دہلی

نئے فوجداری قوانین کے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں پی آئی ایل

پی آئی ایل میں کہاگیاکہ بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم میں 1872ء کے قانون شواہد کی بیشتردفعات کو برقرار رکھاگیا ہے جن میں اقبال جرم‘حقائق کا آپس میں تعلق اور ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ شامل ہیں۔

نئی دہلی: نوآبادیاتی دور کے تعزیرات ہند‘ ضابطہ فوجداری اور قانون شواہد کو تبدیل کرتے ہوئے نئے فوجداری قوانین کے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک مفادعامہ کی درخواست داخل کی گئی ہے۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگاکہ عدالت عظمی نے جاریہ سال مئی میں ایک مماثل درخواست کو قبول کرنے سے انکارکردیاتھا اور کہا تھا کہ اسے مسترد کیا جاناچاہئے۔

متعلقہ خبریں
بازار گھاٹ آتشزدگی سانحہ، اہم ملزم رمیش کمار گرفتار
حکومت تلنگانہ، نئے فوجداری قوانین کا جائزہ لے رہی ہے
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز

تازہ درخواست جو ایڈوکیٹ سنجیوملہوترا کے ذریعہ داخل کی گئی ہے اس میں یہ ہدایات جاری کرنے کی گزارش کی گئی ہے کہ تینوں فوجداری قوانین بھارتیہ نیائے سنہیتا (بی این ایس)‘بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا(بی این ایس ایس)  اور بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم (بی ایس اے) کے موزوں ہونے  کا جائزہ لینے ماہرین کی ایک کمیٹی فوری  تشکیل دی جائے۔

 پی آئی ایل میں کہاگیاکہ بھارتیہ نیائے سنہیتا میں 1860 ء کی تعزیرات ہند کے بیشترجرائم شامل ہیں۔ اس میں کمیونٹی سرویس کو سزا کی شکل دی گئی ہے۔ بغاوت اب کوئی جرم نہیں۔ اس کے بجائے ہندوستان کے اقتدارِاعلیٰ اتحاد ویکجہتی کو خطرہ میں ڈالنے والی حرکتوں کو ایک نیاجرم بنایاگیا ہے۔

 بھارتیہ نیائے سنہیتا میں دہشت گردی کو جرم کے طور پرشامل کیاگیا ہے۔ پی آئی ایل میں کہاگیاکہ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا2023 کے تحت 15 روزہ پولیس تحویل کی اجازت دی گئی ہے جسے عدالتی تحویل کے ابتدائی 40 یا60 دن یا 60 یا90 دن کے عرصہ میں مجاز قراردیاجاسکتا ہے۔

 اس کے نتیجہ میں اگر15 روزہ پولیس تحویل ختم نہ ہوئی ہو تو پورے عرصہ کیلئے ضمانت دینے کیلئے انکارکیاجاسکتا ہے اور اس دفعہ کا بیجااستعمال ممکن ہے کیونکہ عموماً لوگوں کو خاص طور پر غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والوں پر تحویل میں زبردست تشدد کیاجاسکتا ہے۔

درخواست میں مزیدکہاگیاکہ پارلیمنٹ میں قوانین کی منظوری بے قاعدہ رہی ہے کیونکہ تینوں بلوں کی منظوری کے موقع پرکئی ارکان کو معطل کردیاگیاتھا اور بہت کم افراد نے بلوں کی منظوری میں حصہ لیا۔ درخواست میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی تقریر کا حوالہ دیاگیا جس میں انہوں نے پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر قوانین وضع کرنے پر تشویش کا اظہارکیاتھا کیونکہ اس کی وجہ سے قوانین میں شفافیت نہیں ہوتی اور کافی مقدمہ بازی کی جاتی ہے۔

 پی آئی ایل میں کہاگیاکہ بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم میں 1872ء کے قانون شواہد کی بیشتردفعات کو برقرار رکھاگیا ہے جن میں اقبال جرم‘حقائق کا آپس میں تعلق اور ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ شامل ہیں۔

 یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگاکہ بارکونسل آف انڈیا(بی سی آئی) نے چہارشنبہ کے روز تمام باراسوسی ایشنس پر زوردیاکہ وہ نئے فوجداری قوانین متعارف کرانے کے خلاف کسی قسم کا احتجاج یا ایجی ٹیشن نہ کریں اور کہا کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرے گی تاکہ قانونی برادری کی تشویش سے اسے واقف کرایاجاسکے۔