج میں رہتے ہیں اس لیے ان کو نظر انداز کردینا چاہیے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ مسلم سماج کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہو اور مسلم سماج میں پھیلی برائی کو چھوٹا نہ سمجھیں، شرارت کرنے والے لوگ کچھ ہیں نہ کہیں بلکہ جس طرح لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جارہی ہے ویسے مسلم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی بھی جلد سے جلد شادیوں کے حوالے سے فکر کریں۔ عملی اقدامات کریں۔ اخراجات گھٹائیں، مہمانوں کی تعداد کم کریں اور اپنے بیٹوں کے لیے ہیروئنوں کی تلاش نہ کریں بلکہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں نیک سیرت لڑکیوں سے اپنے بچوں کا نکاح کروائیں۔ بچیوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تربیت کا بھی خاص حیال رکھیں۔ اللہ رب العزت ہم سبھی کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ وقت پر ان کے نکاح کرنے والا بنادے۔ (آمین۔ یارب العالمین)
۰۰۰٭٭٭۰۰۰