حیدرآباد

مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر قومی یومِ تعلیم کی تقریب: حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ ہر سال ل 11 نومبر کو مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر ان کے اعزاز میں قومی یوم تعلیم منایا جاتا ہے۔

حیدرآباد: لسانیات کے مرکزی دفتر بنجارہلزروڑنمبر12پرمنعقدہ فکری نشست بضمن 11نومبر عالمی یومِ تعلیم  ویوم پیدائش مولانا ابوالکلام آزاد سے اظہار خیال کرتے ہوئے صدر نشین مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ ہر سال ل 11 نومبر کو مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر ان کے اعزاز میں قومی یوم تعلیم منایا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں
جمعیتہ علماء حلقہ عنبرپیٹ کا مشاورتی اجلاس، اہم تجاویز طئے پائے گئے
اہل باطل ہمیشہ سے پیغام حق کو پہچانے سے روکتے رہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
حیدرآباد: شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کے 110 ویں عرس مبارک کے موقع پر جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد
حیدرآباد کلکٹر نے گورنمنٹ ہائی اسکول نابینا اردو میڈیم دارالشفا کا اچانک دورہ کیا
اللہ کے رسول ؐ نے سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم دیا: مفتی محمد صابر پاشاہ قادری

مولانا آزاد ایک اہل بصیرت اور ممتاز اسکالر، آزادی پسند، اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔  مولانا آزاد 11نومبر1888ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ان کا تاریخی نام فیروز بخت، اصل نام محی الدین احمد، کنیت ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔

والد مولانا خیرالدین ہندوستان کے ایک علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے جبکہ والدہ مدینہ منورہ کے ایک ذی مرتبہ خانوادے کی دختر تھیں۔ انہوں نے تعلیم بھی روایتی اور مذہبی پائی ابھی درسِ نظامی کی آخری جماعتوں سے گزررہے تھے کہ خداداد صلاحیت وذہانت کے جوہر کھلنے لگے۔ 

عہدطفولیت میں شعر وشاعری سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی لیکن عنفوانِ شباب میں قدم رکھا تو اپنے دور کے وقیع رسائل ’’الصباح‘‘ لسان الصدق‘‘ وکیل‘‘ دارالسلطنت ‘‘ تحفہ احمد‘‘  ‘‘ کی ادارت کا فخر حاصل ہوا اور ادبی دنیا کی توجہ بے اختیارانہ مولانا کی جانب اس وقت مبذول ہوگئی جبکہ ان کی عمر15،16سال سے زائد نہ تھی چنانچہ1904ء میں لاہور کی انجمن ’’حمایت اسلام‘‘ نے اپنے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لئے ایڈیٹر ’’لسان الصدق‘‘ کو مدعو کیا اس اجلاس میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، اور ڈاکٹر اقبال بھی موجود تھے مولانا ابوالکلام آزاد نے اجلاس میں  خطبہ پڑھا تو بڑی مشکل سے  حاضرین کو یقین آیا کہ یہ وہی آزاد ہیں جو ’’لسان الصدق‘‘ کے مدیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں کیونکہ اس وقت ان کی عمر صرف 16 برس تھی اور اس عمر کے نوجوان سے اس ذہانت اور علم وفضل کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی، بہر حال اس کے بعد سارے ہندوستان نے ان کو جان لیا اور نہ صرف علامہ شبلی، شیخ عبدالقادر اور مولانا حالی جیسے معروف صحافی اور ادیب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے بلکہ عام مسلمانوں میں بھی ان کی شہرت ومقبولیت کا مظاہرہ ہونے لگا تعلیم کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

آزادی ملنے کے بعد ملک کے پہلے وزیر تعلیم کے طور پر بڑی دور اندیشی سے مستقبل کو سامنے رکھ کر  مولانا نے تعلیمی پالیسی وضع کیا۔فن و ثقافت اور تعلیم کے کئی اہم اداروں کے قیام کو عمل میں لایا۔مثلاً یونیورسٹی گرانٹ کمیشن،ساہتیہ اکاڈمی،سنگیت ناٹک اکاڈمی،للت کلا اکاڈمی جیسے کئی قیمتی کار آمد پروگرام مولانا کے دماغ کی ہی دین ہیں۔

ان سب کے علاوہ انہوں نے سب سے زیادہ توجہ سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے کو دیا۔ان کے بڑے بڑے اداروں کا نقشہ ٔ راہ (روڈ میپ)تیار کرکے ۱۸؍ اگست ۱۹۵۱ء میں ملک کے پہلے تکنیکی ادارہ (آئی آئی ٹی)کا کھڑگ پور میں سنگ بنیاد رکھا۔مولانا ملک کے مستقبل ساز تھے،جدید بھارت کے نقاش تھے۔ان کی اعلیٰ ترین تعلیمی منصوبہ بندی کی بدولت ہمارے سائنسداں آج چاند ستاروں سے باتیں کر رہے ہیں۔

سنجیدگی سے غور کر نے پر یہ امر یقینی معلوم ہو تا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد جیسی عظیم ہستی کی بلندی کی پیمائش تاریخ میں صحیح طریقے پر نہیں ہو سکی۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا شمارہ ان عظیم مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے جنھوں نے صرف ہماری قومی تحریک آزادی کی قیادت کے فرائض انجام دیئے ،بلکہ اپنی علمی کاوشوں کے طفیل ہر چہار جانب علم کے روشن مینار بھی قائم کئے۔

مولانا آزاد کو خدانے غیر معمول صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ علم وعمل کے اس عظیم شہسوار نے جس میدان میں بھی قدم رکھا کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ جہاں ایک طرف انھوں نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے شانہ بشانہ مل کر ہماری متحدہ قومیت کی بنیادیں مستحکم کیں۔

وہیں دوسری جانب قرآن کی تفسیر لکھ کر قوم مشرق کو زندگی کے آداب بھی سکھائے۔ اپنی اس ہمہ جہت شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے انھوں نے جو الفاظ کہے تھے وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں:مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے ایک جہان واقف ہے۔ شخصیات، ادوار کی پہچان ہوتی ہیں کسی ایک زمانے میں بسنے والے لوگ اس دور کا حوالہ بن جاتے ہیں کیونکہ لوگوں کا اسلوبِ فکر اور طرزِ عمل ایسے معاشرے کو تشکیل دیتا ہے جو اس دور کے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے اگرچہ عوام و خواص ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں مگر فطرت کا ایک قانون تسلسل سے چلا آ رہا ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسی شخصیات ضرور موجود ہوتی ہیں جو انسانیت کا ناز اور قوموں کا فخر بن کر وقت کے ماتھے پر اپنا نام یوں ثبت کر دیتی ہیں کہ تاریخ انھیں کبھی فراموش نہیں کر پاتی۔

ایسے لوگ ایک زمانے کے لیے نہیں رہ جاتے بلکہ آنے والا ہر زمانہ انھیں فکر و شعور کی مسند پر بٹھا کرہمیشہ اپنے اندر زندہ رکھتا ہے اس پیرائے میں مولانا آزاد کی شخصیت کسی گوہر نایاب سے کم نہیں۔ مولانا آزاد محض ایک شخصیت نہیں بلکہ تاریخ کا ایک مکمل باب ہیں جو جامعیت اور ہمہ گیریت کو یوں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں کہ ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

سادگی، سنجیدگی اور کم گو فطرت کے ساتھ مولانا آزاد ایک لطیف طبیعت کے مالک تھے قرآن اور صاحبِ قرآن سے عقیدت اور انسیت کا جو تعلق  مولانا آزاد کے ہاں دکھائی دیتا ہے وہ کسی پیمانے میں سما نہیں سکتا۔ قرآن سے آپ کا تعلق کبھی بھی محض قاری اور کتاب کا نہیں تھا بلکہ آپ کے اندر قرآن سے شغف، اور فکر وشعور کے ساتھ مطالعہ قرآن کا ایک والہانہ پن موجود تھا۔ آپ اپنا ایک واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں روزانہ نماز فجر کے بعد قرآن کی تلاوت کیا کرتا تھا۔  قرآن کو برابر سمجھ کے پڑھنا شروع کیا اور یوں ہی پڑھا گویا ابھی نازل ہو رہا ہو۔

قرآن اور صاحب قرآن سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ قرآن کی تلاوت یا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سنتے ہی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب ہو جاتیں۔ ایک دفعہ سورۃ مزمل کی تلاوت سن کر اتنا روئے کہ تکیہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ خود بھی خوبصورت لہن کے ساتھ قرآن پڑھتے۔

ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ذکر مدینہ پر بے قرار ہوجاتے۔ گویا تڑپ اٹھتے اور آنکھوں سے زاروقطار اشک رواں ہو جاتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد  کی شخصیت کے تخلیقی پہلوؤں میں اس قدر جامعیت ہے کہ ایک گوشہ جان کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہی کل شخصیت کے لئے کافی ہے مگر آپ ہر پہلو میں اتنی جامعیت اور استقامت ہے کہ ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا بذاتِ خود ایک تخلیق ہے۔آپ نہ صرف ایک رہنما بلکہ مفکر، مدبر،  سیاستدان، فلسفی، صوفی اور پختہ مومن تھے۔

نہ صرف آپ کی ذات بلکہ آپ کی فکر بھی کلیت اور جامعیت کا مرقع تھی۔ آپ نے تضاد کے بغیر عقل اور عشق کا تقابلہ جس انداز میں کیا وہ عام انسان کے فکر و شعور کو جھنجوڑ کے رکھ دیتا ہے اور قاری کو ششدر چھوڑ دیتا ہے۔آپ کے فکر میں عقل بھی عروج پر ہے اور عشق بھی کمال پر۔

آپ نے جہاں ایک طرف جوانوں کو عشق و جنون کا سبق دیا وہی عقل، تدبر اور حکمت کو نصب العین بنا کر زندگی کا مقصد حاصل کرنے کی تلقین بھی کی۔گویا مولانا ابوالکلام آزاد ایک ایسا سنگم ہیں جہاں علم و عرفان کے بہت سے دریا آکرملتے ہیں۔ بحرِعرفان و بحرِ ایکان، بحرِفلسفہ وبحرِ قدامت، بحرِ سکون و بحرِانقلاب اور سنگمِ مشرق و مغرب کا نام مولانا ابوالکلام آزاد ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ میں پیدا ہوئے جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ مکہ اب سعودی عرب میں ہے۔

ان کا اصل نام سید غلام محی الدین احمد بن خیر الدین الحسینی تھا لیکن بعد میں وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوئے۔ آزاد کے والد افغان نژاد مسلمان عالم تھے۔ ان کے والد کا انتقال بہت چھوٹی عمر میں ہو گیا تھا، اس لیے وہ دہلی میں اپنے نانا کے ساتھ رہنے لگے۔ 1857 کی ہندوستانی بغاوت کے دوران، وہ ہندوستان چھوڑ کر مکہ میں آباد ہو گئے۔ بعد میں مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان واپس آئے اور اپنے خاندان کے ساتھ کلکتہ شہر میں بس گئے۔

تاریخی و تہذیبی شخصیت کے ساتھ انھوں نے مذہبی، ادبی اور سیاسی و صحافتی میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم ہونے کے باعث انھوں نے ملک کے تعلیمی تصورات کو معیاری حسن عطا کیا۔ نیز اس کی اصلاحات کی کوششیں کیں۔ وہ ایک بڑے مفکر و مدبر تھے اور انھیں گہری سیاسی و سماجی اور تعلیمی بصیرت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بیشتر شخصیات اور اعلیٰ قیادت ان سے متاثر تھی۔

ان میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل جیسی صف اول کی ہستیاں شامل ہیں۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت سے بے حد متاثر تھے۔ اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں:’’میں صرف عملی سیاست ہی نہیں جانتا، سیاست کا طالب علم بھی ہوں۔ علم سیاست کی کتابیں مجھ سے زیادہ ہندوستان میں کسی اور نے نہیں پڑھیں۔

میں تیسرے چوتھے سال یورپ کا بھی دورہ کرتا ہوں جہاں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے سیاست کے تازہ ترین علم سے واقفیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن جب ہندوستان پہنچ کر مولانا ابوالکلام آزاد سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب بھی بہت آگے ہیں۔‘‘مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کی آزادی اور انگریز حکومت کے درمیان مضبوط چٹانی عزائم کے ساتھ حائل رہے، انھوں نے اپنی زندگی کے بیش قیمتی 10 سال قید خانے کی صعوبتوں میں گزارے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی خدمات کا میدان بہت ہی وسیع و عریض ہے ، اس وسیع میدان میں آپ نے مختلف حیثیتوں سے کام انجام دیا ہے کیونکہ بعض رسائل و جرائد وہ تھے جو خود آپ کی ملکیت میں تھے اور آپ بذات خود انکی ادارات کا فرائض بھی انجام دیتے تھے، بعض رسائل و جرائد وہ تھے جسکی ملکیت آپ کے ہاتھوں میں تو تھی لیکن ادارتی کاموں کی ذمہ داری کسی اور کو دی گئی تھی۔