وہ سانپ سے بھی خطرناک آدمی ہوگا‘جو دل سے دل تو ملائے نظر ملا نہ سکے
وقف ترمیمی قانون نے پورے ہندوستان کو متحد کردیا ہے۔ عوام کو فرقہ وارانہ اساس پر تقسیم کرنے کی بی جے پی کی عادت کو ترمیمی قانون سے زبردست نقصان پہنچنے لگا ہے۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
وقف ترمیمی قانون نے پورے ہندوستان کو متحد کردیا ہے۔ عوام کو فرقہ وارانہ اساس پر تقسیم کرنے کی بی جے پی کی عادت کو ترمیمی قانون سے زبردست نقصان پہنچنے لگا ہے۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے سیکولر شہری اب ایک دوسرے کے بے انتہا قریب ہوگئے ہیں اور یہ قربت یقینا ہندوستان کو ایک ایسی طاقت دے گی جس کے چلتے بربریت ، لاقانونیت اور انتشار کی سیاست کو زبردست شکست فاش ہوگی اور لوگ اطمینان کی سانس لینے لگیں گے۔ موجودہ حالات سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ فرقہ وارانہ انداز سیاست چلنے والا نہیں ہے ، ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ عرصہ تک اس کا غلبہ رہتا ہے لیکن لوگ اصل مسئلوں پر واپس آجاتے ہیں۔
جہاں تک عوام کے سلگتے ہوئے مسئلے ہیں اُس سے بی جے پی کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے لوک سبھا میں جو جیت درج کی تھی وہ فرقہ وارانہ بنیاد پر نہیں تھی بلکہ ترقی کی اساس پر تھی لیکن جیسے ہی اُسے یہ احساس ہوا کہ ترقی کا نعرہ اُس کے کام نہیں آرہا ہے تو اُس نے رفتہ رفتہ انتشار کی سیاست کو پھر سے گلے لگا لیا۔
اب جبکہ بہار سے کانگریس نے بہت سارے موضوعات پر انقلاب کا بگل بجا دیا ہے جس کے اثرات پورے ملک میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس پر یہ الزام تھا کہ وہ احتجاج کے لئے سڑک پر نہیں آرہی ہے تو اس نے بہار کی شاہراہوں پر اپنی سیاست کی داغ بیل ڈالی جس کے لئے اسے عوام کی زبردست حمایت بھی حاصل ہوئی۔ انڈیا بلاک کے لگ بھگ سبھی ساجھے داروں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ کانگریس کے بغیر کامیابی ملنا ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ اب وہ کانگریس کے زیر سایہ آ گے بڑھنے کی تیاری کرچکے ہیں۔
کانگریس نے عملی طورپر سماجی انصاف کو زبردست جِلا بخشی ہے ، کرناٹک اور تلنگانہ میں پسماندہ طبقات کی گنتی کرکے یہ بتایا دیاہے کہ وہ اب زبانی جمع خرچ نہیں کرے گی بلکہ سائنٹفک انداز میں ’’جس کی جتنی آبادی اُس کی اتنی حصہ داری ‘‘ والی بات کو طاقت دے گی۔ یہی وہ نازک نکتہ ہے جس کو لے کر کانگریس اور انڈیا بلاک بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کو چاروں خانے چت کرسکتا ہے۔ لوگ مندر۔ مسجد ، ہندوستان۔ پاکستان، شمشان ۔ قبرستان اور ہندو۔مسلمان کی مکروہ اور گھناؤنی سیاست سے اُوب گئے ہیں اور وہ تازہ ہوا کی تلاش میں کانگریس کے روحِ رواں راہول گاندھی کی طرف بے حد للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
راہول گاندھی نے لیڈر آف اپوزیشن کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جس خوبصو رتی کے ساتھ ہندوستانی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا ہے جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ کانگریس کے حرکیاتی لیڈر راہول نے سیاست کے ہر موضوع پر جو جو پیشن گوئیاں کی ہیں وہ صدفیصد کھری ثابت ہورہی ہیں۔ ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یقینا راہول گاندھی کی تازہ اور پُر جوش سیاست ہندوستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔
یہ بے انتہا خوشی کی بات ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ملکوں میں بھی ان کی فراست کو لوگ سلام کررہے ہیں اور اس یقین کا اظہار کررہے ہیں کہ وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ ایک اُڑتی اُڑتی خبر یہ آرہی ہے کہ اوقاف کے قانون کے خلاف این ڈی اے میں بھی خاموش بکھراؤ ہورہا ہے جو اسے توڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ بی جے پی نے بہار میں نتیش کمار کو ’’ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے کردیا ہے‘‘ ۔
وہیں آندھراپردیش میں بھی وہاں کے سیکولر عوام جس احترام سے بابو کو دیکھا کرتے تھے اب ان کے خلاف ، اُن کی سوچ و فکر میں زبردست تبدیلی آگئی ہے۔ بابو اگر فی الفور اپنے حقیقی موقف کی طرف نہیں جائیں گے کہ تو اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ اپنی ساکھ کھو دیں گے۔ وہ بی جے پی اور پون کلیان جیسے خطرناک دشمنوں کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ چندرابابو نائیڈو سے یہ اُمید نہیں تھی کہ وہ پیسے کی خاطر بی جے پی کے ساتھ ساجھے داری کرلیں گے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ دل سے دل تو ملا رہے ہیں مگر نظر نہیں ملا پارہے ہیں۔ کسی شاعر نے ایسے situationمیں کیا خوب کہا ہے کہ
وہ سانپ سے بھی خطرناک آدمی ہوگا
جو دل سے دل تو ملائے نظر ملا نہ سکے