مشرق وسطیٰ

غزہ کی تعمیر نو کے لئے کام کرنے عرب رہنماؤں کا وعدہ

عراق کے دارالحکومت میں ہفتہ کے دن عرب رہنماؤں نے اپنی سالانہ چوٹی کانفرنس میں کہا کہ وہ غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی بندی کی کوشش میں ہیں۔

بغداد (اے پی) عراق کے دارالحکومت میں ہفتہ کے دن عرب رہنماؤں نے اپنی سالانہ چوٹی کانفرنس میں کہا کہ وہ غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی بندی کی کوشش میں ہیں۔

انہوں نے وعدہ کیا کہ جنگ رکتے ہی وہ متاثرہ علاقہ کی تعمیرنو میں تعاون کریں گے۔ مارچ میں قاہرہ میں عرب لیگ کی ایمرجنسی چوٹی کانفرنس میں غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو بے گھر کئے بغیر علاقہ کی تعمیر نو کے منصوبہ کو منظوری دی گئی تھی۔

بغداد چوٹی کانفرنس میں عرب رہنماؤں بشمول قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمادالثانی اور مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے شرکت کی۔ مہمانوں میں اسپین کے وزیراعظم پیڈرو سانچیز اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس بھی شامل تھے جنہوں نے غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور محاصرہ میں گھرے علاقہ میں انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ‘ فلسطینیوں کو جبراً نکال باہر کرنے کو مسترد کرتی ہے۔ حماس کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بندی ختم ہونے کے 2 ماہ بعد آج کی کانفرنس ہوئی۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے غزہ پر حملے بڑھادیئے ہیں۔ عراق کے وزیراعظم محمد شیعہ السوڈانی نے کہا کہ نسل کشی اپنی انتہاکو پہنچ چکی ہے۔ تاریخ میں ایسی نسل کشی نہیں دکھائی دیتی۔

انہوں نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ عراق‘ غزہ کی تعمیرنو کے لئے عرب فنڈ قائم کرے گا۔ بغداد‘ غزہ کے لئے 20 ملین امریکی ڈالر دے گا۔ اتنی ہی رقم لبنان کو بھی دی جائے گی۔ السیسی نے کہا کہ مصر‘ قطر اور امریکہ کے ساتھ مل کر پرزور کوشش کررہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ مصر جنگ کے خاتمہ کے بعد غزہ کی تعمیرنو کے لئے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس سے کہا کہ وہ غزہ میں اقتدار چھوڑدے اور دیگر لڑاکوں کی طرح اپنے ہتھیار فلسطینی اتھاریٹی کو سونپ دے۔ شام کے نئے صدر احمد الشرع نے بغداد چوٹی کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ ان کے ملک کے وفد کی قیادت وزیر خارجہ السعد الشیبانی نے کی۔

عراقی شیعہ ملیشیا اور سیاسی دھڑوں کو احمدالشرع کے ماضی پر اعتراض ہے۔ وہ انہیں سابق سنی عسکریت پسند کے طورپر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے پورا زور لگایا کہ احمدالشرع کو مدعو نہ کیا جائے۔ مارچ 2011 میں شام میں شروع ہونے والی جنگ میں کئی عراقی شیعہ ملیشیا فورسس نے سابق صدر بشارالاسد کی فورسس کے ساتھ مل کر جنگ لڑی تھی۔