ہند۔ طالبان بات چیت سے پاکستانی قیادت کی نیند حرام
ہندوستانی معتمد خارجہ کی جاریہ ہفتہ طالبان کے زیراقتدار افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ سے دُبئی میں ملاقات نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی نیند اُڑادی ہے۔
اسلام آباد: ہندوستانی معتمد خارجہ کی جاریہ ہفتہ طالبان کے زیراقتدار افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ سے دُبئی میں ملاقات نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی نیند اُڑادی ہے۔
کئی سرکردہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آبادکو فوری کابل کے تئیں اپنے جارحانہ رخ پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ چہارشنبہ کے دن ہندوستانی معتمد خارجہ وکرم مسری نے افغانستان کے کارگزار وزیر خارجہ امیرخان متقی سے دُبئی میں ملاقات کی تھی۔ دونوں نے باہمی تعلقات سے جڑے مسائل کے علاوہ علاقائی پیشرفت پر بھی بات چیت کی تھی۔
اس ملاقات سے صرف 2 دن قبل نئی دہلی نے افغانستان پر پاکستان کے حالیہ فضائی حملوں کی سخت مذمت کی تھی جن میں 46 افراد بشمول خواتین اور بچوں کی جان گئی تھی۔ افغانستان نے ہندوستان کو ”اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار“ کہا ہے جس پر پاکستان میں یہ مطالبہ زور پکڑچکا ہے کہ اسلام آباد کی افغان حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ ذرائع نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ اسلام آباد میں بند کمرہ میٹنگس ہورہی ہیں۔
اعلیٰ عہدیدار‘ پاکستان کے ہمسایہ ملک کے تعلق سے اپنے ملک کی آئندہ کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کی سرحد کی صورتِ حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر سے بھروسہ اٹھتا جارہا ہے۔ طالبان رہنما خطہ کے دیگر ممالک خاص طورپر ہندوستان سے اشتراک کی کوشش میں ہیں۔ فوجی تجزیہ نگار عامر رانا نے کہا کہ پاکستان کو جاگ جانا چاہئے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل ہندوستان‘ افغانستان میں بڑا رول ادا کررہا تھا۔ نئی دہلی نے افغانستان میں تعمیرنو کے پراجکٹس میں تقریباً 3 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ شمالی اتحاد کے ارکان کے نئی دہلی سے اچھے تعلقات تھے۔ ہندوستان‘ طالبان کے ساتھ محتاط آگے بڑھ رہا ہے لیکن عمدہ پیشرفت ہورہی ہے۔ یہ ایسے وقت ہورہا ہے جب پاکستان کا افغانستان سے ٹکراؤ جاری ہے۔
دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ پاکستان نے تحریک ِ طالبان ِ پاکستان کو ”ریڈ لائن“ قراردیا ہے۔ اس نے طالبان کی عبوری افغان حکومت سے بارہا کہا ہے کہ وہ اس گروپ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔ عامر رانا نے کہا کہ پاکستان اپنے مغرب میں دشمن ہمسایہ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ ایک رائے یہ ہے کہ اسلام آباد‘ کابل والوں سے بات چیت کے بجائے تحریک طالبان پاکستان کا مسئلہ قندھار میں طالبان قیادت سے اٹھائے کیونکہ افغانستان میں حقیقی اقتدار قندھار میں ہے۔
2023 میں طالبان نے جو فتویٰ جاری کیا تھا اس کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ طالبان نے اُس وقت اپنے کیڈر کو پاکستان کے اندر جہاد کرنے سے روک دیا تھا۔ اس حوالہ سے طالبان کو قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان اور دیگر پاکستان مخالف گروپس کو اپنی سرحدوں سے کہیں اور منتقل کردیں۔ غور طلب ہے کہ افغانستان کے تئیں پاکستان کی موجودہ پالیسی بات چیت پر کم اور جارحانہ رخ پر زیادہ مرکوز ہے۔
اس سے کوئی مثبت نتیجہ تاحال نہیں نکلا۔ ماضی میں پاکستان کو افغانستان کے اندر ہندوستان کی موجودگی اور اس کے اثرو رسوخ پر کڑا اعتراض تھا۔ عامر رانا نے کہا کہ بات چیت کے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستان‘ خطہ کے دیگر ممالک کے ذریعہ طالبان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں مزید بگاڑ آیا تو پہلے سے کشیدہ صورتِ حال اور بھی کشیدہ ہوجائے گی اور دیگر ممالک کو مہم جوئی کا مزید موقع ملے گا۔