حیدرآباد

میر عثمان علی خان نے رعایا پروری‘ انصاف اور رواداری سے حکومت کی: محمد ضیاء الدین نیر

نظام الملک آصف جاہ اول کا انتقال1748ء میں ہوا۔ ان کے بعد6بادشاہوں نے بڑی رواداری‘ صلح وآشتی کے ساتھ اس ریا ست حیدآباد پر حکمرانی کی۔

حیدرآباد: نظام الملک آصف جاہ اول کا انتقال1748ء میں ہوا۔ ان کے بعد6بادشاہوں نے بڑی رواداری‘ صلح وآشتی کے ساتھ اس ریا ست حیدآباد پر حکمرانی کی۔

متعلقہ خبریں
حیدرآباد کلکٹر نے گورنمنٹ ہائی اسکول نابینا اردو میڈیم دارالشفا کا اچانک دورہ کیا
حیدرآباد: معہد برکات العلوم میں طرحی منقبتی مشاعرہ اور حضرت ابو البرکاتؒ کے ارشادات کا آڈیو ٹیپ جاری
اللہ کے رسول ؐ نے سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم دیا: مفتی محمد صابر پاشاہ قادری
محفل نعت شہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم و منقبت غوث آعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ
محترمہ چاند بی بی معلمہ منڈل پرجاپریشد اپر پرائمری اسکول کوتّہ بستی منڈل جنگاؤں کو کارنامہ حیات ایوارڈ

آخری تاجد میر عثمان علی خان ساتویں بادشاہ تھے انھوں نے بڑی شان وشوکت سے ریا ست حیدرآباد پر حکومت کی۔ ان کی سادگی اور کفایت شعاری کے کئی واقعات ہیں۔ جس سے بڑا اچھنبا اور تعجب ہوتا ہے۔ خصوصاََ اس لئیے بھی کہ حضور نظام دنیا کے متمول ترین شخصیت تھے۔

نظام کے کٹر مخالف اور دشمنوں نے بھی ان کے کردار،رعایا پر وری اور انصاف اورو ر و ا داری کی تعریف کی ہے“ ان خیالات کا اظہار جناب محمد ضیا ء الدین نیر صدر کل ہند مجلس تعمیرملت کی صدارت میں منعقد ہوا۔

اجلاس عام بعنوان”پولیس ایکشن کے حقائق“ کو صدارتی خطاب  کیا۔ جناب  ضیاء الدین نیرؔ نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جامعہ عثمانیہ کا قیام ایک نامور کارنامہ ہے۔ اس وقت کے مشاہیرنے بہت سراہا۔ ان تعریف کرنے والوں میں گاندھی جی،راج گوپال چاری(آزاد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل)، رابندرناتھ ٹیگور اور سرپنچ بہادر وغیرہ شامل ہیں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی بہت اچھی تھی۔

ریاست کی سرکاری زبان گواُردو تھی لیکن مقامی زبانیں یعنی مرہٹی، تلگو اور کنڑی کے ساتھ بھی اچھا سلوک تھا۔اقوام متحدہ کی صیا نتی کونسل کی بحث سے بچنا چاہتا تھا 13 ستمبر 48ء کی صبح ہندوستانی فوج نے جنگ کا طبل بجادیا۔ڈاکٹر یوسف حامدی نے کنوینر اجلاس”سقوط حیدرآباد اور حقائق“ پر ابتدائی گفتگو کی۔

ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد نے کہا کہ 1724ء سے خاندان آصفیہ کے زیر نگیں خود مختار سلطنت تھی 1857ء  میں ہندوستان میں کی فرنگیوں کی مرکزی حکومت کی داغ بیل پڑی جس کی راجد ھانی دلی تھی۔ ملک کی آزادی کے وقت موجود 654 دیسی ریاستوں میں حیدرآباد کو دیرانہ اقتدار حاصل تھا اس کی حیثیت کو اس وقت واقعہ جو ظہور پذپر ہوا صحیح نہ ہوا۔ نظام کے ساتھ فرنگیوں نے صحیح انصاف نہیں کیا۔

اُمید پر رکھتے ہو ئے دکن کی آخری مسلم بادشاہ کو فریب دیا۔ پنڈت جوہر لال نہرو‘ برطانیہ کے سفر پر تھے‘وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے  عجلت سے کام لیتے ہوئے حیدرآباد کی اس مسلم ریاست کو صرف پانچ دنوں میں انضمام عمل میں آیا۔ اس طرح ایک سال کی قلیل مدت میں اس تاریخی مسلم ریاست کو انڈین یونین میں ضم کردیا گیا۔

اس ملک پر مسلمانوں کا ایک شاندار ماضی گزرا تھا لیکن زمانہ کے نشیب وفراز کے بعد آج وہ اقلیتی حیثیت سے کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ ہندوستانی فوج کے حیدرآباد پنڈت سندر لال کی صدارت میں ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ حکومت نے حال حال میں اس کو افشاء کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق 45ہزار افراد شہید ہوئے۔

یہ رپورٹ حکومت ہند کو پیش کی گئی تھی لیکن حکومت ہند نے اسے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کئے۔ دونوں رپورٹ میں تین ریاستوں پراس وقت مولاناابوالکلام آزاد وزیر تعلیم تھے۔ان کو معلوم ہوا۔ تو انھوں نے پنڈت نہرو سے اصرار کیا کہ ایک ٹیم اس قتل عام کی تحقیق کے لئے بھیجی جائے۔ واضح ہو کہ ہ یہ سب سے بڑا قتل عام ہے۔ جناب محمد وہاج الدین صدیقی نائب صد رکل ہند مجلس تعمیرملت نے کہا کہ دہشت ناک قتل عام تھا۔

اس قتل عام میں خود ہندوستانی افواج نے بھرپور حصہ لیا لیکن 20‘ 22 سال کے بعد اس رپورٹ کا کچھ حصہ باہر آیا اور عوام میں معلوم ہوا تو اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے جو پنڈت نہرو کی دختر تھیں نہیں چاہتی تھیں کہ اس رپورٹ کا راز نہ کھل جائے۔ ان کے مطابق رپورٹ کامکمل شائع  نہ ہونا انتہائی نقصان دہ ہے۔

جناب محمد سیف الرحیم قریشی نائب معتمد عمومی تعمیرملت،جناب عمراحمد شفیق معتمد عمومی،جناب رؤف ریحان نے بھی مخاطب کیا۔ڈاکٹر یوسف حامدی نے کاروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔