دہلی

نوٹ بندی، ہم خاموش تماشائی کاکردارادا نہیں کریں گے: سپریم کورٹ

درخواستوں کے ایک بیاچ کی سماعت کررہی دستوری بنچ میں شامل5 ججوں میں سے ایک جسٹس بی وی ناگرتنانے کہا کہ محض اس لئے کہ یہ ایک اقتصادی فیصلہ ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائیں گے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے2016کے نوٹ بندی کے فیصلہ کوچالینج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے آج کہاکہ وہ خاموش تماشائی کاکردارادانہیں کرے گی اور ہاتھ جوڑ کر خاموش بیٹھی نہیں رہے گی کیونکہ یہ ایک اقتصادی پالیسی فیصلہ تھا۔

 نومبر2016 میں 500اور1000 روپے کے اعلیٰ قدر کے حامل کرنسی نوٹوں کومنسوخ کرنے مرکزی حکومت کے فیصلہ کوچالینج کرنے والی58 درخواستوں کے ایک بیاچ کی سماعت کررہی دستوری بنچ میں شامل5 ججوں میں سے ایک جسٹس بی وی ناگرتنانے کہا”محض اس لئے کہ یہ ایک اقتصادی فیصلہ ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائیں گے۔

ہم ہمیشہ اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں یہ فیصلہ کس انداز میں لیاگیاتھا“۔ اس بنچ میں جسٹس ایس عبدالنذیر، جسٹس بی آر گوائی،جسٹس اے ایس بوپنا اورجسٹس وی راما سبرامنیم بھی شامل ہیں جو8 نومبرکے سرکلر کی قانونی حیثیت پر غورکررہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں یہ پالیسی نافذ العمل ہوئی تھی اورپورے ملک کوجھٹکے لگے تھے۔

جسٹس ناگ رتنانے یہ تبصرہ سینئر ایڈوکیٹ جئے دیپ گپتا کوجواب دیتے ہوئے کیاجو آربی آئی کی نمائندگی کررہے تھے اوران حدود کی وضاحت کرنے کی کوشش کررہے تھے جن کے اندر سپریم کورٹ کواپنی عدالتی نظرثانی کی طاقت استعمال کرنے بالخصوص اقتصادی پالیسی سازی کے شعبہ میں اختیارات کے استعمال کی اجازت حاصل ہے۔

ریزرو بینک آف انڈیا کے وکیل آروینکٹ رمنی نے دستوری بنچ کوبتایاکہ تناسب کے حصول کوصرف اس جانچ کی حدتک نافذ کیاجاناچاہئے کہ بیان کردہ مقاصداوران کے درمیان ایک معقول گٹھ جوڑموجودتھایانہیں۔ان کے استدلال کا بنیادی نکتہ یہ تھاکہ نوٹ بندی کی مالیاتی پالیسی کی سفارش کرنے کا فیصلہ کے دومالیت کے بینک نوٹوں کومنسوخ کیاجائے اوربعدازاں اس سفارش کوقبول کرنے کابینہ کا فیصلہ عدالتی نظرثانی کے قابل نہیں۔   انہوں نے زوردے کر کہاکہ اقتصادی پالیسی سازی کے شعبہ میں ویڈنسبری کے اصولوں کے ساتھ ساتھ تناسب کااصول کارآمد نہیں۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ سینئروکیل نے اس بات پر زوردیاکہ عوام کونوٹوں کی تبدیلی کیلئے مناسب اورمعقول مواقع فراہم کئے گئے تھے تاکہ اس بات کویقینی بنایاجاسکے کہ کوئی بھی اپنی محنت کی کمائی سے محروم نہ ہو، لیکن آخرکار یہ ان کا(عوام)کافرض تھاکہ وہ معاملات کو ایسے انداز میں ترتیب دیں جن سے ایسے مواقع سے استفادہ ممکن ہوسکے۔

 گپتانے کہا”کیونکہ مناسب موقع دیاگیاتھا لہذا یہ نہیں کہا جاسکتاکہ اس پالیسی کو غلط انداز میں نافذ کیاگیایا کٹ آف تاریخ مقررکرنے کاانداز غلط تھا“۔

درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل شیام دیوان کے بیانات کے جواب دیتے ہوئے گپتانے کہاکہ اگر کسی شخص کی رقم ہندوستان کے کسی لاکر میں تھی تواسے ہندوستان واپس آناچاہئے تھا، اس کے پاس یقیناً اس کیلئے وقت تھا۔

شیام دیوان ایک درخواست گزارکی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے تھے جس نے اپریل2016میں بیرون ملک روانہ ہونے سے پہلے1.62لاکھ روپے کی نقد رقم چھوڑی تھی لیکن فروری2017میں ملک واپس ہونے کے بعد اسے تبدیل کرانے سے قاصر رہاتھا۔