طنز و مزاحمضامین

نیکی

مظہر قادری

چنوبھائی بولتے پتہ نہیں پرانے زما نے میں لوگ کیساہمت کرکے نیکی کرتے تھے، آج کل تولوگوں کو بدی کرنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے تونیکی کہا ں اورکیسے کریں گے۔ویسے آج کل سبھی نیکی بدی یعنی خیر اورشر کے معنی بدل گئے ہیں۔پہلے تونیکی کرناچاہے بھی تووقت نہیں مل رہاہے دوسرا کوئی ساتھ دینے والا بھی نہیں ہے جبکہ آسانی سے بدی کرنے کے لیے لوگ ساتھ دینے کے لیے تیارہوجارہے ہیں۔نیکی کے لیے بندوں کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ایک اورچیزیہ ہوگئی ہے کہ آج کل جتنامزہ،لذت اورفائدے مادی طورپربدی کرنے میں حاصل ہورہے ہیں وہ بات نیکی کر نے میں نظر نہیں آرہی ہے۔پہلے زمانے میں لوگ نیکی کرکے دریامیں ڈال کربھول جاتے تھے لیکن آج کل بغیر کسی مفاد کے نیکی کرنا دل بھی نہیں چاہ رہاہے کیونکہ ہمارے دلوں پر اتنا میل جمع ہوگیاہے کہ بدی کرنا ہی زیاد ہ بہترنظرآرہاہے کیونکہ ہم بدی کی کمائی سے اپنے بیوی بچوں کو عیش کراسکتے،سوسائٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکتے، وہ بات نیکی میں بالکل نہیں رہی۔نیکی بس ایک خاموش عمل ہوگیاہے۔اورآج کل کی اس نمائشی زندگی میں اس کا کچھ فائدہ نظرنہیں آرہاہے۔بدی کرنے میں توہم آج کل ماہرہوگئے۔ پہلے تونیکی کرتے نہیں اورکرے بھی توثواب کی صورت میں اس کا بدل ملنے کی امیدکررہے ہیں۔نیکی لوگ اس لیے نہیں کررہے ہیں کہ اس کا فوری صلہ نظر نہیں آرہاہے جبکہ بدی سے فوری مفادات حاصل نظرآرہے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں سوچ رہاہے کہ نیکی بارش کا پانی ہے جونظر نہیں آتا لیکن ساری دنیا کی زندگی کا ضامن ہے جبکہ بجلی کی چمک بدی کے مانند ہے جوہر کسی کو نظر آتی لیکن اس سے صرف اورصرف تباہی ہوتی۔
اب میں آپ کو بتاتاہو ں کہ لوگ نیکی کیسے کرتے ہیں۔میں ایک میڈیکل شاپ پر گیا وہاں سامنے ایک ڈبارکھاہوا تھا، اس پر لکھاہواتھا ”اس ڈبے میں ڈالی جانے والی رقم سے غریب اور مجبوروں کو دوا مفت دی جاتی ہے“ دوکان والے نے بتایا جب کوئی شخص دوا لینے آتا، دام پوچھتا اوراگر اس کے پا س پیسے نہ ہوں یاکم ہوں توجب اداس صورت بناکر جانے لگتا تو دوکا ن والا اس دواکی اتنی قیمت کے پیسے ڈبے سے نکال کر اپنے غلے میں ڈا ل لیتا اوراسے نامراد نہیں جانے دیتا۔اگرڈبے کے پیسے دواکے پیسوں سے کم ہوں تووہ کم پیسوں کے فرق کی چھٹی لکھ کر غلے میں رکھ لیتا اورجب بھی ڈبے میں کوئی نئے پیسے آتے وہ لے کر چھٹی پھینک دیتا۔وہ یہ کام ثواب کے لیے نہیں کررہاہے صرف اورصرف نیکی کررہاہے۔وہ ان دواؤں کی صرف قیمت خرید لیتا اپنا منافع اورخدمت وہ بے لوث کرتا، اس کی نیکی ہم جیسے لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جوکہ کسی کی مددکرتے وقت فوٹولے کر ویڈیولے کر یااخبار میں ڈال کر اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔
میں بس میں چڑھا توبس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ ایک بیٹھا ہوانوجوان فوری اٹھ کر مجھے جگہ دے دیا تومیں سمجھا کہ شاید وہ اتررہا ہے لیکن کچھ دورجانے کے بعد اس کو پھرسیٹ مل گئی تووہ بیٹھ گیا۔جب ایک اورمسافر چڑھا تووہ اپنی سیٹ اسے دے کر پھرکھڑا ہوگیا، سفرطویل تھا، کئی بار میں دیکھاکہ وہ بیٹھتا تھا، پھرکسی کمزورمسافر کو جگہ دے کر کھڑاہوجاتاتھا،مجھ سے تجسس کی وجہ سے رہانہ گیا اوراس سے پوچھا کیا ماجراہے وہ اتنے بار سیٹ ملنے پر دوسروں کو دے کر اتنے طویل سفرکو کھڑے ہوکر کیوں طے کررہاہے تووہ بولا میں بہت غریب آدمی ہوں میری معمولی کمائی سے میں بہت مشکل سے اپنے بوڑھے ماں باپ اورخاندان کا گھر چلارہاہوں اتنی معاشی سکت نہیں ہے کہ کسی ضرورتمند کی مددکرسکوں،لیکن چونکہ جسمانی طورپرصحت مندہوں اورکھڑا رہ سکتاہوں اس لیے اپنی حیثیت کے حساب سے ایک چھوٹی سی نیکی کررہاہوں اوردوسروں کو آرام پہنچا رہاہوں۔۔۔۔۔
راستے میں ایک بار کھمبے پر ایک کاغذپر قلم سے کچھ لکھاہواچپکا ہوادیکھ کر میں اپنے تجسس سے مجبورہوکر قریب جاکر پڑھا تواس پر لکھاتھا ”میں ایک بوڑھی غریب کمزورعورت ہوں آنکھوں سے صاف دکھائی نہیں دیتا کل رات اس کھمبے کے پاس میراسوروپئے کا نوٹ گرگیا، ڈھونڈنے پرنظر نہیں آیا، اگرکسی کومل جائے توبرائے مہربانی اس پتے پر پہنچادیں“ میں ہمددری کے جذبہ سے قریب ہی کے دیے ہوئے پتے پر پہنچا توایک انتہائی خستہ حال کمرہ تھا، دروازہ کھٹکھٹایا توایک لاغرمجبورقسم کی بوڑھیا نے دروازہ کھولا، اس کی حالت دیکھ کر مجھ سے رہانہ گیا اورمیں نے جیب سے ایک سوروپئے کا نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا، اتفاق سے اس کھمبے کے پاس سے جارہاتھاتوآپ کا سوروپئے کانوٹ مجھے مل گیاوہ آپ کو دینے آیاہوں، یہ سن کر بوڑھیاکی آنکھوں میں آنسوآگئے اوربولی بیٹا میراکوئی نوٹ نہیں گما پتہ نہیں کس نیک آدمی نے میری حالت پر ترس کھاکر وہ کاغذ لگایاہے۔ صبح سے پچاس آدمی مجھے اسی طرح بول کر سوروپئے کا نوٹ دے کر چلے جارہے ہیں۔ میں شرمندگی کی وجہ سے ہرکسی سے درخواست کررہی ہوں کہ وہ کاغذنکال دے پرپتہ نہیں کیوں کوئی بھی اب تک وہ کاغذنہیں نکالا۔بیٹا کم ازکم تم وہ کاغذفوری نکال دواورمیں ہکابکا یہ سوچتا کھڑا رہاکہ کیا میں وہ کاغذنکال سکتاہوں جسے نکالنے کی کسی نے ہمت نہیں کی۔کتنا عظیم تھا وہ شخص جس نے بوڑھیا کی حالت دیکھ کر اس کی مددکااتنا نیک راستہ نکالا۔۔۔۔۔خیالوں کی حفاظت کرو،یہ الفاظ بن جاتے ہیں،الفاظ کی حفاظت کرویہ اعمال بن جاتے ہیں، اعمال کی حفاظت کرویہ کرداربن جاتے ہیں اوراس کردارکی حفاظت کرویہ آپ کی پہچان بن جاتا ہے۔
٭٭٭