مذہب

سود سے مسجد کی تعمیر

فکس ڈپازٹ میں جو زائد رقم حاصل ہوتی ہے، وہ سود ہے اور اس کا استعمال حرام ہے؛ اس لئے مسجد جیسی مبارک جگہ کے لئے ایسی رقم کا استعمال سخت گناہ ہے، مسجد میں تو نہایت پاکیزہ اور حلال مال لگانا چاہئے؛

سوال:- ایک صاحب نے ایک کثیر رقم جو ڈپازٹ بینک میں کی تھی، مقررہ وقت کے ختم پر مع سود حاصل کرکے مسجد کی تعمیر کے لئے دیدی،چنانچہ اس مسجد کو دومنزلہ بنادیا گیا اور دو کمرے تعمیر کئے گئے؛ تاکہ ان کمروں کے کرایہ جات سے مسجد کے اخراجات کی پابجائی ہو،کیایہ عمل درست ہے؟ اور کیا اس مسجد میں نماز ادا کی جاسکتی ہے؟ (محمد انس، کوکٹ پلی)

متعلقہ خبریں
نازیبا سلوک پر اسسٹنٹ ٹیچر معطل
مودی، گورنر کے ذریعہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کئے جانے پر خاموش کیوں ہے؟: ممتا بنرجی
بیٹے کی ہراسانی اورحملہ۔ضعیف شخص کا دو مرتبہ اقدام خودکشی
لون ایپ کے ایجنٹس کی ہراسانی، ایک شخص نے خودکشی کرلی
اسکولی طالبہ کی ہراسانی، نوجوان کو تین سال جیل و جرمانہ کی سزا

جواب:- فکس ڈپازٹ میں جو زائد رقم حاصل ہوتی ہے، وہ سود ہے اور اس کا استعمال حرام ہے؛ اس لئے مسجد جیسی مبارک جگہ کے لئے ایسی رقم کا استعمال سخت گناہ ہے، مسجد میں تو نہایت پاکیزہ اور حلال مال لگانا چاہئے؛ کیونکہ اللہ تعالی مال خبیث کو قبول نہیں کرتے، فقہاء نے بھی مسجد میں مال حرام کے استعمال کرنے کو منع کیا ہے (ردالمحتار: ۲؍۴۳۱)

اب بہتر صورت یہ ہے کہ جتنی رقم سود کی مسجد میں استعمال ہوئی ہے، عام مسلمانوں سے تعاون حاصل کرکے اتنی رقم آہستہ آہستہ غرباء پر خرچ کردی جائے؛ تاکہ مسجد میں لگی ہوئی پوری رقم پاک اورحلال قرار پائے۔

لیکن چونکہ مسجد پہلے سے موجود تھی، اور مال حرام کی مال حلال کے ساتھ آمیزش ہوئی ہے؛ اس لئے یہ مسجد شرعی ہی ہے، اوراس کے احکام وہی ہیںجو مسجد کے ہیں، اس میں نماز ادا کرنا درست ہے؛ البتہ حکمت کے ساتھ ذمہ داروں کو سمجھانا چاہئے کہ وہ مال حرام سے مسجد کو ملوث کرنے کی اس غلطی کی تلافی کریں اور آئندہ اس سے اجتناب برتیں۔

a3w
a3w