حیدرآباد: گذشتہ ایک ہفتے سے ایک قبر کی تصویر سوشیل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس کے بارے میں ہزار منہ ہزار باتیں کی جارہی تھیں۔ یہ تصویر ایک قبر کی ہے جس کے اوپر لوہے کا ایک دروازہ لگا کر اسے مقفل بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان کے ایک ملحد حارث سلطان نے سب سے پہلے یہ تصویر اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شیئر کی تھی۔ حارث سلطان تاہم پاکستان میں نہیں رہتا۔ وہ آسٹریلیا میں رہتا ہے اور سوشیل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ اپنے آبائی ملک کی برائی کرتا رہتا ہے۔
حارث سلطان نے جب یہ تصویر ٹویٹر پر لگائی تو ہندوستان کے تمام بڑے میڈیا چینلوں اور ویب پورٹلس نے اسے اُچک لیا اور غیرمصدقہ خبریں چلانے لگے۔
انہوں نے اس تصویر کو یہ کہہ کر بتایا کہ یہ قبر پاکستان کے ایک قبرستان کی ہے جہاں لوگ اپنی نوجوان بیٹیوں کی قبروں کو مقفل کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ پڑوسی ملک میں نیکروفیلیا نامی قبیح بیماری اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
اس تصویر کو لے کر گذشتہ ایک ہفتے سے ہندوستان کا نیشنل میڈیا کافی متحرک ہے اور بلاتوثیق من مانی طریقے سے نئی نئی کہانیاں گڑھ کر پاکستانیوں کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
مین اسٹریم میڈیا کے علاوہ سوشیل میڈیا اور دیگر چھوٹے موٹے نیوز پورٹلس نے بھی مختلف ٹویٹر ہینڈلز سے غیرمصدقہ تفصیلات لے کر من گھڑت کہانیاں تیار کرکے اس کے تعلق سے انتہائی جھوٹی اور غیرمصدقہ خبریں نشر کیں جن کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
فیکٹ چیکر محمد زبیر نے اس تصویر کی حقیقت معلوم کرنے کی بہت کوشش کی تاہم انہیں بھی اس بات کا پتہ نہیں چل سکا تاہم انہوں نے اس سلسلہ میں کچھ ٹویٹس کرکے اس بات پر زور دیا تھا کہ ہندوستانی میڈیا نے اس تصویر کے تعلق سے انتہائی گمراہ کن رویہ اختیار کیا ہے اور تقریباً تمام چینلوں اور پورٹلس نے اسے پاکستان اور نیکروفیلیا سے جوڑ کر دکھایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس تصویر کی حقیقت معلوم کرنے میں لگے ہیں۔
محمد زبیر کے ٹویٹس کو دیکھ کر حارث سلطان نے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا اور کہا کہ وہ غیرمعتبر ذرائع سے یہ اطلاع لے کر ٹویٹ کرنے پر معذرت خواہ ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے صنم بلوچ فینس نامی ایک ٹویٹر ہینڈل سے یہ اطلاع اور تصویر لی تھی۔
فیکٹ چیکر محمد زبیر تو اس تصویر کی حقیقت معلوم نہیں کرسکے تاہم محمد آصف خان نامی ایک ٹویٹر یوزر نے اپنے ویریفائیڈ ٹویٹر ہینڈل سے یہ کہتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کیا ہے کہ یہ قبر دراصل شہر حیدرآباد (دکن) کے ایک قبرستان کی ہے جہاں ایک قبر پر لوہے کا دروازہ نصب کرکے اسے تالا ڈال دیا گیا ہے۔
ویڈیو میں ایک شخص قبرستان کے ایک ذمہ دار شخص سے بات کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور دریافت کرتا ہے کہ اس قبر کو اس طرح کیوں مقفل کیا گیا ہے؟
قبرستان کے ذمہ دار مولانا جواب دیتے ہیں کہ لوگ پرانی قبر کو دوبارہ کھود کر نئی میتیں دفن کررہے ہیں اور اس قبر کی میت کے لواحقین یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اس قبر کو کھود کر یہاں نئی میت دفن کرے، اس لئے اس پر دروازہ لگا دیا گیا ہے۔
یہ قبرستان مادنا پیٹ، داراب جنگ کالونی، حیدرآباد (دکن)، انڈیا میں واقع ہے جہاں ایک قبر پر لوہے کا دروازہ نصب کرکے اسے مقفل کیا گیا ہے۔ مولانا مزید بتاتے ہیں کہ انہیں اس قبر میں موجود میت کے لواحقین کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں کیونکہ اس کی نماز جنازہ اس قبرستان کے قریب واقع جامع مسجد میں بھی نہیں پڑھائی گئی اور شہر کے کسی دوسرے مقام سے یہاں لاکر اس کی تدفین کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ قبر تقریباً دوسال پرانی ہے اور انتظامی کمیٹی کی اجازت کے بغیر اس میت کی یہاں تدفین کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جو جالی لگائی گئی ہے، اس کے لئے اجازت نہیں لی گئی تھی اور اس موقع پر کافی کہا سنی بھی ہوگئی تھی تاہم کمیٹی نے بعدازاں خاموشی اختیار کرلی کیونکہ معاملہ موت اور قبر کا تھا۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ قبر، قبرستان مادنا پیٹ، داراب جنگ کالونی، حیدرآباد دکن کی ہے پاکستان کی نہیں۔
یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد یہ بات تو واضح ہوئی کہ یہ تصویر پاکستان کے کسی قبرستان کی نہیں ہے اور اس تصویر کے ساتھ منسلک کرکے جو خبریں نیشنل میڈیا پر چلائی جارہی ہیں وہ انتہائی قابل مذمت ہیں۔
مردہ اجسام کے ساتھ محبت اور جنسی رغبت رکھنا بھی ایک بیماری ہے جسے نیکروفیلیا کہتے ہیں۔ تاہم اس خبر کے ساتھ جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ انتہائی معیوب ہیں۔ بے شک پاکستان میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں قبروں سے جوان عورتوں کی لاشیں نکال کر ان کے ساتھ زنا کیا گیا ہے، تاہم یہ بیماری کسی ایک قوم یا ملک تک محدود نہیں ہے۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
اس چیز کو بنیاد بنا کر پاکستان اور پاکستانیوں کے نام پر سارے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے جھوٹی خبریں چلانا، نیکروفیلیا سے بھی زیادہ بدترین ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور ہندوستانی میڈیا کو لاحق یہ بیماری علاج کے حدود سے بھی باہر نکل چکی ہے۔