مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سامنے کئی چیالنجس، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کااحساس
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد پارلیمنٹ میں پلیسس آف ورشپ ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کی رو سے15/اگست1947 کو جس عبادت گاہ کا جو موقف ہوگا وہی برقرار رہے گا۔
حیدرآباد: آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے نو منتخب صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ بورڈ کے آگے کئی چیالنجس ہیں جن میں 1991 کا پلیسس آف ورشپ ایکٹ کا تحفظ، یکسال سیول کوڈ کی مخالفت، ملک میں پائے جارہے نفرت انگیز ماحول کا خاتمہ، مسلمانوں میں داعیانہ کردار کی بحالی اور مسلکی اختلافات کا خاتمہ قابل ذکر ہے۔
مدرسہ معہد العالیٰ الاسلامی میں منعقدہ توسیعی لکچر بعنوان مسلم پرسنل لاء اور مسلم پرسنل لاء بورڈ سے خطاب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد پارلیمنٹ میں پلیسس آف ورشپ ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کی رو سے15/اگست1947 کو جس عبادت گاہ کا جو موقف ہوگا وہی برقرار رہے گا۔
مگر حالیہ عرصہ کے دوران جس طرح اس قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، وہ تشویش کی وجہ بن گئی ہے۔ اگر یہی رویہ برقرار رہا تو ملک میں عبادت گاہوں کا تحفظ خطرہ میں پڑ جائے گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ سیاسی اور قانونی سطح پر ان کوششوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس قانون کا تحفظ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا چیالنج یونیفارم سیول کوڈ کی مخالفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان مختلف مذاہب، تہذیبوں کا گہوارہ ہے اور ہر مذہب اور طبقہ کے رہنے کا انداز جدگانہ ہے جس طرح مسلمانوں کیلئے مسلم پرسنل لا بورڈ سے اسی طرح عیسائی برادری کیلئے کرسچین پر سنل لاء، ہندو برادران کیلئے ہندو فیملی لاء، مختلف قبائیلی طبقات کے علحدہ، علیحدہ پرنسل لاء ہیں۔
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ جب ملک میں قبائیلی طبقات کی شورشین جاری تھیں اُس وقت مرکزی حکومت کے ساتھ اسی شرط پر سمجھوتہ ممکن ہو سکا تھا کہ تمام قبائیلی اپنے اپنے رسم رواج، تہذیب (پرسنل لاء) پر عمل کرنے کیلئے آزاد رہیں گے۔
اس لحاظ سے ہندوستان میں تمام طبقات کیلئے ایک عام قانون تدوین کرنا غیر مناسب ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت کرتا رہے گا۔
چند نام نہاد دانشوروں کی جانب سے انسانیت کو مذہب پر ترجیح دینے کی وکالت کو فریب وڈھکوسلہ قرار دیتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ یہ لوگ اُس وقت کہاں تھے جب گاؤ رکشا کے نام پر قتل کیا جارہا تھا۔ ماب لنچنگ کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین مذہبی شادی کا ہر مذہب کا پڑھالکھا اور دور اندیش طبقہ مخالف ہے اور ایسی شادیاں غیر فطری ہوتی ہیں۔ جو لوگ انسانیت کو مذہب سے اوپر سمجھتے ہیں ہی فرضی لو جہاد کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ ایسی شادیاں کی تعداد برائے نام اور نہیں کے برابر ہے۔
مسلمانوں میں مسلکی اختلافات کے موضوع پر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہے، اب ہر مسلک کے علماء دوسرے مسلک کے علماء سے ملاقات کرتے ہیں، بات چیت ہوتی رہتی ہے اور یہ بات مسلمانوں میں بہت بڑی مثبت تبدیلی ہے۔
قبل ازیں اپنے توسیعی لکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ احکام شریعت دو طرح کے ہیں۔ پہلا عقیدہ اور ایمان اور دوسرے کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ پہلے احکام میں تین طرح کے عمل کرنا واجب ہے۔(یہ احکام وہیں نافذ رہیں گے جہاں مسلمانوں کی حکومت اور اکثریت ہو) جبکہ عملی زندگی کے متعلق احکامات پر ہر جگہ عمل کرنا ضروری ہے۔
غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی عبادات، معاشرہ اور معاملت کی نگرانی مسلم پر سنل لاء بورڈ کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان چاہے کہیں بھی آباد رہیں، ان پر واجب ہے کہ وہ قانون شریعت کی پابندی کریں۔ ہر جگہ اسلامی عملی زندگی کو اختیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں طویل عرصہ تک مسلم بادشاہوں کی حکمرانی تھی۔
ان سلاطین نے اپنے مزاج کے مطابق شرعی قوانین کو کبھی کم اور کبھی زیادہ نافذ کیا۔ مغلیہ دور میں عدالتوں میں فیصلہ قاضیوں کے دریعہ صادر کئے جاتے تھے۔ پہلی بار1864میں انگریزوں کے دور میں مسلم پرسنل لا پر ذک پڑی۔ ہندوستان میں سرکاری قانون نافذ کردیا گیا۔
1937میں ممبئی ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں میمن برادری کی ایک خاتون نے اپنے بھائیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے ان پر آبائی جائیداد میں بہن کے حصہ کو غبن کرلینے کا الزام عائد کیا۔ بھائیوں ن ے دلیل پیش کی کہ ان کے اباو اجداد کا تعلق ہندوں سے تھا اور ہندوں میں بہنوں کو ترکہ دینے کا رواج نہیں ہے۔
عدالت نے اس دلیل کو قبول کرتے ہوئے بھائیوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلہ کے خلاف علماء ہند نے احتجاج کیا۔ جمعیت العلماء سے قانون شریعت کا مسودہ تیار کرنے کو کہا گیا اور اس طرح شریعت 1937 اپلی کیشن لا تیار کیا گیا۔ اس قانون میں دس باتوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح1947 میں مسلم خواتین کیلئے فسخ نکاح قانون بنایا گیا۔
صد رمسلم پرسنل لا ء بورڈ نے کہا کہ اگر یہ کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عورتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہی کیا گا تھا اور مسلم پرسنل لا بورڈ کو دستور کا تحفظ حاصل ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ، عمل اور تبلیغ کا حق حاصل ہے۔
دوسری بات یہ کہ دستور ہند کی تدوین کے بعد اگر کوئی قانون ختم نہیں کیا گیا تو اس کا مطلب یہ کہ وہ جاری ہے اور اس لحاظ سے مسلم پرسنل لاء کو دستور کا تحفظ حاصل ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ شریعت میں اہم احکام کا سچ ہونا یقینی ہے اور مسلم پرسنل لاء کے بیشتر مسائل قران و حدیث سے ثابت ہیں۔
خاص کر نکاح، طلاق، میراث عدت، رجعت، کے احکامات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان احکامات کا انکار کفر ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ مسلم پرسنل لا ء اور قانون شریعت پر عمل کرتے ہوئے تحفظ پرسنل لاء کے لئے پوری قوت سے جدوجہد کریں۔
انہوں نے کہا کہ اسی مقصد کے تحت1972میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اللہ کے فضل وکرم سے یہ مسلمانوں کا مضبوط ومستحکم غیر متنازعہ نمائندہ ادارہ بن کر ابھر ہے۔ اسی وجہ سے حکمران وقت کی جانب سے ملت کے اتحاد کی علامت اس ادارے کو توڑنے کی سازشیں اور کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
کبھی بریلوی بورڈ، کبھی شیعہ بورڈ، کبھی خواتین بورڈ بنائے گئے مگر الحمداللہ تمام سازشیں اور کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تمام ممالک کے علماء ایک ہی پلاٹ فارم پر اپنی انا کو قربان کرتے ہوئے جمع ہیں، ملت کی خاطر کاندھے سے کاندھا ملاکر ہر مسئلہ پر نبرد آزما ہیں اور یہ سلسلہ اسی جذبہ سے جاری رکھا جائے گا۔
بعدازاں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ منتخب کئے جانے پر مختلف گوشوں، علماء، سیاسی اور سماجی قائدین کی جانب سے تہنیت پیش کی گئی۔ اس موقع پر علماء اکرام و دیگر کی بڑی تعداد موجود تھی۔