شیخ حسینہ پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ، بڑی عدالتی کارروائی شروع
بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائمس ٹربیونل نے اتوار کے دن سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور دیگر دوکو خاطی قراردیا۔ ان پر قتل عام کے بشمول کئی الزامات ہیں۔

ڈھاکہ (پی ٹی آئی) بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائمس ٹربیونل نے اتوار کے دن سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور دیگر دوکو خاطی قراردیا۔ ان پر قتل عام کے بشمول کئی الزامات ہیں۔
گزشتہ برس طلباء کی قیادت میں جو احتجاج ہوا تھا اُس کے خلاف پرتشدد کارروائی میں بھی اُن کا رول تھا۔ اتوار کی کارروائی سے شیخ حسینہ کے خلاف اُن کے غیاب میں سماعت کا آغاز ہوگیا۔ احتجاج کے بعد اقتدار سے بے دخلی کے تقریباً 10 ماہ بعد یہ کارروائی ہوئی ہے۔
انٹرنیشنل کرائمس ٹربیونلس کی سہ رکن بنچ نے کہاکہ ہم الزامات کا نوٹ لیتے ہیں۔ ٹربیونل نے شیخ حسینہ اور اُس وقت کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال کے خلاف تازہ وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔ تیسرا ملزم اُس وقت کا انسپکٹر جنرل پولیس چودھری عبداللہ المامون جیل میں بند ہے۔ چیف پراسکیوٹر تاج الاسلام نے عدالت سے گزارش کی کہ عوامی لیگ کو جرائم پیشہ تنظیم سمجھا جائے۔
ٹربیونل کی کارروائی بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹی وی پر راست دکھائی گئی۔ کارروائی صبح 9:30بجے شروع ہونے تھی لیکن اس میں تھوڑی تاخیر ہوئی کیونکہ نامعلوم افراد نے سماعت شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل ٹربیونل کی گیٹ پر 3 خام بم پھینکے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ 2 بم پھٹے جبکہ تیسرے کو ناکارہ کردیا گیا۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کی حکومت کے دو اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں باقاعدہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ یہ کارروائی 2024 میں طلبہ تحریک کے دوران کیے گئے مبینہ پرتشدد کریک ڈاؤن کے سلسلے میں کی گئی ہے۔
چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے اتوار کو ایک ٹی وی سماعت کے دوران بتایا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شیخ حسینہ نے براہ راست ریاستی سیکیورٹی فورسز، اپنی سیاسی جماعت اور اس سے وابستہ گروپوں کو ایسے آپریشنز کے احکامات دیئے جن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا”یہ قتل منظم انداز میں کیے گئے تھے“ اور اس سلسلے میں ویڈیو شواہد اور مختلف ایجنسیوں کے درمیان خفیہ پیغامات بھی عدالت میں پیش کیے گئے۔استغاثہ کے مطابق مقدمے میں 81 افراد کو گواہ کی حیثیت سے نامزد کیا گیا ہے۔ عدالت میں یہ بھی کہا گیا کہ بطور سربراہِ حکومت، شیخ حسینہ پر سیکیورٹی فورسز کے تمام آپریشنز کی کمان کا قانونی بوجھ عائد ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ نے 15 سالہ حکمرانی کے بعد اگست 2024 میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لاکھوں مظاہرین کی سڑکوں پر مسلسل موجودگی کے سبب وہ بنگلہ دیش چھوڑ کر نئی دہلی منتقل ہوگئی تھیں۔ ان پر اور ان کے بعض قریبی رشتہ داروں پر کرپشن کے الزامات بھی عائد ہیں۔چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ مظاہروں اور کریک ڈاؤن کے دوران تقریباً 1,500 افراد جاں بحق اور 25,000 زخمی ہوئے تھے۔