کیا بی جے پی نے بنڈی سنجے کو ہٹا کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی؟
کیونکہ کشن ریڈی بنڈی سنجے کی طرح جارح نہیں ہیں اور ان کا رویہ اور برتاؤ بھی جارحانہ نوعیت کا نہیں رہتا۔ وہ بنڈی سنجے جیسے قسم کے ماس لیڈر بھی نہیں ہیں۔

حیدرآباد: تلنگانہ بی جے پی میں کئی ہفتوں سے جاری خانہ جنگی اور اختلافات کا خاتمہ کرتے ہوئے پارٹی کی قومی قیادت نے منگل کو آخر کار بنڈی سنجے کو تلنگانہ بی جے پی کی قیادت سے ہٹادیا اور ان کی جگہ مرکزی وزیر جی کشن ریڈی کو تلنگانہ بی جے پی کا صدر مقرر کردیا ہے۔
واضح رہے کہ جی کشن ریڈی ماضی میں کئی برسوں تک بی جے پی کے ریاستی صدر رہ چکے ہیں۔ یہ نئی پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات دسمبر میں ہونے والے ہیں جس کے لئے صرف چار سے پانچ ماہ رہ گئے ہیں۔
کشن ریڈی بی جے پی کے ریاستی صدر کے طور پر کام کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کشن ریڈی پہلے غیر منقسم آندھرا پردیش میں بی جے پی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
ایسے وقت میں جب بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ تلنگانہ میں بی آر ایس کا واحد متبادل ہے اور اسے اس سال دسمبر میں تلنگانہ میں برسراقتدار آنے کا یقین ہے، بی جے پی کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا کشن ریڈی کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ تلنگانہ میں بی جے پی کو اقتدار دلائیں؟
بی جے پی کے ریاستی صدر کے طور پر اپنے پہلے دور میں کشن ریڈی کبھی بھی بی جے پی کو اپنے عنبرپیٹ حلقہ سے آگے لے جانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ کشن ریڈی عنبر پیٹ سے تین بار ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔
صرف کشن ریڈی ہی نہیں بلکہ بنڈارو دتاتریہ، کے لکشمن وغیرہ کی قیادت میں بھی بی جے پی حیدرآباد سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
یہ بنڈی سنجے کے دور میں ہوا جو بی جے پی حیدرآباد سے آگے نکل کر اضلاع میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب ہوئی۔ بنڈی سنجے کو 2020 میں تلنگانہ بی جے پی کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔
صدر بنتے ہی انہوں نے بی جے پی کے روایتی ہتھکنڈوں جیسے ہندو مسلم اور دیگر متنازعہ مسائل کے بل بوتے پر مختلف حربوں کا استعمال شروع کردیا جس کے نتیجہ میں اس پارٹی کی جانب تلنگانہ کے فرقہ پرست ہندؤوں کی بڑی تعداد راغب ہونے لگی۔
پارٹی نے حیدرآباد سے آگے بڑھتے ہوئے جی ایچ ایم سی انتخابات، دوباک حلقہ اسمبلی اور حضور آباد اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ پیش کیا۔
بنڈی سنجے تلنگانہ میں کانگریس کو مرکزی اپوزیشن کے طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے اور بی جے پی، بی آر ایس کے ایک مضبوط متبادل کے طور پر ابھری۔ (اگرچہ تلنگانہ میں کانگریس کو کمزور کرنے میں کے سی آر کا بڑا رول رہا ہے)۔
اس موقع پر، جب سب کو یقین تھا کہ بی جے پی، بنڈی سنجے کی قیادت میں اسمبلی انتخابات کا سامنا کرے گی، تاہم ان کے خلاف بی جے پی میں جھگڑے اور اختلاف سامنے آئے۔ بنیادی طور پر ایٹالہ راجندر اور کومٹ ریڈی راجگوپال ریڈی سے ان کے اختلاف کھل کر سامنے آگئے جبکہ یہ دونوں قائدین کانگریس اور بی آر ایس سے تلنگانہ بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔
انہوں نے بی جے پی کی قومی قیادت پر بنڈی سنجے کو ہٹانے کے لئے دباؤ بنایا۔ انہوں نے دلیل دی کہ بنڈی سنجے کے پاس اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔
لیکن اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا کشن ریڈی میں بی آر ایس کو شکست دینے کی صلاحیت ہے؟ کیونکہ کشن ریڈی بنڈی سنجے کی طرح جارح نہیں ہیں اور ان کا رویہ اور برتاؤ بھی جارحانہ نوعیت کا نہیں رہتا۔ وہ بنڈی سنجے جیسے قسم کے ماس لیڈر بھی نہیں ہیں جو پارٹی کارکنوں کو تحریک دے سکیں اور ووٹروں کو متاثر کر سکیں۔
بی جے پی کے علاوہ برسراقتدار بی آر ایس حلقوں کے علاوہ دیگر سیاسی حلقوں میں یہ گونج ہے کہ پارٹی کی قومی قیادت نے اسمبلی انتخابات سے قبل بنڈی سنجے کی جگہ کشن ریڈی کو تلنگانہ بی جے پی کا صدر مقرر کرکے ایک غلطی کی ہے اور پارٹی نے ایسا کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات سے قبل نہ صرف اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ہے بلکہ قبل از وقت تلنگانہ میں اپنی ہار بھی مان لی ہے۔