شمالی بھارت

آئی آئی ٹی کھڑگ پور کے طالب علم فیضان احمد کی پراسرار موت ہنوز ایک معمہ

اس ماہ کی 14تاریخ کومیکانیکل انجینئرنگ کے تیسرے سال کے طالب علم فیضان احمد کی جزوی طور پر مسخ شدہ لاش ایل ایل آر ہاسٹل سے برآمد ہوئی تھی۔ کھڑگ پور آئی آئی ٹی انتظامیہ اس کو خودکشی سے جوڑ کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

کلکتہ: ملک کے مشہور انڈین انسی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کھڑگ پور کے طالب علم 23سالہ فیضان احمد جو’’ایریل روبوٹکس ریسرچ ٹیم ‘‘کا حصہ تھے، کی مشتبہ حالت میں موت کو دوہفتے گزر جانے کے باوجود نہ مغربی بنگال کی پولیس اور نہ ہی آئی آئی ٹی کھڑکپورکی انتظامیہ کوئی واضح موقف پیش کرسکی ہےکہ آخر فیضان احمد کی موت کن حالات میں ہوئی اور اس کےلئے ذمہ دار کون کون لوگ ہیں؟

اس ماہ کی 14تاریخ کومیکانیکل انجینئرنگ کے تیسرے سال کے طالب علم فیضان احمد کی جزوی طور پر مسخ شدہ لاش ایل ایل آر ہاسٹل سے برآمد ہوئی تھی۔ کھڑگ پور آئی آئی ٹی انتظامیہ اس کو خودکشی سے جوڑ کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

آسام کے رہنے والے فیضان احمد اپنے والدین کی اکلوتے اولاد تھے۔ بیٹے کی ناگہانی موت سے والدین صدمے میں ہیں۔ اس کے علاوہ آئی آئی ٹی کھڑگ پور کے کیمپس میں بھی حالات خراب ہیں، طلبا تنظیمیں اس کو خودکشی ماننے کو تیار نہیں ہیں کیوںکہ فیضان احمد اپنے کلاس میں ہونہار طالب علم کے طور پرجانے جاتے تھے۔

اس کے علاوہ وہ کیمپس میں سماجی سرگرمیوں میں بھی وابستہ تھے۔ اسٹوڈنٹس ویلفیئر گروپ اور یو جی اسٹوڈنٹس کونسل کے بھی سرگرم رکن تھے۔

کیمپس میں طلبا نے اپنے ساتھی کی ناگہانی اور حادثاتی موت پر کینڈل مارچ نکال کراظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس واقعے کی منصفانہ جانچ کا مطالبہ کیا۔ طلبا نے ڈائریکٹرسے بھی ملاقات کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ فیضان احمد کی خودکشی کی تھیوری ناقابل فہم ہے۔

فیضان کی والدہ ریحانہ نے بتایاکہ 11اکتوبر کو اس نے دوپہر میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ کھانا بہت ہی لذیذ تھا، پھر لائبریری جلد سے جلد پہنچنے کا کہہ کر اس نے بات ختم کردی۔ رات کو 7.30بجے جب وہ رات کا کھانا کھانے کےلئے ہاسٹل سے میس جارہا تھا تو اس نے اپنی خالہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ شاید کڑی وغیر بنی ہوگی۔ جو کچھ رہے گا کھالوں گا۔

اپنی خالہ سے طویل بات کرنے کے بعد اس نے فون رکھ دیا۔ ریحانہ کہتی ہیں کہ وہ مجھے اور خالہ سے بات کرتے وقت بہت ہی خوشگوار موڈ میں تھا۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر پریشان ہے۔ مگر یہ اچانک کیسے ہو گیا؟ اس کے ساتھ یہ سب کس نے کیا؟ میرا بیٹا بنگال کا مہمان تھا۔ وہاں وہ تعلیم حاصل کرنے کےلئے گیا تھا۔

میں وزیراعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی سے جو خود ایک خاتون ہیں اور ایک ماں کا درد سمجھ سکتی ہیں، انصاف کی امید کرتی ہوں، میرے بیٹے کے گناہگاروں کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔

فیضان کے والدین ریحانہ اور سلیم احمد آسام کے تین سوکھیا کے رہنے والے ہیں۔ والدین نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا شرما اور مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کوخط لکھ کر اعلیٰ سطحی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیمنتا بسوا شرما نے اس واقعہ پرٹویٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے بنگال کی وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

فیضان کے اہل خانہ اور دوستوں کے مطابق وہ بہت ہی محنتی اور ذہین طالب علم تھا۔ ریاستی سطح کےریاضی اور کیمسٹری اولمپیاڈ میں تین طلائی تمغے حاصل کرچکا تھا۔ دو بار ریاضی میں اور ایک بار کیمسٹری میں۔ وہ بچپن سے ہی تعلیمی مقابلے میں حصہ لیتا تھا اور کامیاب ہوتا تھا۔

ماں کہتی ہے کہ میں اس سے کہتی تھی کہ کامیابی اورناکامی کی فکر کرنے کے بجائے ان مقابلوں میں حصہ لو اور اس کا لطف اٹھائو۔ ماں نے بتایا کہ فیضان ہمارے گھر کےلئے برکت کا ذریعہ تھا۔ آئی آئی ٹی کھڑگ پور میں فیضان کے ہم جماعت طالب علموں نے بتایا کہ فیضان ایک پراعتماد طالب علم تھا، وہ ہرایک سے مسکرا کر ملاقات کرتے تھا۔

’’ایریل روبوٹکس، کھڑگ پور‘‘ کے فیس بک پیج کے مطابق فیضان نے ایک ٹسٹ پاس کرکے اس ریسرچ ٹیم کا حصہ2021 میں بنا تھا۔ ریسرچ گروپ کو ایس آر آئی سی (اسپانسرڈ ریسرچ اینڈ انڈسٹریل کنسلٹنسی) سنٹر فار ایکسیلنس ان روبوٹکس کے حصے کے طور پر اسپانسر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کھڑگ پور روبو ساکر اسٹوڈنٹس گروپ (کے آر ایس ایس جی) کا بھی ٹیم ممبر تھا۔ اس کے علاوہ آن لائن کلاسیس بھی لیتا تھا۔

آسام میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اہل خانہ نے بتایا کہ آئی آئی ٹی کھڑگ پور کی انتظامیہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی ہے۔ خاندان نے پراسرار موت کی مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

فیضان کی خالہ سلمیٰ احمد نے پریس کانفرنس میں کہاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے ادارے کے ہاسٹلز میں سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہوں۔ یہ پہلے سے منصوبہ بند قتل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کے دعوؤں میں تضاد ہے۔ پہلے انہوں نے ہمیں بتایا کہ اس کی موت پھانسی سے ہوئی، پھربتایا کہ وہ ذہنی عدم توازن کا شکار تھا اوربعد میں بتایا کہ دل کا دورہ پڑنے سے اس کی موت ہوئی ہے۔ ماں ریحانہ احمد نے بتایا کہ فیضان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی اور جب ہم نے اس کی لاش دیکھی تو چہرے پر ناک غائب تھی۔

اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ جب وہ کیمپس پہنچے تو انہیں نہ تو انتظامیہ کی طرف سے کوئی کال موصول ہوئی اور نہ ہی انہیں واقعے کے بارے میں صحیح طور پر آگاہ کیا گیا۔ ریحانہ نے کہا کہ جب وہ کیمپس پہنچیں اور آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر سے بات کی تو ان کے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ہمیں آئی آئی ٹی کھڑگ پور انتظامیہ کی طرف سے مطلع نہیں کیا گیا۔ پولیس نے ہمیں اطلاع دی۔ وارڈن نے بتایا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے اس لئے وہ تین دن سے ہاسٹل میں موجود نہیں تھے۔

ریحانہ نے مزید بتایا کہ جب وہ بیٹے کی موت سے متعلق ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم سے بات کررہی تھیں، اس وقت میٹنگ میں موجود ایک شخص (جس کی کنیت مبینہ طور پر داس تھی) میٹنگ کے دوران مسکراتا رہا۔ جب ہم غمزدہ تھے، انہوں نے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی۔

فیضان کی خالہ نے بتایا کہ داس کا رویہ شرمناک تھا، وہ اس ماں کے سامنے مسکرارہا تھا جس نے اپنا سب کچھ کھودیا تھا۔ انتظامیہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہ رہا تھا، لیکن اس کے کپڑے اور دیگر اشیاء ہاسٹل کے دیگر کمروں سے برآمد ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فیضان جس ہاسٹل میں تھا، اس میں کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں، اس لئے وہ حال ہی میں دوسرے ہاسٹل میں منتقل ہوا ہے۔

طلبا کے مسلسل احتجاج اور ڈائریکٹررویندر کمار تیواری کے استعفیٰ کے مطالبے کے پیش نظر22اکتوبر کو ڈپٹی ڈائریکٹرنے اوپن ہاؤس میں طلبا سے خطاب کیا اور ان کی باتوں کو سنا۔ یہ میٹنگ رات بھر چلی۔ میٹنگ میں ڈپٹی ڈائریکٹرنے قبول کیا کہ کہیں نہ کہیں کوتاہیاں ہوئی ہیں کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ فیضان کی موت کن حالات میں اور کس طرح سے ہوئی ہے۔

ایک طالب علم نے بتایا کہ اوپن ہاؤس رات 8.30بجے شروع ہوا اور اگلی صبح 7 بجے تک چلتا رہا۔ رات بھر اوپن ہاؤس چلنے کی وجہ سے ڈائریکٹر بیمار ہوگئے، اس لئے میٹنگ کو ملتوی کرنا پڑا۔

فیضان کی والدہ نے 20اکتوبر کو کیمپس میں طلبا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے ہم سے معذرت کی ہے لیکن میں ان کی معذرت کا کیا کروں؟ یہ نہ فیضان کو واپس لاسکیں گے اور نہ انہیں انصاف دلاسکیں گے۔

کھڑگ پور ٹاؤن پولیس اسٹیشن کے تفتیشی افسر نے بتایاکہ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ہم نے طلبا سمیت 10 سے زائد لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اب تک ہمیں نہیں ملی ہے۔