گرمائی تعطیلات – بچوں کی دینی تربیت کا سنہری موقع: مولانا صابر پاشاہ قادری
تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤس، نامپلی کے امام و خطیب، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے سالانہ امتحانات کے اختتام پر منعقدہ فکری نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گرمائی تعطیلات بچوں کی دینی و دنیاوی تربیت کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہیں، جس سے والدین کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

حیدرآباد: تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤس، نامپلی کے امام و خطیب، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے سالانہ امتحانات کے اختتام پر منعقدہ فکری نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گرمائی تعطیلات بچوں کی دینی و دنیاوی تربیت کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہیں، جس سے والدین کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جدید دور کی مصروف زندگی میں اگر کچھ وقت اہلِ خانہ کو اکھٹے گزارنے کا موقع ملے تو یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے۔ اسکولوں کی سالانہ تعطیلات بظاہر بچوں کے لیے خوشی کا باعث ضرور ہوتی ہیں، تاہم والدین پر ان دنوں میں تربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
مولانا صابر پاشاہ قادری نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کے لیے تعطیلات کا منظم منصوبہ بنائیں تاکہ ان کی دینی، اخلاقی، تعلیمی اور سماجی تربیت ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کیے جائیں، اسکول کے ہوم ورک کو مرحلہ وار مکمل کرایا جائے، اور مطالعہ کے لیے انہیں اچھی کتابوں سے روشناس کرایا جائے۔
انہوں نے پنجگانہ نماز کی پابندی، فجر سے دن کے آغاز، باجماعت نماز، اور قرآن کریم کی تلاوت کو بچوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین خود بچوں کے ساتھ نماز پڑھیں اور قرآن کی تلاوت کریں تاکہ بچوں میں دینی لگاؤ پروان چڑھے۔
فطرت کے قریب جانے، کھلی فضا میں وقت گزارنے اور سیر و تفریح کے مواقع بھی بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے اہم قرار دیے گئے۔ مولانا نے تجویز دی کہ بچوں کو صبح کے وقت پارک یا قدرتی مقامات پر لے جایا جائے تاکہ وہ فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہوں۔
گھریلو ذمہ داریوں میں شامل کرنے، بزرگوں کی خدمت، اور اجتماعی کھانے جیسے معمولات سے بچوں میں اخلاق، صبر، محبت اور باہمی احترام کی تربیت ممکن ہے۔ والدین کو یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ بچوں کے دوستوں سے رابطہ رکھیں اور ان کی صحبت پر نظر رکھیں تاکہ کسی غلط اثر سے بچا جا سکے۔
مولانا صابر پاشاہ قادری نے زور دیا کہ والدین بچوں کو ہنر سکھانے پر بھی توجہ دیں جیسے خوشخطی، تجوید، مضمون نویسی، آرٹ، سلائی کڑھائی، اور باغبانی وغیرہ۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ غیرمسلم اداروں میں دینی تعلیم کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے بچے اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین پر لازم ہے کہ وہ بچوں کی دینی تعلیم کا خود اہتمام کریں یا کسی دینی ادارے سے رجوع کریں۔
انہوں نے کہا کہ والدین کو اپنی اولاد کے ایمان، عقائد، دینی تشخص، اور اخلاقی تربیت کی فکر دنیاوی ترقی سے بھی بڑھ کر کرنی چاہیے کیونکہ یہی دنیا و آخرت کی کامیابی کی بنیاد ہے۔
مولانا نے والدین کو تلقین کی کہ وہ تعطیلات میں اپنے بچوں کو ایسے تربیتی کیمپوں میں شریک کریں جہاں انہیں اللہ، رسولؐ، صحابہ کرام، اور اسلامی تاریخ و تہذیب کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ ایک بہتر مسلمان اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ یہی بچے ہمارے کل کے معمار ہیں، اور جیسی تربیت آج کی جائے گی، وہی کل کی تاریخ رقم کرے گی۔