مضامین

کلونجی۔ دینی اور سائنسی جائزہ

رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے علاج کے لئے کئی دوائیں استعمال کیں۔ صرف حب سوداء (کلونجی، سیاہ دانہ) پر اکتفاء نہ کیا۔ لازم ہے کہ دوا اور علاج سے متعلق ساری احادیث کو اس کے تناظر میں سمجھا جائے۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

طب نبوی میں کلونجی کو  بہت اہمیت دی گئی ہے۔ محدثین کا عام طور سے خیال ہے کہ ارشادات رسول میں جس شئے کو حبۃ السوداء (کالا بیج) کہا گیا ہے اس سے مراد کلونجی (فارسی شوینز) ہے۔

کلونجی کا نباتاتی نام Nigella sativa Linn ہے جس کا نباتاتی خاندان Ranunculaceae ہے۔ اسے انگریزی میں Black Cumin کہا جاتا ہے۔  ہندوستان میں جن دیگر ناموں سے  اسے جانا جاتا ہے وہ اسطرح ہیں:  کرشن جیرک (سنسکرت)، نلاجیرا کائرہ (تیلگو)، کرونجی رگم (تامل)، کارے جیرنگے (کنڑ)، کرونچیرنگم (ملیالم)۔

غیر ہندوستانی زبانوں میں اس کے نام اس طرح ہیں۔

سیاہ برنج (فارسی)، Nielle (فرانسیسی)، Nielle (جرمن)، Siah Kimyon (ترکی) Jintan (بھاشا، ملایا)، Nigella (اطالوی)، Neguilla (ہسپانوی)، Melanthion (یونانی)، Ketzach (عبرانی)۔

محدثین نے عام طور سے فارسی لفظ شونیز کو حبۃ السوداء کاہم معنی بتایا ہے اور چونکہ یہ بیج کالے ہوتے ہیں لہٰذا ان کو کمون اسود کا بھی نام دیا ہے۔ فارسی میں سیاہ برنج اور سیاہ دانہ کے نام سے جو بیج جانے جاتے ہیں وہ کرویہ کے بیج ہیں جنہیں  ہندی سیاہ زیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ نباتاتی طور سے یہ Carum  carvi کے بیج ہیں جن کا کلونجی یعنی حبۃ السوداء سے کوئی واسطہ نہیں۔

اسی طرح Ipomea hederacea سے حاصل کردہ بیج بھی کالا دانہ کہلاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو کالی رائی (Brassica nigre) کو بھی کالا دانہ کہہ دیتے ہیں۔ غرضیکہ سیاہ دانہ، کالا دانہ، سیاہ زیرہ، سیاہ دانہ یا کالی جیری وغیرہ نام سے جو بیج بازاروں میں بکتے ہیں وہ کلونجی یعنی حبۃ السوداء سے مختلف ہیں۔

حبۃ السوداء کا ذکر کنراک (Kezach) کے نام سے مقدس بائبل میں بھی ہوا ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں Black Cumin (Jastrow version)  کے نام سے کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو آیت Iseah 28: & 27)

بقراط  (Hippocratus) اور ڈائس کو رائی ڈس  (Dioscorides) نے اپنی تصنیفات میں حبۃ السوداء کو  Melathion کا نام دیا ہے جب کہ پلائنی  (Pliny) نے اسے Gith کہا ہے۔ ابن اعرابی  حبۃ السوداء کو حبۃ الخزراء بھی لکھتے ہیں، جب کہ کمال حسن کی لکھی گئی Encyclopaedia of  Islamic Medicine میں Pistacia terebinthus نامی پودے کے بیجوں کو حبۃ الخزراء بتایا گیا ہے۔ قدیم فارسی لٹریچر میں شونیز بہ معنی حبۃ السوداء کو شینیز بھی لکھا گیا ہے

کلونجی سے متعلق  حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کردہ احادیث کا اردو ترجمہ عام طور سے یوں کیا گیا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اس کلونجی (حدیث۔ حبۃ السوداء) کو استعمال کیا کرو۔ اس لئے کہ اس میں موت کے علاوہ ہر بیماری کی شفا موجود ہے اور کلونجی شونیز ہے‘‘۔ (راوی حضرت ابوہریرہ، بخاری، مسلم، ابن ماجہ، مسند احمد)۔

اس ضمن میں حضرت بریدہؓ کی بیان کردہ حدیث اس طرح ہے:

رسول اکرم نے فرمایا: ’’کلونجی (حدیث۔ شونیز) موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہے‘‘۔ (راوی حضرت بریدہ، مسند احمد)۔

خالد بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں غالب بن جبر کے ہمراہ سفر میں تھا۔ وہ راستہ میں بیمار ہوگئے۔ ہماری ملاقات کو ابن ابی عتیق (حضرت عائشہؓ کے بھتیجے) تشریف لائے۔ مریض کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کلونجی (حدیث۔ حبۃ السوداء) کے پانچ سات دانے لے کر ان کو پیس لو۔ پھر انہیں زیتون کے تیل میں ملا کر ناک کے دونوں طرف ڈالو کیونکہ ہمیں حضرت عائشہؓ نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ان کالے دانوں (حدیث۔ حبۃ السوداء) میں ہر بیماری سے شفا ہے مگر سام سے۔ میں نے پوچھا کہ سام کیا ہے؟ آپؓ نے کہا موت۔ (راوی حضرت خالدؓ بن سعد۔ بخاری، ابن ماجہ)۔

ترمذی۔ مسند احمد  اور ابن ماجہ میں کلونجی کی بابت حدیث کا اردو ترجمہ ان الفاظ میں بھی کیا گیا ہے:

رسولؐ خدا نے فرمایا: ’’تم اپنے اوپر ان کالے دانوں (حدیث۔ حبۃ السوداء) کو لازم کرلو کہ ان میں موت کے علاوہ ہر بیماری سے شفا ہے‘‘۔ (راویہ حضرت عائشہؓ۔ مسند احمد، راوی حضرت عبداللہ بن عمرؓ، ابن ماجہ راوی حضرت ابوہریرہ، ترمذی)۔

یہ حدیث کچھ اس طرح بھی درج ہے:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بیماریوں میں موت کے سوا ایسی کوئی بیماری نہیں جس کے لئے کلونجی (حدیث۔ حبۃ السوداء) میں شفا نہ ہو‘‘۔ (راوی حضرت ابوہریرہ، مسلم)۔

سیرت رسول کی کتابوں میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد (حدیث عسل) کے ساتھ کلونجی (حدیث حبۃ السوداء) کا استعمال مستقل فرماتے تھے۔

مندرجہ بالا سبھی احادیث بڑی اہمیت کی حامل ہیں لیکن حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث کےعربی متن پر غور ضروری ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ في الحب السوداء شفاء من كل داء، إلا السام و السام الموت۔۔۔ یعنی حب السودا ہر مرض میں مفید ہے لیکن سام میں نہیں اور سام دراصل موت ہے۔

سام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مستند لغات کے اعتبار سے زہر، زیریلا یا زہرآلودہ کے ہیں اور جس سے مراد ایسے  امراض کی بھی لی گئی ہے جو لاعلاج (مہلک) ہوں۔ واضح رہے بخاری اور مسلم میں حب السوداء سے متعلق ساری احادیث  میں لفظ سام ہی استعمال ہوا ہے لیکن مزید وضاحت کرتے ہوئے اسے موت بتایا گیا ہے۔ بعض عالموں نے سام سے مراد Cancer بتایا ہے چنانچہ اس حدیث کا تر جمہ، کلونجی ہر مرض کا علاج ہے سوائے موت۔۔۔ کی روح پر غور لازم ہے نہ کہ مطلب پر۔

انگریزی  میں بھی ترجمہ اس طرح ہے  "There is healing in black cumin for all diseases except death.”۔ یہ تراجم  اصول ترجمہ کے بھی منافی ہے جس سے حدیث کی روح (Spirit) کی وضاحت نہیں ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ طب نبویؐ کے ضمن میں متعدد دواؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے علاج کے لئے کئی دوائیں استعمال کیں۔ صرف حب سوداء (کلونجی، سیاہ دانہ) پر اکتفاء نہ کیا۔ لازم ہے کہ دوا اور علاج سے متعلق ساری احادیث کو اس کے تناظر (Perspective) میں سمجھا جائے۔ ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ۔۔۔ اللہ کے بندوں علاج کراؤ کیونکہ اللہ نے کوئی مرض ایسا نہیں نازل کیا ہے جس کا علاج نہ نازل کیا ہو۔

حضور اکرم ﷺ نے علاج ومعالجہ کے لئے جو ہدایات دیں، ان میں صحابہ کرام کو اطباء سے رجوع کرنے کے مشورے بھی شامل تھے۔ سنن ابو داؤد میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جس کی رو سے حضرت سعد بن وقاصؓ کو سینہ میں شدید درد کی شکایت ہوئی توحضور اکرمؐ حضرت علیؓ کو ساتھ لے کر ان کی عیادت کوتشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے حال معلوم کیا اورمشورہ دیا کہ اچھے طبیب سے رجوع کیا جائے اور جس طبیب سے رجوع کرنے کا مشورہ مرحمت فرمایا وہ حارث بن کلدہ نامی شخص تھا جو ثقیف کا باشندہ تھا۔

اس نے طب کا فن ایران کے مشہور شہر شاپور میں حاصل کیا تھا اورعقیدہ کے اعتبار سے ایک یہودی تھا۔ ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ اس نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ حضور اکرمؐ اس کے یہودی ہونے اور ماہر فن ہونے سے خوب واقف تھے۔ غرضیکہ حضرت سعدؓ کا علاج حارث کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ وہ صحت یاب ہوجاتے ہیں۔

مندرجہ بالا احدیث کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ حضرت سعدؓ کے لئے صرف ایک صلاح ہی نہیں بلکہ ایک پیغام ہے جو پوری امت کے لئے بھی ہے کہ جب بھی کوئی فرد کسی شدید مرض میں مبتلا ہو تواس پر لازم ہے کہ وہ اپنے قریب کے کسی ماہر طبیب سے رجوع کرے۔ طبیب کا صرف ماہر ہونا شرط ہے۔ اس کا دین اور نسل اور قومیت کیا ہے، اس کا کوئی واسطہ علاج سے نہیں۔

دواؤں کی افادیت کومحسوس کرانے اوران کے لازمی استعمال کی ضرورت جتانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے الفاظ بڑی معنویت رکھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ آپ اپنی امت میں طبی دواؤں کے استعمال کا عام رجحان چاہتے تھے۔

واضح رہے کہ سنا اور سنوت کے استعمال پر اسی انداز میں زور دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ’’اگر کوئی چیز موت سے بچاتی تووہ سنا ہوتی۔‘‘ (ترمذی۔ ابن ماجہ)۔ حضرت ابو انصاریؓ سے مروی حدیث میں درج ہے کہ ’’سناء اور سنوت میں ہر بیماری سے شفا ہے۔ (ابن عساکر)۔

دوا کی بابت کلونجی سمیت ان عظیم ارشادات کا طرز بیان اور الفاظ اس امر کی دلیل ہیں کہ حضوراکرمؐ خواہش رکھتے تھے کہ ان کی امت امراض کے علاج کے لئے صرف دعا پر تکیہ نہ کرے اورنہ ہی جادو ٹونا پر گنڈہ تعویذ کا طریقہ اپنائے جسے قبل اسلام لوگ روحانی علاج جتاتے تھے۔ بہرحال یہ بات کسی حد تک افسوسناک ہے کہ احادیث رسول ﷺ کے مطالب اور اس کی روح کو نظرانداز کرکے اس کے ظاہری معنوں کی تشہیرکی جائے یا ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔

ارشادات نبوی ﷺ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ مختلف امراض کے لئے علاج باالنباتات کوبڑی اہمیت دیتے تھے۔ ان ارشادات نے عربوں کو علم الادویہ کی جانب سنجیدگی سے متوجہ کیا جس کے نتیجہ میں اسلام کے ظہور کے کچھ ہی عرصہ بعد مختلف زبانوں کی طبی تصانیف کے عربی تراجم کئے گئے اور بغداد ادویاتی علم کا ایسا مرکز بن گیا جہاں سے ادویاتی لٹریچر ساری دنیا کو مہیا کیا گیا۔ آج کی ایلوپیتھی اسی لٹریچر کی مرہون منت ہے۔ 

کلونجی کا استعمال یوں تو کھانے میں خوشبو کے طور پر کیا جاتا ہے لیکن حالیہ سائنسی تحقیق کے اعتبار سے کلونجی میں بے پناہ طبی فوائد بتائے گئے ہیں۔

بو علی سینا نے القانون میں کلونجی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس کے طبی فوائد پر روشنی ڈالی ہے اوربتایا ہے کہ کلونجی کے استعمال سے تھکن دور ہوتی ہے۔ جسمانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کچھ اطبا کا کہنا ہے کہ کلونجی سانس کی تکلیفوں میں بھی مفید ہے اور گردے کی پتھری کو نکالنے میں معاون ہے۔ یہ پیشاب آور ہے۔ جلدی بیماریوں میں مفید ہے۔

امریکہ میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق کی بنیاد جو رپورٹ شائع ہوئی ہے وہ حدیث نبویﷺ  کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رپورٹ اس طرح ہے:

ترجمہ: سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر یہ بات بڑی حد تک  ظاہر ہوچکی ہے کہ کالا دانا (کلونجی) میں زبردست جراثیم کش، اینٹی آکسیڈنٹ anti-oxidant، اینٹی وائرل anti-viral اور سوزش کش anti-inflammatory خصوصیات موجود ہیں جو اس دعوے کو تقویت دیتی ہے کہ اس میں متعدد امراض کا علاج ممکن ہے۔ کچھ ایسی بھی تحقیقات ہوئی ہیں جس کی بنیاد پر علم ہوا کہ کالا دانا میں کینسر اور ٹیومر سے لڑنے کی طاقت موجود ہے۔

یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کلونجی کے تیل میں ایک جز Thymoquinenone نام سے پایا جاتا ہے جو دماغ میںPancreatic  کینسر کے Cell کو ختم کردیتا ہے۔

کلونجی کا استعمال مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً بیجوں کو شہد کے ساتھ کھانا یا گرم پانی میں بھگو کر استعمال کرنا یا گرم دودھ میں کچھ دیر تک بیجوں کو رکھ کر استعمال کرلینا۔

کلونجی کے کیمیائی اجزاء:

Longipinene, Anisaldehyde, Phellandrene, Pinene, Apiole, Thujene, Carvacrol, Carvone, Estragole, Fenchone, Limonene, Longifolene, Myrcene, Myristicin, n-Decane, n-Hexadecane, n-Nonane n-Tetradecane, p-Cymene, p-Cymene-8-ol, Sabinene, Terpinen-4-ol, Thymoquinone, Fatty Oil (Lauric acid, Myristic acid, Palmitic acid, Stearic acid, Oleic acid, Linoleic acid, Linolenic acid).

(ماخذ:  طب نبویؐ اور نباتات۔ از اقتدار حسین فاروقی۔ سائنس نامہ۔ منتخب مضامین برائے نباتات۔ از اقتدار فاروقی)